وقت نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ ہر معاملہ کمرشل اِزم کی چوکھٹ مَل کر بیٹھا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی کمرشل اِزم کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔ کیا علم و فن، کیا تفریحِ طبع اور کیا کھیل کُود‘ سبھی کچھ کمرشل اِزم کی نذر ہوچکا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی انسان بہت بے مزہ بھی ہو جاتا ہے کیونکہ معاملات جو دکھائی دے رہے ہوتے ہیں وہ ہوتے نہیں اور جب حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے تو حیرت بھی ہوتی ہے اور سبکی بھی۔ اب کرکٹ ہی کا معاملہ لیجیے۔ 1980ء کے عشرے سے کرکٹ میں کمرشل اِزم نے ڈیرے ڈالے اور اب معاملہ یہ ہے کہ کرکٹ میں کھیل کے سوا سب کچھ پایا جاتا ہے۔ جب معاملات مالی مفاد سے شروع ہوکر مالی مفاد پر ختم ہوتے ہیں تب سارا مزہ جاتا رہتا ہے کیونکہ انسان کو اس بات کا یقین ہی نہیں ہوتا کہ جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہے وہ حقیقت ہے بھی یا نہیں۔ بہت سے معاملات میں اُس کی سوچ غلط بھی نہیں ہوتی۔ معاملات دیکھتے ہی دیکھتے یوں پلٹتے ہیں کہ انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ ایک زمانہ تھا جب کرکٹ میں صرف کرکٹ تھی۔ تب میچ پوری دیانت سے کھیلے جاتے تھے۔ تب کھیل کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
جب کھیل صرف کھیل تھا تب لوگ بیزار کردینے والا میچ بھی شوق سے دیکھتے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ٹیسٹ کرکٹ ہی سب کچھ تھی۔ تب خاصی سست بیٹنگ بھی شائقین سٹیڈیم میں دن بھر بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ دل کو یہ اطمینان رہتا تھا کہ جو کچھ دیکھا جارہا ہے معاملہ بس وہیں تک ہے، حقیقت کچھ اور نہیں۔ آج ہم دوسرے بہت سے معاملات کی طرح کھیلوں میں بھی خدا جانے کیا کیا دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ کرکٹ میں کبھی محض جوا یا سٹّہ تھا۔ تب معاملات کچھ اور تھے۔ پھر میچ فکسنگ کا دور شروع ہوا۔ اِتنا خیال ضرور رکھا جاتا تھا کہ لوگوں کو محسوس نہ ہو۔ اِتنی شرم تھی کہ معاملات پردے میں رکھے جاتے تھے۔ میچ فکسنگ کا معاملہ بے نقاب ہونے پر سپاٹ فکسنگ آئی۔ کئی انتہائی باصلاحیت بلکہ ہنر مند کھلاڑی سپاٹ فکسنگ کی نذر ہوئے۔ محمد آصف، محمد عامر اور سلمان بٹ کی مثالیں بہت نمایاں ہیں۔ آصف کا کیریئر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ محمد عامر نے کرکٹ میں دوبارہ انٹری دی مگر اب وہ بھی منظر سے ہٹ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب ٹورنامنٹ فکسنگ کا دور ہے۔ کمرشل اِزم اس قدر ہے کہ مالی مفادات سے آگے کچھ دیکھا ہی نہیں جارہا۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ بدنامی بھارت کے حصے میں آئی ہے۔ بھارت آبادی کے اعتبار ہی سے نہیں بلکہ کرکٹ کی اوور آل مارکیٹ کے اعتبار سے بھی بہت بڑا ملک ہے۔ اس حقیقت کا بھارتی کرکٹ بورڈ نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملات کو اپنی مرضی کے رنگ میں رنگنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آئی پی ایل ایک بڑا گورکھ دھندا ہے۔ کئی چھوٹی ٹیموں کے کھلاڑی بھی آئی پی ایل کھیلتے ہیں اور خوب کماتے ہیں اس لیے اُن تمام چھوٹی ٹیموں کو بھارت مرعوب رکھتا ہے۔ اس ایک بڑے ٹورنامنٹ کی آڑ میں بھارت عالمی کرکٹ کو اپنے حق میں بروئے کار لانے سے گریز نہیں کر رہا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے گزشتہ دو عشروں کے دوران کرکٹ کی دنیا کو خوب manipulate کیا ہے اور کسی بھی مرحلے پر شرمندگی محسوس نہیں کی۔
ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کرکٹ کے قوانین پر عمل کو بھارت کے حق میں معطل کیا گیا۔ اس وقت ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کھیلا جا رہا ہے‘ جس کا فائنل کل کھیلا جانے والا ہے۔ اِس ٹورنامنٹ میں بھارت کی ٹیم کو دو مواقع پر ایڈوانٹیج دیا گیا۔ پاکستان کے خلاف میچ میں بھارتی ٹیم آخری گیند پر جیتی۔ ایک متنازع 'نو بال‘ نے میچ کو بھارت کے حق میں دھکیل دیا۔ بنگلہ دیش سے مقابلے میں بھارتی سٹار بیٹر ورات کوہلی نے ''فیک فیلڈنگ‘‘ کی۔ آئی سی سی کے طے کردہ قوانین کے تحت اس حرکت پر بنگلہ دیش کی ٹیم کو پانچ اضافی رنز ملنے چاہئے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش یہ اہم میچ پانچ رنز ہی سے ہارا! یہ بات پوری دنیا نے دیکھی کہ امپائر ایک گیند پر خاموش کھڑا تھا مگر جب ورات کوہلی یا روہت شرما نے آنکھیں دکھائیں تو وہی بال 'وائڈ‘ قرار دے دی گئی۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے متعدد مواقع پر اپنی بات منوائی ہے۔ بھارت بڑی مارکیٹ ہے اور آئی سی سی کے لیے یہ حقیقت دیگر تمام حقیقتوں پر بھاری ہے۔ بات جب مال کی آجائے تو علم و فن، تفریحِ طبع، کھیل کود‘ سبھی کچھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک مدت سے دنیا بھر کے شائقینِ کرکٹ یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی ٹیم کو غیر معمولی حد تک فیور دیا جاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ بھارتی ٹیم ابتدائی مرحلے ہی میں ٹورنامنٹ سے باہر نہ ہو کیونکہ اگر بھارتی ٹیم اپنی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ابتدائی مرحلے ہی میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائے تو پورے برصغیر کا ماحول بجھ سا جاتا ہے۔ پاک بھارت میچوں میں جو غیر معمولی جوش و خروش دکھائی دیتا ہے وہ کاروبار کے نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے۔ پاکستان اور بھارت کا لیگ میچ بھی ہو رہا ہو تو چار پانچ دن تک اشتہاری منڈی نقطۂ عروج پر ہوتی ہے اور اگر دونوں ٹیمیں سیمی فائنل یا فائنل میں ٹکرائیں تو یہ میچ دنیائے سپورٹس کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ایونٹ بن جاتا ہے۔ اس بار بھی توقع تھی کہ پاکستان اور بھارت فائنل میں ٹکرا جائیں گے مگر خیر ہو انگلینڈ کی جس نے ٹیم انڈیا کو بتادیا کہ پسِ پردہ معاملات طے نہ کیے جائیں اور خالص مقابلہ ہو تو آئی پی ایل کے شیر حقیقت کی دنیا میں مٹی کے ڈھیر ثابت ہوتے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ (ون ڈے) ورلڈ کپ میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ایک میچ واضح بے دِلی سے ہار کر ایک زمانے سے ملامت بٹوری تھی۔ پھر اُسی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے ٹیم انڈیا کو دُھول چٹاکر بھگتان کردیا تھا ع
کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
تب جو کردار نیوزی لینڈ نے ادا کیا تھا وہی کردار اب انگلینڈ نے ادا کیا۔ ایک سال قبل پاکستان نے بھی ٹیم انڈیا کو دس وکٹوں سے ہراکر اوقات یاد دلائی تھی اور اب انگلینڈ سے بھی ٹیم انڈیا سیمی فائنل میں دس وکٹوں سے یوں ہاری ہے کہ اپنے ہی ملک میں اُسے تنقید اور تذلیل کا سامنا ہے۔ پاکستان کے خلاف لیگ میچ میں بھی بھارت کی فتح مشکوک تھی اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی ناانصافی واضح تھی۔ اُس میچ کے بعد بنگلہ دیشی کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اُس کا مفہوم یہ تھا کہ بہت کچھ ہے جو پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے نیدر لینڈز (ہالینڈ) نے پورا دم لگاکر جنوبی افریقہ کو ہرایا اور پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک پہنچنے کی راہ ہموار کی جبکہ ٹیم انڈیا کی ''دھکّا سٹارٹ‘‘ گاڑی جیسے تیسے سیمی فائنل کے سٹاپ تک تو پہنچائی گئی مگر وہاں انگلینڈ نے گاڑی کا انجن سیز کیا اور ٹائر نکال باہر پھینکے۔ یہ ذلت ٹیم انڈیا نے خود خریدی ہے۔ اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ بھارت میں کرکٹ کے حوالے سے غیر معمولی ٹیلنٹ پایا جاتا ہے مگر بھارتی کرکٹ بورڈ جس بھونڈے انداز سے اپنی ٹیم کی راہ سے مشکلات ہٹانے کی راہ پر گامزن رہتا ہے اُس کے نتیجے میں بالآخر رسوائی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اب تو بھارت میں بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ٹیم انڈیا واقعی اِتنی باصلاحیت ہے یا پھر اُسے جانب دارانہ امپائرنگ کے ذریعے آگے لایا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں پسِ پردہ معاملات کی ایک حد ہوتی ہے۔ معاملہ معقولیت کی حد سے بڑھے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ تو ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ پوری دال ہی کالی ٹھہرتی ہے! اس بار ٹی ٹونٹی میں جو کچھ ہوا‘ اُس پر آئی سی سی کو بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک طرف تو ٹیم انڈیا بہت بڑی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف وہ چاہتی ہے کہ رِنگ میں حریف کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تاکہ اُس پر مُکے برسانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے! ایسی بندھی ہوئی کرکٹ کس کام کی؟ شاندار و بے مثال ٹیکنالوجی کے دور میں میچ ٹیمپرنگ زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔