یہ طے کرنا اب بہت مشکل ہے کہ فلمیں معاشرے پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں یا فلم میکرز معاشرے سے متاثر ہوکر فلمیں بناتے ہیں۔ دونوں کے اثرات ایک دوسرے پر اس قدر ہیں کہ اُنہیں الگ خانوں میں رکھ کر دیکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ فلم میکرز چونکہ عوام کے لیے فلمیں بناتے ہیں اس لیے اُن کی زندگی کو پیش کرنا مجبوری بھی ہے اور سہولت بھی۔ لوگ اگر فلموں کے آئینے میں اپنے آپ کو نہ دیکھ پائیں تو الجھن محسوس کرتے ہیں۔ معاشرے میں جو کچھ بھی چل رہا ہوتا ہے وہ فلموں میں کسی نہ کسی طور پیش کرنا ہی پڑتا ہے۔ اِسی طور فلم ''متعلق‘‘ رہ پاتی ہے۔ بہر کیف‘ فلم میکرز نے ہمیشہ معاشرے سے بہت کچھ لیا ہے اور اُسے بہت کچھ دیا ہے۔ ہالی وُڈ کے بعد بالی وُڈ اور اُس کے بعد لالی وُڈ نے انڈر ورلڈ کے حوالے سے اِتنی فلمیں بنائی ہیں کہ اب برِصغیر کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انڈر ورلڈ کس چیز کا نام ہے اور ''بھائی لوگ‘‘ کس طرح کام کرتے ہیں۔ پہلے یوں تھا کہ فلم میکرز معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کو ہدف بناکر فلمیں بناتے تھے۔ ایک دور اصلاحی فلموں کا تھا۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری میں ایسے فلم میکرز بکثرت تھے جو فلم کی تھیم میں اصلاحِ معاشرہ کا پہلو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ پاکستان میں 1980ء کے عشرے تک بنائی جانے والی فلموں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلم میکرز اپنے کام میں معاشرے کو درست راہ پر گامزن کرنے کا فریضہ نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ یہی معاملہ بالی وُڈ کا بھی تھا۔ بالی وُڈ میں بہت سے فلم میکرز کسی بھی فلم کی تھیم میں تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ رہنمائی کا پہلو بھی رکھتے تھے اور یہ طریق بہت کامیاب تھا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی لوگوں پر فلموں کا اثر نمایاں طور سے مرتب ہوتا تھا۔
1970ء کے عشرے سے بھارت میں آرٹ فلموں کا دور شروع ہوا۔ اِن فلموں میں مختلف حقیقتوں کو جوں کا توں پیش کردیا جاتا تھا۔ آرٹ فلمیں بنانے والے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ حقیقت کو جوں کا توں پیش کردیا جائے، فیصلہ فلم بینوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی اصلاح پر مائل ہوں گے یا نہیں۔ یہ فلمیں زیادہ کامیاب اس لیے نہیں ہوئیں کہ اِن میں صرف مسئلہ بیان کیا جاتا تھا، کوئی حل پیش نہیں کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات تبدیل ہوتے گئے یعنی بگڑتے گئے۔ یہ بھی فطری عمل تھا۔ معاشرے میں خرابیاں رونما ہوئیں تو فلم میکنگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ فلم میکرز معاشرے میں پائے جانے والے رجحانات کو پیش کرنے کے معاملے میں ہمیشہ حسّاس اور سنجیدہ رہے ہیں۔ یہ اُن کے لیے پروفیشنل اِزم کا معاملہ بھی ہے اور کمرشل اِزم کا بھی۔ بیشتر فلم میکرز اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ کمرشل فلمیں دیکھنے والے رُوکھی پھیکی، دستاویزی فلم ٹائپ کی کمرشل فلمیں پسند نہیں کرتے۔ حقیقت کے ساتھ کچھ افسانہ بھی لازم ہے۔
دو‘ ڈھائی عشروں کے دوران اِس خطے میں انڈر ورلڈ کے حوالے سے اِتنی فلمیں بنائی گئی ہیں کہ لوگوں نے اس کلچر کو اچھی طرح سمجھ ہی نہیں لیا بلکہ بہت حد تک اپنا بھی لیا۔ پاک و ہند کے لوگ فلموں کا اثر اب غیر معمولی حد تک قبول کرنے لگے ہیں۔ معاشرے میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو کسی خاص طبقے تک محدود ہوتا ہے مگر جب فلم میکرز اُسے نمایاں کرتے ہیں، اپنی فلموں کی تھیم کا حصہ بناتے ہیں تب معاملات کچھ کے کچھ ہونے لگتے ہیں۔ جرائم کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب جرائم کی دنیا کو فلموں کا حصہ بنایا جانے لگا تب معاشرے پر اِس کے نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔ یہ اثرات ملے جلے رہے ہیں۔ بہت سوں نے جرائم کی دنیا میں جینے والوں کا انجام دیکھ کر عبرت پکڑنے کو ترجیح دی اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو جرائم کی دنیا کی ظاہری چمک دمک پر مر مٹے۔ رام گوپال ورما کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انڈر ورلڈ پر فلمیں بناتے ہیں اور جب بھی انڈر ورلڈ کے کسی پہلو کو چھوتے ہیں تو اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں، حق ادا کرنے کے بعد ہی سُکون کا سانس لیتے ہیں۔ ستیہ، کمپنی اور سرکار جیسی فلموں کے ذریعے اُنہوں نے اپنے آپ کو انڈر ورلڈ کی تھیم والی فلموں کا سب سے بڑا ڈائریکٹر ثابت کیا ہے۔ مہیش مانجریکر نے بھی ''واستَو‘‘ جیسی فلم بناکر اپنے آپ کو خوب منوایا۔
آج برِصغیر کے معاشرے میں عمومی سطح پر اور نوجوانوں میں خصوصی سطح پر انڈر ورلڈ کا کلچر درآیا ہے۔ یہ کلچر کیا ہے؟ کسی بھی قانون کو نہ ماننا اور کم و بیش ہر معاملے میں صرف اور صرف بدمعاشی اور زبردستی کا سِکّہ چلانے پر تُلے رہنا۔ سوال یہ نہیں کہ حالات قانون کو نہ ماننے کی طرف لے جاتے ہیں یا نہیں۔ جب انڈر ورلڈ کے کلچر کو مزاج کا حصہ بنالیا جاتا ہے تب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ حالات مجبور کر رہے ہیں یا نہیں۔ جب مزاج ہی ٹیڑھے ہو جائیں تو جرم پسندی عام ہوتی جاتی ہے اور اِس حوالے سے دل و دماغ یا ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا جاتا۔ آج پورے خطے کے معاشروں میں کجی صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ جواز ہو یا نہ ہو، عام آدمی قانون پسندی کو ایک بنیادی وصف کے طور پر اپنانے سے گریز کی راہ پر گامزن ہے۔ کسی کسی ماحول میں تو قانون شکنی کو سرمایۂ افتخار بھی سمجھا جاتا ہے! یہ گویا ذہنی کجی کی انتہا ہوئی۔ دیہی معاشرے میں بالعموم اور قبائلی ماحول میں بالخصوص لوگ اِس بات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں کہ کون کتنی قانون شکنی کرتا ہے۔ جو جتنی زیادہ قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ ''جی دار‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں قانون کی پاسداری کو زیادہ وقعت کا حامل نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے ہاں بھی کہیں کہیں ایسا ماحول پایا جاتا ہے جس میں قانون شکنی کے مرتکب افراد کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور وہ خود بھی، ظاہر ہے، قانون شکنی کو اپنے لیے طُرّۂ امتیاز گردانتے ہیں!
قانون کو خاطر میں نہ لانے اور بدمعاشی کے کلچر کو مزاج میں سموکر زندگی بسر کرنے کی روش معاشرے کو دھیرے دھیرے مکمل تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس تباہی کو روکنے کے لیے میڈیا کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے نمٹانے کی ذہنیت جب پنپتی ہے تو انسان تو انسان، معاشروں کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ہمارے ہاں پورے خطے میں یہ ذہنیت خوب جلوہ آرائی پر مائل ہے۔ سیاست بھی اب طاقت کی نمائش کے لیے مختص ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاست اور معیشت آپس میں ایسے جڑی ہوئی ہیں کہ اُنہیں الگ کرنا ممکن نہیں۔ سیاستدان کاروباری طبقے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں اور کاروباری طبقہ اپنی مرضی کے سیاست دانوں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ انڈر ورلڈ سے متعلق بنائی جانے والی فلموں میں مافیا کا زور دکھایا جاتا ہے۔ یہ زور اب سیاست و معیشت میں غیر معمولی حد تک دکھائی دے رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں معاشرت بھی تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس طور واقع ہو رہا ہے کہ پورا معاشرہ محض تماشائی ہوکر رہ گیا ہے۔ عام آدمی سمجھ نہیں پارہا کہ اِس صورتِ حال سے کس طور نمٹے، ایسا کیا کرے جو معاملات کو درست کرنے کی سمت لے جائے۔
جرم پسندی کا بلند ہوتا ہوا گراف فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔ ہر سطح کی حکومت کا فرض ہے کہ اس رجحان کی بیخ کنی کے لیے متحرک ہو۔ اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے بنیادی کردار والدین اور اساتذہ کا ہے۔ وہ نئی نسل کی سمت درست رکھنے پر متوجہ ہوں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ حکومتی مشینری کو بھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنا ہے مگر یہ ثانوی نوعیت کا کام ہے۔ میڈیا کو بھی آگے آنا ہے اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا ہے۔ معاشرے کو بگاڑ سے بچانے میں فیصلہ کن کردار تو میڈیا ہی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی قانون شکنی اور جرم پسندی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک طرف تجزیہ کاروں کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور دوسری طرف فلمیں اور ڈرامے بنانے والوں کو بھی تفریح کے پہلو بہ پہلو اصلاحِ معاشرہ کا مقصد اپنی تخلیقات میں سمونا ہے۔