کاروبار میں دوستی دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی دشمنی۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ اچانک بہت کچھ بدل ہی جاتا ہے۔ ہم کبھی کبھی بعض معاملات میں کسی بڑی یا اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ حیران و پریشان رہنے کی گنجائش ہے ہی کہاں؟ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض اس لیے نہیں ہے کہ اُس پر حیران ہوا جائے بلکہ اصلاً تو خود کو تیار کرنے کا معاملہ درپیش رہتا ہے۔ ہر تبدیلی ہم سے بھی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے۔
اور ہم معاملات کو کاروبار تک کیوں محدود رکھیں؟ سیاست ہو یا معاشرت ... کہیں بھی مستقل مفادات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جب مفادات مستقل نہیں ہوتے تو پھر دوستی اور دشمنی مستقل کیونکر ہو سکتی ہے؟ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ دوستی بھی سوچ سمجھ کر کی جائے اور دشمنی بھی۔ سوچنے سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ مفادات کو ذہن نشین رکھا جائے۔ اگر مفادات کو تحفظ ملتا ہو تو دوستی کی جائے۔ ہاں‘ کسی سے دوستی کا لازمی مفہوم یہ نہیں کہ کسی اور سے دشمنی ہی کی جائے۔ دانش سے کام لینے والے اعتدال کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ یہ بھی کامیابی یقینی بنانے کا ایک معقول اور آزمودہ طریقہ ہے۔
بین الاقوامی اور بین الریاستی تعلقات میں بھی معاملات نہ دوستی کے ہوتے ہیں نہ دشمنی کے۔ کسی کا ساتھ مستقل ہوتا ہے نہ ''وچھوڑا‘‘ ہی پائیدار ہوتا ہے۔ بہت کچھ دیکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ زندگی تبدیلی کا نام ہے۔ تبدیلی صرف مزاج میں نہیں آتی‘ تعلقات میں بھی واقع ہوتی ہے۔ ایسی ہر تبدیلی مزید تبدیلیوں کی متقاضی ہوتی ہے۔ گام گام اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے رہنا دنیا کا کام ہے۔ بدلتی دنیا کا ساتھ دینا پسند و ناپسند کا معاملہ نہیں۔ تبدیلی کے مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ جس نے یہ راز جانا وہی کامیاب رہا۔ سوال یہ نہیں کہ کوئی حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو کماحقہ بدل پاتا ہے یا نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ تبدیلی کے لیے کوشاں رہا جائے۔ کمی بیشی چل ہی جاتی ہے۔
بدلتی ہوئی دنیا میں ہمیں بھی بدلنا ہے مگر ہم اب تک اس کے لیے پوری ذہنی تیاری نہیں کر پائے ہیں۔ معاشرتی سطح پر دیکھیے تو خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان خرابیوں کی جڑ میں ہماری یہی ضد ہے کہ خود کو بدلنا نہیں ہے۔ عوام ہیں کہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ کاروباری طبقہ کسی بھی نوع کی مثبت تبدیلی کے لیے کوشاں ہونے سے انکاری ہے۔ سرکاری مشینری کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ کرپشن انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور روز بروز اس کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ حقیقی تبدیلی کے لیے کوئی بھی تیار نہیں کیونکہ سبھی کو اپنے اپنے مفادات کے داؤ پر لگنے کا خدشہ پریشان کرتا ہے۔
ریاستی سطح کے معاملات بھی بری طرح رلے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے معاشی خرابیاں بھی بڑھائی ہیں اور بین الاقوامی یا بین الریاستی تعلقات کو بھی الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ ریاستی سطح کے معاملات ایسی پیچیدگیوں سے دوچار ہیں جو عام آدمی کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتیں۔ ایک زمانے سے ملک میں یہ شور برپا ہے کہ مغرب نے کچھ نہیں دیا۔ ہر دور میں ہم نے مغرب کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کام کیا مگر اِس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ صرف ذِلّت‘ اور کیا؟ ایسے معاملات میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ سے پاکستان کے تعلقات کبھی ایسے نہیں رہے کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں کچھ فائدہ پہنچے۔ امریکا نے بھی پاکستان کو استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور یورپ بھی اپنی مرضی کے مطابق پاکستان کو بروئے کار لاتا رہا ہے۔ آج بھی ہم ان دونوں خطوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ کا جھکاؤ امریکا کی طرف اس حد تک ہے کہ اس تعلق کو غلامانہ ہی کہا جانا چاہیے۔
کم و بیش پانچ عشروں کے دوران مغرب کی طرف جھکاؤ نے ہماری عزتِ نفس کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ عام پاکستانی اب واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ امریکا اور یورپ کی تابع داری سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ بہت کچھ چلا گیا ہے۔ امریکا کا معاملہ کچھ زیادہ خراب رہا ہے۔ اُس نے اپنے مقاصد کے لیے مملکتِ خداداد کو جی بھر کے استعمال کیا ہے اور کام نکل جانے کے بعد ہم سے جان چھڑانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ امریکی قیادت کی عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ جس ملک سے جتنا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اٹھایا جائے اور جب ضرورت باقی نہ رہے تو کنارہ کش ہونے میں دیر نہ لگائی جائے۔ سرد جنگ کا زمانہ ہو یا نائن الیون کے بعد کی صورتحال‘ امریکا نے اپنے یورپی حلیفوں کے ساتھ مل کر ہمیں شدید ناکامی اور بربادی سے دوچار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ افغانستان کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لیے مغربی طاقتوں نے ہمیں استعمال کیا اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینکنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگائی۔
دو عشروں کے دوران دنیا بہت بدل گئی ہے۔ چین کا ابھرنا امریکا اور یورپ کے لیے دردِ سر سے کم نہیں۔ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہو چکی ہے اور بعض معاملات میں یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہیں۔ یورپ نے بہت سے معاملات میں امریکا سے راہیں الگ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ یورپ جانتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اب زیادہ اس لیے نہیں چلا جا سکتا کہ دنیا بہت بدل گئی ہے۔ چین مضبوط ہوکر‘ ابھر کر سامنے آچکا ہے۔ ایسے میں طاقت کا عالمی مرکز تبدیل ہونے کا بھی امکان پایا جاتا ہے۔ یورپی قائدین وقت کے تقاضوں کو سمجھتے بھی ہیں اور نبھانا بھی جانتے ہیں۔ برطانیہ بھی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ یورپ کی بیشتر قوتوں نے پالیسیاں بدل لی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ نئی حکمت عملی بھی اپنائی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ ناگزیر ہے مگر امریکا اپنی ڈگر بدلنے کو تیار نہیں۔ وہ اب بھی دوسروں کی بربادی سے اپنی آبادی چاہتا ہے۔ اس راہ پر چلتے ہوئے اُس نے کم و بیش سات عشروں سے ایک دنیا کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔
پاکستان کے لیے بھی وقت آگیا ہے کہ نئی طرزِ زندگی اپنائی جائے‘ نئے پارٹنر تلاش کیے جائیں۔ پاکستان نازک موڑ پر ہے۔ مجبوریاں زیادہ ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مزاحمت کی ہی نہ جائے۔ امریکا ہر معاملے میں ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دینا چاہتا ہے۔ اگر ہم سر جھکائے سب کچھ مانتے چلے جائیں گے تو پھر ہمارے لیے سر اُٹھانے کی گنجائش برائے نام بھی نہ رہے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس آپشن نہیں ہیں۔ چین کے علاوہ روس بھی ایک اچھا آپشن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ترکی ہماری مدد کے لیے تیار رہتا ہے۔ یورپ سے بھی تعلقات کو نئی شکل اور نئی جہت دی جا سکتی ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں پاکستانی خاصی بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ اُن کی مدد سے دو طرفہ تعلقات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ غیر مقیم پاکستانی دنیا بھر میں وطن کی ساکھ بہتر بنانے اور پنپنے کی مزید گنجائش پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں عمومی سطح پر پایا جانے والا ایک خوف یہ بھی ہے کہ امریکا ناراض ہوگیا تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ امریکا واحد سپر پاور سہی مگر ہماری زندگی کا مالک نہیں۔ ہمیں ہر معاملے میں اول و آخر صرف اللہ کی ذات پر بھروسا کرنا ہے۔ اللہ ہی کے کرم سے ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہم نے کسی ٹھوس جواز کے بغیر یہ طے کر رکھا ہے کہ ہر حال میں امریکا کا مطیع و فرماں بردار رہنا ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل! تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟
سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے ہماری مجموعی سوچ میں اب تبدیل ہونی چاہیے۔ ہماری کمزوری اور مجبوری اپنی جگہ تاہم جہاں تھوڑی بہت گنجائش دکھائی دیتی ہو وہاں تو اپنے آپ کو آزمانے میں کچھ ہرج نہیں۔ جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ زیادہ نہ ہو اُنہیں تو جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہیے۔