عمومی سطح پر ہماری خواہشیں کسی بھی حد کو نہیں پہچانتیں۔ اُنہیں کسی مقام پر رکنے کا ہنر آتا ہی نہیں۔ ایک بار چل پڑیں تو بس چل پڑیں۔ خواہشوں کو اس بات کی کہاں پروا ہوتی ہے کہ اُن کے ہاتھوں کس پر کون سی قیامت گزر سکتی ہے اور گزرتی ہے۔ اُنہیں تو بس پنپنا ہے۔ کسی بھی خواہش کو آج دیکھیے تو کچھ ہے۔ کل دیکھیے تو کچھ اور ملے گی۔ یہی خواہش کی اصل پہچان ہے۔ جو یکساں درجے میں رہے وہ خواہش ہو ہی نہیں سکتی۔
کیا ہم صرف خواہشوں کا مجموعہ ہیں؟ کیا ہماری پوری زندگی محض خواہشوں کے زیرِ دام رہنے کا معاملہ ہے؟ کیا ہم خواہشوں کے دائرے میں گھومتے رہنے ہی کو زندگی سمجھ کر ہر اعتبار سے مطمئن رہ سکتے ہیں؟ خواہشوں کے حوالے سے سو طرح کے سوال ہیں جو ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں مگر ہم ان سوالوں کو بالعموم اہمیت نہیں دیتے۔ خواہشیں ہمیں اس بات پر اُکساتی ہیں کہ ہم اُن سے ہٹ کر کسی بھی معاملے پر نہ سوچیں‘ کسی بھی چیز کو اہمیت نہ دیں۔ یہی سبب ہے کہ عام آدمی خواہشوں کے مایا جال میں پھنس کر کسی اور معاملے کو خاطر میں لانے کا سوچنے کے قابل نہیں رہ پاتا۔
انسان کو زندگی بھر بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ وہ دن رات زیادہ سے زیادہ کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ انسان کے لیے اپنے فطری میلان سے ہٹ کر کچھ بھی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دنیا میں ناممکن تو خیر کچھ بھی نہیں مگر ہاں‘ لوگ مطلوب درجے کی محنت سے کتراتے ہیں اور جو کچھ پا سکتے ہیں اُس سے کہیں کم پر گزارا کرتے رہتے ہیں۔ خواہشوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سو طرح کی خواہشیں پالنے اور کسی اعلیٰ تر مقصد کے لیے خود کو وقف کرنے میں بہت فرق ہے۔ ہم چاہیں تو کسی بڑے مقصد کو حرزِ جاں بناتے ہوئے ایسا بہت کچھ کر سکتے ہیں جو ایک دنیا کے لیے مثال بنے مگر عمومی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ کسی بڑے مقصد کا حصول یقینی بنانے کے بجائے چھوٹی چھوٹی لاحاصل خواہشات کے مایا جال میں پھنسے رہنے میں زیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔
زندگی بہت بڑا معاملہ ہے مگر ہم اُسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہماری دلچسپی بالعموم سطحی قسم کے اہداف و مقاصد تک محدود رہتی ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم مطلوب نظم و ضبط کے ساتھ وہ سب کچھ کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتے جس کے بغیر بڑی کامیابی ممکن نہیں ہو پاتی۔ ہر ایک کے لیے زندگی نیوٹرل رہتی ہے۔ کسی کو غیر ضروری آسانیاں ملتی ہیں نہ غیر ضروری مشکلات۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے حصے میں زیادہ مشکلات آئی ہیں اور باقی دنیا زندگی کے مزے لُوٹ رہی ہے تو وہ اپنی فکری ساخت پر نظرِ ثانی کرے۔ زندگی کسی پر بے جا ظلم ڈھاتی ہے نہ کسی کو بے جا نوازتی ہے۔ ہم وہی کر پاتے ہیں جو ہم کرتے ہیں اور وہی بن پاتے ہیں جو بننے کی ہم کوشش کرتے ہیں۔ یہ سوچنا بے بنیاد ہے کہ کسی کے لیے زندگی سَفّاک ہوتی ہے اور کسی کے لیے رحم دل۔ ہم جس طور جیتے ہیں اُسی کی بنیاد پر ہماری زندگی کا کوئی رخ متعین ہوتا ہے‘ کوئی شکل بنتی جاتی ہے۔ ہم بالعموم زمینی حقیقتوں کو صدقِ دل سے قبول کرنے میں بُخل‘ تساہل اور خوف کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ آسانی دکھائی دے تو ہم فوراً لپکتے ہیں اور معمولی سی مشکل بھی نظر آرہی ہو تو ہم اُلٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ زندگی کو محدود کرکے دم لیتا ہے۔
کیا ہم اِس دنیا میں وہی سب کچھ کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں جو ہم کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں زندگی بھر خواہشوں کے پیچھے بھاگتے رہنا ہے؟ کیا خواہشوں کے دائرے میں گھومتے رہنے سے ہٹ کر زندگی کچھ بھی نہیں؟ کیا زندگی ایسی ہی بے وقعت ہے کہ خواہشوں کے استھان پر قربان کردی جائے؟ ایسے تمام سوالوں کے جواب ہر دور کے اہلِ دانش نے دیے ہیں۔ ہزاروں سال قبل چین کے عظیم فلسفی کنفیوشس نے کہا تھا ''ہم عمر بھر زندگی کو مشکل سے مشکل تر بناتے رہتے ہیں‘‘۔ اس ایک جملے میں دانش کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ غور کیجیے۔ کیا واقعی ایسا نہیں ہے کہ ہم مرتے دم تک زندگی کو مشکل بناتے جاتے ہیں؟ اللہ نے ہمیں دنیا میں قیام کی جو مہلت عطا کی ہے وہ ڈھنگ سے جینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وسائل بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا کیے جاتے ہیں اور وہ بھی ہمارے لیے کافی ہوتے ہیں۔ پھر بھی ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ وسائل جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ وسائل ہوں تاکہ لوگ ہمیں رشک کی نظر سے دیکھیں۔
جس زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں وہی زندگی ہمیں قدم قدم پر دھوکا دے رہی ہوتی ہے۔ ہم خواہشوں کے دام میں پھنس کر بہت کچھ پانے کی تگ و دَو کرتے رہتے ہیں اور جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے اُس سے بھی ہم کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے۔ یہ بات کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے کہ زندگی بہت کچھ پانے کی کوشش کرتے رہنے میں نہیں بلکہ جو کچھ ہے اُس سے کماحقہ استفادہ کرنے کا نام ہے۔ اگر بہت کچھ پاکر بھی ذاتی حالات نہ بدلیں تو اِتنی محنت کرنے کا فائدہ؟
ہم زندگی بھر ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو زیادہ وسائل سے ہم کنار نہ ہونے پر بھی ڈھنگ سے جی رہے ہوتے ہیں اور اُن کی زبان پر کبھی کسی بات کا شکوہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ زندگی بھر بہت کچھ پانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں اور جو کچھ مل چکا ہوتا ہے اُس پر اللہ کا شکر ادا کرنے میں کوتاہی کر جاتے ہیں۔ جو کچھ عطا کیا جا چکا ہو اُس پر اللہ کا شکر ادا کرنا بھی کافی نہیں۔ اُس سے مستفید ہونا بھی ناگزیر ہے۔ ناشکرے پن کی طرح نعمتوں سے مستفید نہ ہونا بھی اللہ کو پسند نہیں۔
خواہشوں کے جنتر منتر میں پھنسے رہنے سے انسان کو کچھ نہیں ملتا۔ خواہشوں کو عملی شکل دینے کی ضرورت میں زندگی کا معیار بلند ضرور ہوتا ہے مگر صرف اُس وقت جب ہم طے کریں کہ جو کچھ ملا ہے اُس سے انفرادی سطح پر زندگی اور ماحول کا معیار بلند کریں گے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ خواہشات کا پیدا ہونا اور پروان چڑھنا غیر فطری نہیں۔ ہر انسان کا یہی معاملہ ہے مگر خرابیاں اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان یا تو خواہشات کے دائرے میں گھومنے سے زیادہ کچھ نہ کرے یا پھر کسی ایک خواہش کے حصول کی دوڑ میں اندھا ہوکر ہر معاملے کو پیچھے چھوڑ دے۔ شدت پسندی ہر معاملے میں بُری ہوتی ہے۔ خواہشوں کے معاملے میں بھی شدت پسندی محض بربادی لاتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایک خواہش حواس اور فکری ساخت کو گرفت میں لے کر معاملات کو اِتنا بگاڑ دیتی ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
زندگی کوئی ایسا گیا گزرا معاملہ نہیں کہ کسی بھی خواہش کے سَر سے وار کر پھینک دیا جائے۔ کوئی بھی خواہش زندگی سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ ہر خواہش کو زندگی کا معیار بلند کرنے والی حقیقت کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی خواہش ہی کو زندگی بنا لیا جائے۔ جو لوگ ایسا کر بیٹھتے ہیں وہ خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔
خواہشیں زندگی کا معیار بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اُنہیں اِس کردار کے ادا کرنے تک ہی محدود رکھا جائے تو اچھا۔ کسی بھی خواہش کو اس قدر پروان چڑھانے کی گنجائش نہیں کہ باقی سب کچھ داؤ پر لگ جائے۔ زندگی توازن اور اعتدال کا نام ہے۔ جب تک ہم توازن کے ساتھ چلتے رہتے ہیں تب تک سفر بار آور ثابت ہوتا رہتا ہے۔ جب ہم خواہشوں کو ایک خاص دائرے میں مقید رکھتے ہیں تب زندگی توازن سے گزرتی ہے کیونکہ سب کچھ اپنے حساب سے چلتا رہتا ہے۔ جب خواہشیں دائرے سے باہر نکل کر تمام معاملات کو لپیٹ میں لینے لگتی ہیں تب خرابیاں شروع ہوتی ہیں اور پھر زندگی صرف الجھنوں کی نذر ہوکر رہ جاتی ہے۔ سوچیے‘ طے کیجیے کہ آپ کو بے لگام خواہشوں کے ساتھ جینا ہے یا ایسی خواہشات کے ساتھ جو معقولیت کی حدود میں ہوں۔