"MIK" (space) message & send to 7575

خوش مزاجی کا انوکھا پہلو

دنیا بھر میں ماہرین دن رات ایسے بہت سے معاملات میں تحقیق سے جُڑے ہوئے ہیں جن کا بنیادی تعلق اس بات سے ہے کہ ہماری زندگی میں زیادہ سے زیادہ استحکام کس طور آئے، اعتدال و توازن کیونکر قائم ہو اور اُسے برقرار رکھنے کی سبیل کیونکر نکلے۔ سماجی معاملات کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اخلاقی اور تہذیبی حوالے سے بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ معاشرے میں استحکام اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب اخلاقی اقدار کا پورا خیال رکھا جاتا ہے، تہذیب اور شائستگی کے ذریعے زندگی کو زیادہ سے زیادہ متوازن رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو احسن طریقے سے قبول کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی کی بے جا دل آزاری نہ ہو۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے ایک زمانے سے سماجی اور اخلاقی علوم و فنون کے ماہرین چند بنیادی نکات پر زور دیتے آئے ہیں۔ ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی ناموافق کیفیت کو اپنے حواس پر زیادہ سوار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو تو لازم ہے کہ کسی بھی ناپسندیدہ معاملے کو حرزِ جاں نہ بنائے، کسی بھی ذہنی پیچیدگی کو تمام معاملات پر مسلط نہ کرے۔ ہم دن رات الجھے رہتے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے بس میں نہیں۔ معاشی معاملات ہی کو لیجیے۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کی ایک دوڑ سی لگی ہے۔ لوگ دن رات کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی بُری بات نہیں۔ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان دوسروں کا حق مارنے پر تُل جائے۔ زیادہ کمانے کے لیے زیادہ کام کرنا کسی بھی درجے میں قبیح فعل نہیں۔ حقیقی مسائل اُس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب انسان اپنی پیش رفت یقینی بنانے کے لیے دوسروں کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کرتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تب بدگمانیاں جنم لیتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کیفیت معاشرتی تعلقات کو شدید پیچیدگی اور خرابی کی طرف لے جاتی ہے۔ معاشرتی معاملات میں پیدا ہونے والی خرابیاں انسان کو بہت سے دوسرے معاملات میں بھی مشکلات سے دوچار کرتی ہیں۔ معاشرتی امور کی الجھنیں انسان کی معاشی جدوجہد پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ کام پر بھرپور توجہ مرکوز رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ذہن سکون کی حالت میں ہو۔ ذہن کا سکون اس بات سے مشروط ہے کہ انسان کسی بے جا معاملے میں الجھا ہوا نہ ہو۔ ہم عمومی سطح پر ایسے بہت سے معاملات میں الجھے ہوئے رہتے ہیں جن کا ہماری زندگی سے مجموعی طور پر کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں دل و دماغ خواہ مخواہ بے سکونی کی حالت میں رہتے ہیں۔ ایسے میں معاشرتی اور معاشی‘ دونوں ہی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کی ذہنی حالت کا نیند سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ذہن میں بہت کچھ بھرا ہوا ہو تو نیند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ فی زمانہ آن لائن کلچر نے زندگی کو ایسے بہت سے معاملات کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جن سے بظاہر کوئی تعلق نہ بنتا ہو تب بھی تعلق نبھاتے ہی بنتی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارا ہے نہ ہمارے لیے ہے مگر پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی حوالے سے ہماری زندگی کا حصہ بنا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ انٹرنیٹ کی دی ہوئی ''سوغات‘‘ ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز نے زندگی کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا ہی کی ''مہربانی‘‘ ہے کہ آج انسان کسی جواز کے بغیر پریشان رہتا ہے۔ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ جینے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ انسان کسی جواز کے بغیر محض پریشان نہیں رہتا بلکہ اپنے بیشتر اہم امور پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنے کے قابل بھی نہیں رہ پاتا۔ بہت کچھ جاننے کے چکر میں ہم اپنے ذہن کو فضول چیزوں کا گودام بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اِس حوالے سے بھی خاصی تحقیق ہو رہی ہے۔ ماہرین انٹرنیٹ کے بے جا استعمال کے نتیجے میں زندگی میں پیدا ہونے والے خطرناک عدم توازن سے متنبہ ہی نہیں کر رہے بلکہ معاملات کو بہتر رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ بھی تجویز کر رہے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انٹرنیٹ نے ہمیں سب سے بڑا نقصان کیا پہنچایا ہے؟ نقصانات تو بہت سے ہیں مگر سب سے بڑا نقصان ذہنی سکون سے محرومی ہے۔ جب ذہن فضول معاملات سے بھرا ہوا ہوتا ہے تب وہ سکون کی حالت میں آ ہی نہیں سکتا۔ اِس کے نتیجے میں ایک طرف تو معاشرتی و معاشی معاملات بگڑتے ہیں اور دوسری طرف ذہنی سکون بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ معاملات کی خرابی ہی ذہنی انتشار کے دائرے میں وسعت پیدا کرتی رہتی ہے۔ یہ کیفیت صحت کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ماہرین کی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نیند کا بہت گہرا تعلق مزاج سے ہے۔ انسان جس رویے کا حامل ہو اُسی کے مطابق اُس کی نیند ہوتی ہے۔ اگر کوئی ہر وقت ہنستا ہنساتا رہتا ہو، کوئی بھی ایسا ویسا معاملہ دل و دماغ پر زیادہ دیر حاوی نہ رکھتا ہو تو نیند خاصی پُرسکون ہوتی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر انسان خوش مزاج ہو اور دوسروں کو بھی خوش دیکھنا چاہتا ہو تو اُس کے دل و دماغ سے بوجھ اس حد تک کم ہو جاتا ہے کہ وہ کم وقت میں بھی بھرپور نیند کے مزے لے سکتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول اچھا ہو، سب مل جل کر رہتے ہوں، فضول معاملات پر خواہ مخواہ جھگڑتے نہ ہوں اور ضرورت کے مطابق ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوں تو انسان خوش مزاجی کے ساتھ جیتا ہے اور یوں اُس کی صحت کا معیار برقرار رہتا ہے کیونکہ پُرسکون نیند نصیب ہوتی ہے۔ نیند کو پُرسکون بنانے میں گھر کا عمومی طبعی ماحول بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کمرہ ہوادار ہو، شور شرابہ نہ ہو اور بے جا روشنی بھی مخل نہ ہوتی ہو تو نیند خاصی پُرسکون ہوتی ہے۔ ایسے میں کم وقت میں بھی بھرپور نیند کا لطف لیا جا سکتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ نیند کی کمی ہے۔ دیہات میں لوگ قدرے پُرسکون نیند کے مزے لے پاتے ہیں مگر شہری ماحول میں یہ ممکن ہی نہیں رہا۔ ایک طرف معاشی الجھنیں اور دوسری طرف غیر معیاری رہائش۔ بہت سے علاقوں میں شور شرابہ اِتنا ہوتا ہے کہ انسان پُرسکون نیند کے مزے لے ہی نہیں سکتا۔ معاشی اُلجھنیں انسان کو ہر وقت پریشان رکھتی ہیں۔ ذہن منتشر ہو تو پُرسکون نیند کیسے پائے؟ شہری ماحول میں نیند کو پُرسکون بنانے والے عوامل برائے نام ہیں۔ گنجان آباد علاقوں میں ایسے معاملات زیادہ ہوتے ہیں جو نیند میں مخل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی آٹھ گھنٹے بھی سوئے تو نیند پوری نہیں ہوتی اور جاگنے پر جسم تھکن ہی محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ شہری زندگی میں وقت اور طبعی ماحول کا مسئلہ تو رہتا ہی ہے۔ ایسے میں زیادہ سکون اور پُرلطف نیند یقینی بنانے کی ایک ہی صورت باقی رہتی ہے‘ یہ کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔ اِس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ زیادہ بکھیڑے نہ پالے جائیں۔ تعلقات معقول ہونے چاہئیں۔ کام کے معاملے میں لاپروائی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ معاشی معاملات کے بگڑنے سے آپ کے دیگر معمولات اور معاملات بھی بگڑتے ہیں۔ یاری دوستی معقولیت کی حدود میں ہونی چاہیے۔ رشتے نبھانے میں بھی یہی اُصول کارفرما رہنا چاہیے۔ جب معاملات معقولیت کی حدود میں رہتے ہیں تب انسان کا مزاج ہلکا پھلکا رہتا ہے، وہ کسی بھی معاملے کو اپنے حواس پر طاری نہیں ہونے دیتا۔ یوں خوش مزاجی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ خوش مزاجی پورے وجود پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کا ایک واضح اثر نیند پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ خوش مزاج افراد کم وقت میں بھی زیادہ اور بھرپور نیند کے مزے لیتے ہیں۔ اِس کے برعکس پریشان رہنے والے نیند کے معاملے میں بدنصیب اور مجبور ہوتے ہیں۔ وہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ بھی سوئیں تو نیند پوری نہیں ہوتی، جسم کی توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں جسم بھی تھکا ہوا رہتا ہے اور دماغ بھی۔ کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو تو معاشی معاملات الجھتے ہیں۔ ذہن منتشر ہو تو سماجی تعلقات داؤ پر لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ دوسرے بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ نیند کی کمی سے بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ خوش مزاج رہا جائے تاکہ بھرپور نیند کے ساتھ معیاری زندگی ممکن بنائی جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں