طاقتور کا اپنا نقطۂ نظر اور اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ کسی بھی طاقتور سے کسی سبب کے بغیر حمایت اور مدد کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بالخصوص ایسے حالات میں کہ وہ طاقت آپ سے کسی بھی اعتبار کا اشتراک بھی نہ رکھتی ہو۔ ہمارا اور مغرب کا یہی معاملہ ہے۔ مغربی طاقتوں نے دوسرے بہت سے خطوں کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور یہاں کے ممالک کو بیشتر وقت آپس میں دست و گریباں رکھا ہے۔ جب کبھی دست و گریباں کا معاملہ ٹل جاتا ہے تب کشیدگی برقرار رکھنے کے مختلف طریقوں پر عمل شروع کردیا جاتا ہے۔ یہ کھیل سات عشروں سے بھی زائد مدت سے جاری ہے۔ جنوبی ایشیا کو مغربی طاقتوں نے کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ جب مغربی طاقتیں کسی خطے پر متوجہ ہوتی ہیں تو اِس کی دو ممکنہ وجوہ ہوسکتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وہ خطے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اور دوسری یہ کہ اگر فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو تو اُسے اس قابل نہیں چھوڑتیں کہ وہ پنپ کر اُن کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوسکے۔ مغربی طاقتوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اُنہوں نے اپنی ترقی کا تاج محل کئی خطوں کے دانستہ، بلکہ منظم تنزل کی بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ اِس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دولت ہے۔ تیل کی دولت نے کئی عرب ممالک کو غیر معمولی حد تک مالیاتی بے فکری سے ہم کنار کیا ہے۔ مغرب نے اُن مالدار معاشروں کو ہدف بنایا اور اسرائیل کا ہوّا دکھاکر ڈرایا۔ غیر معمولی حد تک مال و ثروت کے حامل ہونے پر بھی عرب ممالک ایسا کچھ نہیں کر پائے جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ وہ مستقبل میں ڈھنگ سے جینے کے قابل رہ سکیں گے۔ پٹرو ڈالر کی مدد سے عرب دنیا کے لوگ غیر معمولی نوعیت کی آسائشوں اور تعیشات کے عادی ہوکر رہ گئے ہیں۔ اُن کی دولت مغربی بینکوں میں پڑی ہے۔ عرب ممالک میں آمروں کی حکمرانی مضبوط کرکے مغربی طاقتوں نے حقیقی قومی تعمیر کے اہداف کا حصول ناممکن بنایا ہے۔ عرب معاشرے تعلیم کے میدان میں بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں اس حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی گئی مگر مغربی طاقتوں نے حکمراں طبقے پر اپنے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسے حالات برقرار رکھے ہیں جن میں عرب معاشروں کے پنپنے کی حقیقی بنیادیں کبھی مضبوط نہیں ہو پائیں۔ کچھ ایسا ہی حال جنوبی ایشیا کا بھی کیا گیا۔ مغربی طاقتوں نے جنوبی ایشیا سے بہترین ذہن چُن کر اُنہیں انفرادی سطح پر بھرپور کامیابی کے شاندار مواقع فراہم کیے مگر اُن کے ممالک اور خطے کی مجموعی بہتری یقینی بنانے والے حالات پیدا ہونے کی راہ ہموار ہونے نہیں دی۔ بھارت کو مغربی طاقتوں نے زیادہ نواز کر خطے میں اُسے ابھرنے بلکہ علاقائی چودھری بننے کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ اس کے نتیجے میں پورے خطے میں کشیدگی برقرار ہے۔ عشروں سے معاملات ایسے ہیں کہ کوئی بھی ملک کھل کر ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ بھارت خود بھی بہت سے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ اندرونی کشمکش بھی بہت زیادہ ہے‘ درجنوں گروپ ہیں جو وفاق سے الگ ہونے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کئی حصوں میں بھارتی فوج کے لیے انتہائی ناموافق حالات ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ذات پات کی تفریق اپنی جگہ۔ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے لیے مسائل بھی کم نہیں۔ اسی طرح خطے کے دیگر ممالک‘ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے لیے بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مغربی طاقتوں کی پلاننگ کا حصہ ہے اور بھارت اس معاملے میں ہتھکنڈے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مغربی طاقتیں کبھی بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ کردار ادا کرتے ہوئے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھتی ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت مغربی طاقتوں کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہے اور اب یہ معاملہ واویلے کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ مغرب کے دانشور اور تجزیہ کار دن رات یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت صرف ایشیا نہیں بلکہ پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت خطرہ کیوں ہے‘ یہ بات کوئی نہیں سمجھا پارہا۔ سمجھائے بھی کیسے؟ کوئی منطق ہو تو سمجھائی جا سکے۔ مغرب کی پوری کوشش ہے کہ طاقت صرف اس کے پاس رہے۔ اس کے لیے وہ پوری دنیا میں شدید استحکام کی فضا برقرار رکھنے پر تلا ہوا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دے کر سٹرٹیجک امور کے ماہرین دراصل چینی نظامِ حکومت اور اُس کے منصوبوں کے حوالے سے شکوک کی فضا کو پروان چڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
کیا واقعی چین ایشیا کو مٹھی میں لینا چاہتا ہے؟ چین کے حکومتی نظام نے اب تک ایسا کوئی اشارا نہیں دیا کہ وہ پورے خطے کو مٹھی میں لے کر سانس لینے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ اور یورپ نے مل کر کئی خطوں کو تاراج کیا ہے۔ چین نے اب تک کسی بھی خطے کا امن و سکون داؤ پر لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ چین کا حکومتی نظام کئی بار یہ واضح کرچکا ہے کہ اُس کی پوری توجہ صرف اور صرف معاشی استحکام میں اضافے پر مرکوز ہے۔ چین دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ وہ افریقہ میں بھی غیر معمولی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے اس سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی دنیا کے کان بھرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ تک کہا گیا ہے کہ چین کئی ممالک کو خریدنے کی تیاری کرچکا ہے۔ سری لنکا میں چین نے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے غیر معمولی سرمایہ کاری کی تو مغربی طاقتوں نے بھارت کے ذریعے خوب شور مچایا اور سری لنکا میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کئی کوششیں کیں۔ کچھ کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ مقصود صرف یہ تھا کہ وہاں عدم استحکام برقرار رہے اور چینی قیادت سری لنکا میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو اپنے حق میں بروئے کار لانے کے قابل نہ ہوسکے۔ چین نے کئی خطوں کو آپس میں ملانے کے لیے بنیادی ڈھانچے مضبوط بنانے کے کئی منصوبے شروع کیے۔ سڑکیں، پُل، ایئر پورٹس، بندر گاہیں، ریلوے ٹریکس اور دوسرا بہت کچھ تعمیر کیا جارہا ہے۔ پائپ لائنیں بچھانے کے منصوبے بھی رُو بہ عمل ہیں۔ چین اپنے ہاں تعلیمی نظام کو بھی مضبوط کر رہا ہے تاکہ خطے کے ذہین طلبہ مغرب جانے کے بجائے اُس کے ہاں آئیں اور سستی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ چین میں بھی تحقیق کا معیار خاصا بلند ہے۔ چینی حکومت علمی برتری یقینی بنانے کے لیے بھی خوب منصوبہ سازی اور محنت کر رہی ہے۔ تعلیمی نظام کو اَپ گریڈ کرکے خطے کے طلبہ کو اپنے ہاں آنے کی تحریک دینے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ چینی قیادت اپنی معیشت کی بنیادیں مزید مضبوط کرنے پر کمر بستہ ہے۔
چین کی شکل میں ایشیائی ممالک کو ایک اچھا متبادل ملا ہے۔ پاکستان اور اِسی نوع کے دوسرے بہت سے ممالک کے لیے چین ایک ایسا موقع ہے جسے بروئے کار لاکر اپنے آپ کو اَپ گریڈ کیا جاسکتا ہے۔ چینی قیادت بھی ایشیا کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ مغرب اس راہ میں بھی روڑے اٹکانے پر تُلا ہوا ہے۔ روس کی ابھرتی ہوئی قوت بھی مغرب کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ چین اور روس سے بیک وقت پوری قوت کے ساتھ نمٹنا مغرب کے لیے ممکن نہیں۔ ایسے میں بہتر یہی سمجھا گیا ہے کہ دونوں کو بدنام کیا جائے، الجھاکر رکھا جائے۔ اِس کے لیے متعلقہ خطوں کے ممالک کے کان بھرنا، اُنہیں ورغلانا لازم ہے۔ یہ کام مغربی طاقتیں اپنے دانشوروں، تجزیہ کاروں، ماہرین اور اُن کے مجموعوں یعنی تھنک ٹینکس کے ذریعے خوب کر رہی ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کو اگر کچھ کرنا ہے، کچھ بننا ہے تو آپس کے اختلافات ختم کرنے کے حوالے سے کسی مؤثر تصفیے تک پہنچ کر مغربی عزائم کو ناکام بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ بھارت کو افرادی قوت کی برآمد کے لیے جو موزوں ماحول چاہیے وہ مغرب فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت خطے کو قابو میں رکھنے کا کام بھی لیا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اب بھارت کو دشمن کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ چین کی شکل میں ملنے والا سنہرا موقع اور متبادل اب تک ضائع کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اب رُکنا چاہیے۔