زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ یہ کسی ایک معاملے کا قصہ نہیں۔ کم و بیش ہر معاملے ہی میں زمانہ بالکل بدل چکا ہے۔ کل تک ایسا بہت کچھ تھا جو ہماری زندگی کا ناگزیر سا حصہ تھا مگر اب کہیں دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ بالکل اِسی طور جن چیزوں کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اُنہیں اپنانا پڑے گا وہ تمام چیزیں آج ہماری زندگی کا حصہ ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ حرزِ جاں ہیں۔ ابھی کل تک کتاب ہماری زندگی کا حصہ تھی۔ کتاب یعنی علم! یعنی علم سے ہماری دوستی برقرار تھی۔ کتاب سے رغبت زندگی سے محبت کی علامت ہے کیونکہ کتاب ہی زندگی کا معیار بلند کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ کتاب ہی کی مدد سے ہم سوچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ادراک و شعور کی سطح بلند کرنے میں کتاب کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنا بوریا بستر نہیں کھولا تھا تب تک کتاب ہماری زندگی کا حصہ تھی۔ اب ہر طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دکان کھلی ہوئی ہے۔ ایسے میں کتاب کے لیے کچھ خاص گنجائش بچی ہی نہیں۔ جنہیں کتاب سے غیر معمولی رغبت ہے وہی مطالعے کے بارے میں سوچتے ہیں، کتابیں خریدتے ہیں اور اپنے وقت کا معقول حصہ کتابوں میں کھپاتے ہیں۔ کل تک معاملہ یہ تھا کہ کتاب پڑھنے کی عادت محض پڑھے لکھے اور علم پسند افراد ہی تک محدود نہ تھی۔ عام آدمی بھی کتاب ہاتھ میں لے کر ورق گردانی کرلیا کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں علم دوستی بسا کرتی تھی۔ تھوڑا سا موقع یا گنجائش ملنے پر کتاب کو حرزِ جاں بنانے کے بارے میں سوچنے کی تحریک بھی مل جایا کرتی تھی۔
جب تک کتاب ہماری زندگی میں تھی‘ زندگی میں بہت کچھ تھا۔ علم سے دوستی بھی تھی اور زندگی کے بارے میں سوچنے کا احساس و شعور بھی۔ سب سے بڑھ یہ کہ کتاب کی بدولت ہم میں سنجیدگی کی سطح خاصی بلند تھی۔ انسان اہم معاملات کو محض سرسری طور پر نہیں لیتا تھا بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا تھا، سنجیدہ رہتے ہوئے معاملات کو ڈھنگ سے نمٹانے کی کوشش کرتا تھا۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی چاہتی ہے۔ بعض معاملات میں ہم لا پروائی اور لااُبالی پن کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ کتاب ہمیں بتاتی تھی کہ زندگی کو کب کتنی سنجیدگی درکار ہوتی ہے اور ہمیں کب زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی تھی کہ معمول کی روش سے ہٹ کر چلنے کے لیے کس طور تیار ہوا جائے۔ مطالعہ ہی ہم میں وہ بالغ نظری پیدا کیا کرتا تھا جو زندگی کو قابلِ رشک بنانے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں کتب بینی ایک بنیادی قدر کے طور پر کم و بیش پانچ عشروں تک موجود رہی۔ 1947ء سے 2000ء تک کتاب ہماری زندگی کا اہم حصہ تھی۔ ملک کے قیام کے ابتدائی زمانے میں مطالعے کی عادت کو اساتذہ اور والدین نے مل کر پروان چڑھایا تھا۔ سکول کی سطح پر یعنی خاصی چھوٹی عمر میں مطالعے کی عادت ڈالی جائے تو بچے بڑے ہوکر کتاب کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کم از کم تین نسلوں نے کتاب سے قابلِ رشک دوستی سلامت رکھی۔ والدین اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ بچے مطالعہ کرتے رہیں۔ مطالعے ہی سے ذہن پروان چڑھتا ہے۔ اساتذہ مطالعے کی حقیقی اہمیت سے واقف تھے اس لیے سکول کی سطح پر کتب خانے ہوا کرتے تھے۔ بچوں کو نصاب سے ہٹ کر مطالعہ کرنے کی تحریک دی جاتی تھی۔ کتب جاری کی جاتی تھیں اور اساتذہ بچوں سے مطالعے کے حوالے سے استفسار کیا کرتے تھے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ والدین کا تھا۔ وہ بھی بچوں میں کتب بینی کی عادت پختہ بنانے پر توجہ دیتے تھے۔ گھروں میں مختلف موضوعات پر کتابیں رکھنے کا رواج عام تھا۔ ہفت روزہ جرائد اور ماہنامے پڑھنے کا رجحان مضبوط تھا۔ مرد و زن دونوں ڈائجسٹ پڑھنے کے شوقین تھے۔ ہفت روزہ جرائد اور ماہنامے پڑھنے سے بچوں اور نوجوانوں میں بھی مطالعے کا شوق پروان چڑھتا تھا۔ ڈائجسٹ اس لیے زیادہ مقبول تھے کہ اُن میں چند صفحات کی کہانیاں ہوا کرتی تھیں جنہیں آسانی سے ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتا تھا۔ ڈائجسٹوں نے عام آدمی کو بھی مطالعے کی طرف مائل کیا اور لوگ رفتہ رفتہ کتب بینی کی طرف آتے رہے۔
اکیسویں صدی کی آمد تک مطالعے کے رجحان کی سانس اکھڑنے لگی۔ اِس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انسان کو بہت کچھ ایسا مل گیا تھا جو اُس کے فراغت کے لمحات پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہونے لگا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہوش رُبا پیش رفت نے کتب بینی کے لیے زیادہ گنجائش نہیں چھوڑی کیونکہ لوگ دوسرے بہت سے معاملات میں الجھ گئے تھے۔ آڈیو اور وڈیو فائلز سننے‘ دیکھنے کا شوق پروان چڑھتا گیا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ لوگ سوشل میڈیا کے سمندر میں ایسے غرق ہوئے کہ ابھی تک ابھرنے کا نام نہیں لے رہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں گم رہنے والوں کو ذہن کی بالیدگی کا گراف بلند کرنے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ بہت سی لاحاصل پوسٹیں بھی پڑھنا پڑتی ہیں۔ بہت سے ایسے وڈیو کلپس دیکھنا پڑتے ہیں جن میں بظاہر کام کا کچھ نہیں ہوتا۔ سماجی رابطے کی بیشتر ویب سائٹس در حقیقت وقت کو زیادہ سے زیادہ برباد کرنے کے طریقوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ جو لوگ ان ویب سائٹس سے ''مستفیض‘‘ ہونے میں مصروف رہتے ہیں وہ دراصل اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب تو نفسی امور کے ماہرین بھی زور دے کر یہ نکتہ بیان کر رہے ہیں کہ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے دوری ناگزیر ہے۔ ہر طرح کے میڈیا نے آج کے انسان کو گھیر لیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ایک طرف تو وقت بہت ضائع ہو رہا ہے اور دوسری طرف انسان میں کتب بینی کے حوالے سے ذوق و شوق کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ عام آدمی سمارٹ فون کی مدد سے سوشل میڈیا میں اس حد تک کھویا ہوا ہے کہ اب اُسے اس بات کا احساس بھی نہیں کہ کتب بینی زندگی کا حسن نکھارنے کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ جب کسی چیز کی قدر و قیمت ہی کا اندازہ و احساس نہیں تو پھر اُسے اپنانے کے بارے میں کیونکر سوچا جا سکتا ہے۔
آج کی زندگی بہت سے معاملات میں ایسی بالیدگی چاہتی ہے جو آسانی سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ آج کا انسان سرسری انداز میں جی رہا ہے۔ وہ بیشتر معاملات کو سطحی انداز سے لیتا ہے اور سطحی انداز ہی سے نمٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زندگی کا معیار بلند نہیں ہو پاتا۔ وقت سب سے قیمتی چیز ہے مگر اِسی کو انتہائی بے دردی اور بے ذہنی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔ کتب بینی اُن چند بنیادی افعال و عادات میں سے ہے جن کی بدولت انسان وقت کا ضیاع روکنے کے طریقے سیکھ پاتا ہے۔ ہر دور کے انسان کو بہت کچھ سیکھنا پڑا ہے۔ آج کے انسان کو بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اہم ترین وصف ہے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا اور اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا۔ ایسا اُسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان سنجیدہ ہو۔ سرسری انداز سے جینے کی صورت میں ایسا ممکن نہیں۔ اگر کسی کو زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا ہے تو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ سنجیدگی کو حرزِ جاں بنانے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ کتب بینی کا وصف اپنائے بغیر ڈھنگ سے جینے کا ہنر سیکھا نہیں جا سکتا۔ اکیسویں صدی پوری آب و تاب کے ساتھ گزر رہی ہے۔ وقت نے ایسی کروٹ لی ہے کہ بہت کچھ آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود سمجھ میں نہیں آرہا۔ ایسے میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیکھنے پر مائل ہونے کے بجائے آنکھیں موند کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ یہ وہی طرزِ عمل ہے جو بلی کو سامنے پاکر کبوتر اپناتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سنجیدگی اپنائی جائے اور اِس کے لیے کتب بینی کی عادت کو مزاج کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ معیاری کتب بینی ہی ہمیں ڈھنگ سے جینے کا ہنر سکھا سکتی ہے۔ کتب بینی کا احیا اب آپشن نہیں‘ ناگزیر ضرورت ہے۔