سیاسی عدمِ استحکام نے قوم کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ سیاسی سطح پر پائے جانے والے افتراق و انتشار نے ہر شعبے کو تاراج کرنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے۔ قوم حیران و پریشان یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ جنہیں ملک چلانا ہے وہ دو قدم بھی ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔ اشتراکِ عمل کا تصور مٹ چلا ہے۔ اتحاد و اتفاق کا اب صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ اختلافات مفادات سے شروع ہوکر مفادات پر ختم ہو رہے ہیں۔ اہلِ سیاست کی خرابیاں اپنی جگہ اور ریاستی مشینری کی ابتری اپنی جگہ۔ قوم ایک زمانے سے صرف خواب دیکھ رہی ہے کہ ایک دن سب کچھ درست ہو جائے گا، ہر طرف امن ہوگا، استحکام یقینی بنایا جائے گا، ڈھنگ سے یعنی آبرو مندانہ انداز سے جینا ممکن ہو پائے گا۔ محض خوش فہمیوں سے کیا ہوتا ہے؟ جاگتی آنکھوں کے خواب‘ خواب ہی تو ہوتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا بڑی سفاک ہے، خوابوں کو ایک ہی ضرب سے چکناچور کردیتی ہے۔ زمینی حقیقتیں کسی کو غیر ضروری طور پر نوازتی ہیں نہ کسی سے ناانصافی و زیادتی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ یہ حقیقتیں اپنی جگہ رہتی ہیں، بالکل غیر متعلق اور غیر جانبدار۔ ہمیں اپنا قبلہ درست رکھنا پڑتا ہے۔
پاکستان عجیب موڑ پر پہنچا ہے۔ حکومتی ڈھانچا موجود ہے مگر اُس کی روح غائب ہوچکی ہے۔ عوام کو بنیادی مسائل کے حل کے لیے بھی سڑکوں پر آنا پڑ رہا ہے۔ پینے کے صاف پانی کا معقول حد تک اور ڈھنگ سے حصول بھی چیلنج بن چکا ہے۔ بجلی اور گیس کا بحران اپنی جگہ ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا ڈھانچا بھی اِتنا کمزور ہے کہ عوام کو اُس سے کچھ خاص مل نہیں پارہا۔ بیشتر معاملات مافیا کی نذر ہوچکے ہیں۔ ہر شعبے میں مافیا سرگرم ہے۔ ہر چیز اب مارکیٹ ویلیو کے مطابق چلتی ہے۔ عوام کو پینے کا صاف پانی بھی خریدنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ مافیا کے سبب ہوا ہے۔ عوام کو دانستہ پانی سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پانی خریدنے پر مجبور ہوں۔ یہی حال بجلی اور گیس کا ہے۔ گیس کا معاملہ بہت زیادہ رُلا ہوا نہیں‘ ہاں! بجلی کا معاملہ شدید بحران کی نذر کردیا گیا ہے۔ لوگوں کے لیے ڈھنگ سے نیند پوری کرنا بھی ممکن نہیں ہو پارہا۔ جن علاقوں میں ڈھائی ڈھائی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ چوبیس گھنٹے میں تین یا چار بار ہوتی ہے ذرا اُن سے پوچھئے تو وہ بتائیں گے کہ ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا
جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے وہ ہر اُس انسان کے لیے سوہانِ روح ہے جو ڈھنگ سے جینا اور ملک کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ ملک کے استحکام کا مدار اِس بات پر ہوتا ہے کہ عام آدمی کس طور جی رہا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ سرکاری یا ریاستی مشینری کے تمام پُرزوں نے اپنے اپنے مفادات طے کرلیے ہیں اور اُن سے ذرّہ بھر بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ہر طبقہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھنے اور وسعت دینے پر تُلا رہتا ہے۔ ریاستی و انتظامی مشینری میں کوئی بھی کسی نوع کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ قومی معیشت پر خواہ قیامت گزر جائے، حکومتی و ریاستی معاملات چلانے والوں کی بلا جانے۔ وہ دن رات اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فوائد یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی عذابِ جاں کا درجہ رکھتا ہے جبکہ حکومتی مشینری کی تنخواہوں اور مراعات میں ہر سال باقاعدگی سے اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری نوکری میں مزے اس قدر ہیں کہ عام آدمی دیکھ دیکھ کر محض الجھن محسوس کرتا ہے۔ اگر اُس کا احساسِ محرومی پروان نہ چڑھے تو اور کیا ہو؟
سالِ رواں کے دوران سیاسی انتشار نے انتہائی شکل اختیار کی اور حکومت کی تبدیلی بھی واقع ہوئی۔ حکومت کی تبدیلی سے پہلے بھی بے یقینی کی کیفیت تھی اور اب بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کورونا کی وبا نے کیا کم آفت ڈھائی تھی کہ اہلِ سیاست رہی سہی کسر پوری کرنے میں لگ گئے۔ جب پی ٹی آئی کی سرکردگی میں حکومت کام کر رہی تھی تب بھی اپوزیشن نے ہنگامہ برپا کر رکھا تھا اور اب جبکہ پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے تو بھی وہ سکون سے بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ پی ڈیم ایم کی قیادت میں بننے والی حکومت کو قائم ہوئے ساڑھے چھ ماہ ہوچکے ہیں مگر اب تک کسی کو اندازہ نہیں کہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس نصف برس کے دوران قوم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران پیدا ہونے والی معاشی خرابیوں نے انتہائی شکل اختیار کی اور معاشی ابتری کے بطن سے پیدا ہونے والی مہنگائی اور بیروزگاری نے قیامت ڈھادی۔ عام آدمی کے لیے کام پر جانے اور آنے کے اخراجات بھی اب عذاب کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ انسان دو وقت کی روٹی کے بندوبست سے اوپر نہیں اٹھ پارہا۔ ایسے میں قابلِ رشک انداز سے جینے کا تو صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ عوام بے چارے اب خواب دیکھنے سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟
سیاسی بے یقینی بڑھتی جارہی ہے۔ اہلِ سیاست اور طاقتور حلقوں کے درمیان تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت نے قوم کو ششدر کر رکھا ہے۔ عوام کے ہاتھ میں ہے کیا؟ وہ تو نرے بے اختیار ہیں۔ تماشا دیکھنے سے زیادہ کیا کرسکتے ہیں؟ کچھ نہیں کھلتا کہ کون کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے ساتھ نہیں۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے اب تک اس حقیقت کو تسلیم اور قبول نہیں کیا کہ اُس کی حکومت جاچکی ہے۔ حکومت کی تبدیلی جن حالات میں اور جس انداز سے واقع ہوئی وہ اب تک پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے ایسے سہانے خواب کے مانند ہے جو اچانک بھیانک ہو جائے اور ہڑبڑاکر اُٹھنے پر مجبور کردے۔ وہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو تسلیم و قبول کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں۔ حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کی ایک نیم دلانہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے۔ عمران خان اب بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت جلد کال دیں گے۔ لانگ مارچ کی کال کب دی جائے گی اِس حوالے سے بھی اچھا خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ عمران خان خود بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ لوگ گھروں سے نکلیں گے بھی یا نہیں۔ عمران خان لانگ مارچ کے حوالے سے کس حد تک سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ اُن کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ لانگ مارچ کی کال ضرور دی جائے گی اور کچھ نہیں تو لوگ انجوائے ہی کرلیں گے! دوسری طرف حکومت بھی ڈٹی ہوئی ہے۔ رانا ثناء اللہ خان کی سربراہی میں وزارتِ داخلہ واضح کرچکی ہے کہ اسلام آباد کے گھیراؤ کی ہر کوشش سختی سے کچل دی جائے گی۔ ایک دور تھا کہ حکومت مخالف تحریک خاصی اہم ہوا کرتی تھی۔ جب ایسی کوئی بھی تحریک چلتی تھی تو ملک بھر میں غیر معمولی ہلچل دکھائی دیتی تھی۔ سوال صرف خرابی کا نہ تھا، لوگ متحرک ہوتے تھے اور کسی بڑی، مثبت تبدیلی کے لیے سنجیدہ ہوا کرتے تھے۔ اب لانگ مارچ اور حکومت مخالف تحریک بھی تفریحِ طبع کے معاملات ہوکر رہ گئے ہیں۔ تحریک چلانے والوں میں سنجیدگی دکھائی دیتی ہے نہ عوامی سطح ہی پر خاطر خواہ سیاسی جوش و جذبہ نظر آتا ہے۔ ہر معاملہ بھرتی کا معلوم ہوتا ہے۔
دنیا بہت کچھ چاہتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم تبدیل ہوں۔ تبدیل ہونا اب ناگزیر معاملہ ہے۔ ہمیں خطے میں اور عالمی سطح پر اپنے آپ کو غیر متعلق ہونے سے بچانے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ بین الریاستی معاملات کو درست رکھنا لازم ہے مگر اِس کے لیے پہلے گھر کی دُرستی لازم ہے۔ گھر میں خرابیوں کا بازار گرم ہے تو باہر کسی سے بھی کوئی اچھی ڈیل کیسے ہوسکتی ہے؟ کہیں بھی جاکر معاملات کی دُرستی کی بات کیجیے تو فریقِ ثانی کہتا ہے پہلے اپنے گھر کو تو دُرست کیجیے۔ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ جب تک ہم اپنی صفوں میں ترتیب پیدا نہیں کریں گے تب تک کام کیسے چلے گا؟ عالمی برادری میں کسی قابلِ ذکر مقام تک پہنچنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنی خرابیوں کو دور کریں۔ اصلاحِ احوال ہی ہماری بقا کی ضمانت فراہم کرنے والا معاملہ ہوسکتا ہے۔ اندرونی خامیوں کو دور کرنے میں ناکام رہنے والے معاشرے اقوامِ عالم میں اپنے لیے کچھ بھی ممکن نہیں بناسکتے، کچھ نہیں پاسکتے۔