کبھی آپ نے کوئی ساکت و جامد معاشرہ دیکھا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ ساکت و جامد معاشرے سے کیا مراد ہے؟ ہمیں تو کوئی بھی معاشرہ رُکا ہوا‘ ٹھہرا ہوا نہیں لگتا۔ بات سچ ہے! کوئی ایک معاشرہ بھی ایسا نہیں جو مکمل طور پر ساکت یا جامد محسوس ہوتا ہو۔ ہر معاشرے میں تھوڑا بہت تحرک تو ہوتا ہی ہے۔ اگر تحرک نہ ہو تو معاشرہ دم توڑ دے۔ بالکل ٹھیک! کوئی ایک بھی معاشرہ ایسا نہیں جس میں‘ نچلی سطح ہی پر سہی‘ تحرک نہ پایا جاتا ہو۔ انتہائی پسماندہ معاشروں میں بھی تھوڑی بہت ہلچل تو ہوتی ہی ہے۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ ہم اپنے معاشرے کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی معنوں میں ساکت و جامد تو یہ بھی نہیں۔ کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت ہلچل تو مچتی ہی رہتی ہے۔ کاروبارِ زندگی چل رہا ہے۔ لوگ کام کر رہے ہیں، اجرتیں مل رہی ہیں، اشیائے صرف بنائی‘ بیچی اور صرف کی جارہی ہیں۔ خدمات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ معاشرے میں تھوڑی بہت گہما گہمی تو دکھائی دیتی ہی ہے۔ کہیں ہلچل زیادہ ہے، کہیں تھوڑی کم ہے۔ بہر کیف تحرک تو ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ تحرک سے مکمل عاری معاشرہ تو کوئی بھی نہیں۔ زندگی تو سبھی گزار رہے ہیں۔ خوراک و توانائی سمیت تمام بنیادی اشیا و خدمات کی ضرورت سبھی کو پڑتی ہے اس لیے اُن کی پیداوار اور صرف ایسا عمل ہے جو ہر صورت جاری رہتا ہے۔ تو پھر ساکت و جامد معاشرہ کسے قرار دیا جائے گا؟ لوگ جی رہے ہیں، چل پھر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، اجرتیں پارہے ہیں، کھا پی رہے ہیں، بچے پیدا ہو رہے ہیں، لوگ مر رہے ہیں۔ سبھی کچھ تو ہو رہا ہے۔ پھر ساکت و جامد کا کیا مفہوم ہے؟ حقیقی معنوں میں ساکت و جامد معاشرہ وہ ہے جس میں کچھ نیا کرنے کی لگن دم توڑ رہی یا دم توڑ چکی ہو۔ کیا ہم اپنے معاشرے کو جان و دل سے کام کرنے‘ کچھ نیا کر دکھانے کی لگن کے پیمانے سے جانچنا پسند کریں گے؟ کیا یہ ایک دل خراش حقیقت نہیں کہ ہمارے ہاں اب کچھ بھی نیا کرنے کی لگن دم توڑتی جارہی ہے؟ لوگ بہت کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں مگر پھر بھی حقیقی ندرت پیدا ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نئے سے مراد ہے ایسا کچھ جو عدل کے تقاضوں کو نبھانے میں معاون ثابت ہو۔ ماننا پڑے گا کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا جو معاملات کو مساوات اور عدل کی طرف لانے میں معاون ثابت ہو۔ معاشی و معاشرتی عدل کے حوالے سے معاشرے پر سُکوت اور جمود طاری ہے۔ لوگ ''جہاں ہیں، جیسے ہیں‘‘ کی بنیاد پر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اب کوئی بھی ایسی تبدیلی نہیں چاہتے جس میں مفادات کو ضرب لگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی معاشرے متحرک رہے ہیں جن کے لوگ کچھ نیا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور اس بات کے لیے بھی تیار ہوں کہ مفادات کسی حد تک داؤ پر لگتے ہیں تو لگ جائیں۔ کسی بھی معاشرے کو حقیقی تحرک سے دور رکھنے میں سب سے بڑا کردار مفادات کے داؤ پر لگنے کے خوف کا ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎
طرزِ کُہن پہ اَڑنا، آئینِ نو سے ڈرنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
طرزِ کُہن پہ کوئی کیوں اَڑتا ہے؟ صرف اِس لیے کہ کوئی بھی تبدیلی اُس کے مفادات کو داؤ پر نہ لگائے۔ آئینِ نو سے خوف کیوں محسوس ہوتا ہے؟ صرف اس لیے کہ نیا آئین بہت کچھ نیا لاتا ہے اور جو کچھ ہے اُسے اِدھر سے اُدھر کرنے کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی قوم اِس مرحلے میں اٹک جائے تو آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اور ہم اٹکے ہوئے ہی تو ہیں۔ پیش رفت اُن کے لیے جو انجام کی پروا کیے بغیر کسی بھی بڑی اور حقیقی تبدیلی کے لیے خود کو تیار کریں اور ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر چیزوں کو اجتماعی یا قومی سطح پر دیکھنے سے نہ کترائیں۔ جب کوئی معاشرہ تھم جاتا ہے تب ''سٹیٹس کو‘‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ سٹیٹس کو یعنی کسی چیز کو اُس کی جگہ سے ہلایا نہ جائے، معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ یہ کیفیت کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقی زوال کی طرف لے جانا والا معاملہ ہوتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ سٹیٹس کو کا شکار ہے۔ تبدیلی کے لیے نعرے بہت لگائے جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہی نہیں۔ لوگ بڑی تو کیا‘ کسی چھوٹی موٹی تبدیلی کو ہضم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ کوئی بھی اپنے مفادات سے ذرا سا بھی دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں۔ جو مفادات کے اعتبار سے قابلِ رشک پوزیشن میں ہوں وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ کوئی بھی بڑی تبدیلی رونما ہو؟ اور جن کے پاس کچھ خاص نہیں وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو تھوڑا بہت ہاتھ میں ہے وہ بھی جاتا رہے۔ جب ایسی کیفیت پورے معاشرے پر محیط ہو تو کسی بھی بڑی تبدیلی کے بارے میں سوچنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔
آج ہمارا معاشرہ بند گلی میں کھڑا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس کی عمومی کارکردگی کو مثال قرار دے کر اُس پر فخر کا اظہار کیا جاسکے۔ کم و بیش ہر شعبے میں بدعنوانی نے بُری طرح پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک طرف سٹیٹس کو ہے اور دوسری طرف بدعنوانی۔ بد انتظامی بھی کم نہیں اور اہلیت سے محروم افراد کو نوازنے کی روش بھی اب تک برقرار ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہلیت نہ رکھنے والے محض سرکاری شعبے میں کھپ جاتے ہیں۔ اب نجی شعبہ بھی خیر سے ایسی بد انتظامی کا شکار ہے کہ یہاں بھی برائے نام اہلیت نہ رکھنے والے آسانی سے کھپ جاتے ہیں اور اُن کی سرپرستی کرنے والے ہر قدم پر جان و دل سے اُن کی مدد کرنے کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے کی مجموعی بہبود میں نجی شعبہ بھی وہ کردار ادا نہیں کر پارہا جو ادا کرنا چاہیے۔اس بند گلی سے اب کیسے نکلنا ہوگا؟ ایک بڑی مشکل بلکہ المیہ یہ ہے کہ جن سے کسی بڑے، مثبت کردار کی توقع کی جانی چاہیے وہ بھی عمومی لہر میں بہہ گئے ہیں۔ کسی بھی دم توڑتے ہوئے معاشرے میں اہلِ علم و فن اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، معاشرے میں حقیقی اور تعمیری تبدیلی یقینی بنانے کے لیے کچھ کرنے کا عزم لے کر گھر سے نکلتے ہیں اور لوگوں کو ساتھ لیتے ہوئے چلتے ہیں۔ ہمارے ہاں اہلِ علم و فن بھی زیادہ سے زیادہ کمانے کے پھیر میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ نجی سطح پر اپنا معاشی کردار تو یاد رکھے ہوئے ہیں مگر عوامی سطح پراپنا معاشرتی اور اخلاقی کردار بھول گئے ہیں۔
سٹیٹس کو سے نکلنے کے لیے بنیادی چیز ہے لوگوں کو کام کرنے کی لگن پیدا کرنے کی طرف متوجہ کرنا۔ عام آدمی جب پورے معاشرے کو دیکھتا ہے تو مایوسی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ وہ بہت کچھ سوچتا ہے اور کرنا بھی چاہتا ہے مگر جب عمومی روش دیکھتا ہے تو اُس کا حوصلہ دم توڑنے لگتا ہے۔ اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو کام کرنے کی حقیقی لگن پیدا کرنے پر مائل کریں۔ یہ کام مختلف شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات کا ہے۔ علم و فن کی دنیا کے لوگوں پر اس حوالے سے غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اُنہیں ہر وقت زیادہ سے زیادہ کمانے کی ذہنیت کو خیرباد کہتے ہوئے معاشرے کو کچھ دینے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ معاشرے کو حقیقی تحرک سے ہم کنار کرنے کے لیے اور جمود توڑنے کی خاطر مقبولیت سے ہم کنار شخصیات کا منظرِ عام پر آکر عوام کو بالعموم اور نئی نسل کو بالخصوص کچھ کرنے کی تحریک دینا ناگزیر ہے۔ یہ کام اہلِ سیاست کا بھی ہے مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں وہ اِس وقت صرف اور صرف مفادات کی لڑائی میں الجھے ہوئے ہیں۔ زندگی کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ وقت صرف گزر نہیں رہا بلکہ ہمارے لیے الجھنوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ حالات کو بگاڑ کی طرف لے جانے والے عوامل بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں بند باندھنے والوں کی ضرورت ہے۔ تحریک و تحرک کے لیے نمایاں شخصیات کا فعال ہونا لازم ہے۔ اِسی صورت عام آدمی کو کچھ کرنے اور سٹیٹس کو سے گریز کی تحریک مل سکتی ہے۔