"MIK" (space) message & send to 7575

قدم بڑھائیے تو سہی

وفاقی کابینہ نے تجویز پیش کی ہے کہ دکانیں، بازار اور ریسٹورنٹس وغیرہ رات آٹھ بجے اور شادی ہال رات دس بجے بند کردیے جائیں۔ اِس سے 62 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے۔ وفاقی وزرا خواجہ آصف، مریم اورنگزیب اور قمر زمان کائرہ نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 20 فیصد سرکاری ملازمین کو گھر بٹھاکر کام کرانے کی صورت میں کم و بیش 56 ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ ملک بھر میں کم بجلی خرچ کرنے والے نئے پنکھے اور ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے سے 15 سے 23ارب روپے تک کی بچت ہوسکتی ہے۔ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال محدود کرنے سے بھی اربوں روپے کی توانائی بچانا ممکن ہوگا۔ گیزر کے لیے کم گیس خرچ کرنے والے آلات لگانے سے بھی اربوں روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ای بائیکس (بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلیں) متعارف کرانے سے 86 ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر بچت یقینی بنانے کے لیے تجویز کیے جانے والے ان اقدامات پر تمام وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کی جانی ہے۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ معیشت بہت خراب حالت میں ہے۔ ایک ایک ڈالر بچانا پڑ رہا ہے۔ پٹرولیم بل پر قابو پانا لازم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے وزرائے اعلیٰ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ کورونا کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن متعارف کرانے سے بھی کسی حد تک بچت ممکن ہوئی تھی۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ کاروباری طبقہ توانائی اور دیگر مدوں میں بچت یقینی بنانے کے لیے متعارف کرائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی جب دکانوں اور شاپنگ سنٹرز کے اوقات محدود کیے گئے تو بہت شور مچایا گیا۔ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ لوگوں کی عادتیں راتوں رات نہیں بدلی جا سکتیں۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں لوگ رات گئے تک جاگنے کے عادی ہیں۔ دیر سے سونے والا دیر سے اٹھتا ہے۔ یوں خریداری کا رجحان بھی رات کا ہے۔ خواتین رات کے بارہ بجے تک شاپنگ سنٹرز میں دکھائی دیتی ہیں۔ کراچی کے بیشتر حصوں میں محلوں یا علاقوں کے جنرل سٹور دن کو بارہ‘ ایک بجے کھلتے ہیں اور رات بارہ بجے تک بند کیے جاتے ہیں۔ لوگ اس معمول کے عادی ہوچکے ہیں۔ کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں تو دن شروع ہی دوپہر کے دو بجے ہوتا ہے اور لوگ رات کے بارہ بجے اپنی دکانوں یا فیکٹریوں سے واپسی کے بعد گھر سے نکل کر محلوں کے تھڑوں یا بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور فجر کی نماز کے وقت گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ معمول جب ایسا ہو تو معیشت کو ڈھنگ سے چلانے کی راہ کس طور ہموار کی جاسکتی ہے؟
تاجر برادری کا شور مچانا بھی درست ہے۔ رات آٹھ بجے دکانیں اور شاپنگ سنٹر بند کرنا فوری طور پر انتہائی پریشان کن حالات پیدا کرے گا۔ اس حوالے سے جامع مشاورت کی ضرورت ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ پنجاب کے چھوٹے شہروں میں علی الصباح دکانیں کھولنے اور کام پر جانے کا کلچر توانا ہے۔ بہت حد تک سندھ کے چھوٹے شہروں اور دیہات کا بھی یہی حال ہے؛ تاہم کراچی سمیت بڑے شہروں کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ کراچی میں لوگ رات رات بھر ہوٹلوں کے باہر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے عادی ہیں۔ سوال صرف توانائی کی بچت کا نہیں، پوری قوم کی عادات و اطوار کے بدلنے کا ہے۔ یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے خود کاروباری برادری کو بھی بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ اُنہیں بھی اپنے ورکرز کے لیے نئی سوچ اپنانا ہوگی۔ دنیا بھر میں اس بات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کہ جب کوئی کام پر پہنچے تو تازہ دم ہو۔ اگر راستے ہی میں تھک جائے تو دکان، فیکٹری یا دفتر میں قدم رکھنے کے بعد انسان کیا کام کرے گا؟ ہمارے ہاں ایک مشکل تو یہ ہے کہ کام کے مقام تک پہنچنے ہی میں انسان تھک جاتا ہے۔ اور اگر نیند پوری نہ ہوئی ہو، رات دیر سے سوئے ہوں تو سمجھ لیجیے رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔ ایسے میں انسان دن بھر جھونکے ہی مارتا رہے گا۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟
حکومت اگر بچت یقینی بنانا چاہتی ہے تو اُسے محض سرکاری مشینری کو ذہن نشین نہیں رکھنا بلکہ پورے ملک کو دیکھنا اور سوچنا ہے۔ نجی شعبے میں بھی کام کے حوالے سے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور ہاں‘ حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو غیر ضروری طور پر سہولتیں یا مراعات نہ ملیں۔ جس سرکاری ملازم کو گھر بیٹھے کام کرنے کے لیے کہا جائے اُسے پٹرول اور دیگر سفری مراعات بھی نہیں ملنی چاہئیں۔ دفتری اوقات کم کرکے کام اس طور لیا جاسکتا ہے کہ کوئی بلا جواز طور پر فارغ نہ بیٹھے، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کرے اور جس طرح بھی ممکن ہو کم وقت میں زیادہ کام یقینی بنائے۔ یہ سب کچھ نظم و ضبط سے متعلق انتہائی سخت اقدامات کے نتیجے میں رونما ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی کلچر فورسز کے سوا کسی بھی ادارے میں نہیں۔ پولیس میں ڈسپلن ہے اور کام کے معاملے میں سختی بھی؛ تاہم پھر بھی مجموعی طور پر فورسز والا کلچر نہیں۔ ایسا کلچر راتوں رات لانا ممکن نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر اور کارخانوں میں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اب نجی شعبے میں کچھ ایسا ہی ماحول ہے۔ بڑے بڑے کاروباری اداروں میں بھی لوگ ہڈ حرامی اور گھپلوں سے باز نہیں آتے۔ جنہیں گھپلوں کے ذریعے کچھ مال بٹورنے کا موقع نہ ملے وہ کسی نہ کسی طور اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرکے، کام نہ کرکے دل کی تسکین کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایسے میں مجموعی ماحول کیونکر بدلا جاسکتا ہے؟ اگر کام کے ماحول کو بدلنا ہے اور توانائی سمیت اہم ترین وسائل کی بچت ممکن بنانا ہے تو جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ رات بھر ہوٹل کھلے رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کو معقول طریقے سے‘ ہر طرح کے میڈیا کی مدد سے‘ اس بات کی تحریک دی جائے کہ وہ جلد سوئیں اور جلد بیدار ہوں۔ یہ سب جامع منصوبہ سازی کے تحت ہونا چاہیے۔ لوگوں کے ذہن تبدیل کرنے کے لیے محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور صبر آزما انتظار بھی۔ راتوں رات کسی بھی جوہری تبدیلی کو یقینی بنانا کسی دنیاوی طاقت کے بس کی بات نہیں۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ چھوڑنا ہے اور بہت کچھ اپنانا ہے۔ بہت سی بُری عادتوں نے پوری قوم کو شدید پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ وقت کا ضیاع بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ وقت کا ضیاع روکنے اور کام میں دلچسپی بڑھانے کی غرض سے معمولات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام صبر آزما اور تحمل طلب ہے۔ حکومت اگر معاشرے کو مختلف معاملات میں وسائل کی بچت کے رجحان کی طرف لے جانا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ جامع منصوبہ سازی کے تحت کام کیا جائے۔ حکمتِ عملی بے داغ ہونی چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں خلوص کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔ کاروباری طبقے کو بھی ملک کے حالات کے پیشِ نظر تھوڑا بہت سمجھوتا کرنا ہی چاہیے۔ دکانیں، بازار اور شاپنگ سنٹر اگر دھیرے دھیرے رات آٹھ سے دس بجے تک بند کردیے جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ لوگوں کو بھی دھیرے دھیرے تبدیل شدہ اوقات کا عادی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ کسی بڑے پہاڑ کو چیر کر راہ نکالنے جیسا کام نہیں کہ سوچئے اور حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیے۔ دنیا بھر میں معاشی معاملات کے حوالے سے جو طرزِ معاشرت عام ہے وہ ہمیں بھی اپنا لینی چاہیے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں! قوم کی بگڑی ہوئی عادات دھیرے دھیرے درست ہوسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں فیصلے کرنے ہیں وہ کس حد تک سنجیدہ اور مخلص ہیں۔ گیند اب وزرائے اعلیٰ کے کورٹ میں ہے۔ اُنہیں اپنی اپنی کاروباری برادری سے وسیع البنیاد مشاورت کے ذریعے کوئی ایسی راہ نکالنی چاہیے جس پر سب بخوشی چل سکیں۔ یہ معاملہ سختی اور تناؤ کے ماحول میں درست نہیں کیا جاسکتا۔ 'کچھ دو اور کچھ لو‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم معیشت و معاشرت کو کسی حد تک درست کرسکتے ہیں۔ کام کے ماحول کو بہتر بنائے بغیر ہم معاشی محاذ پر کوئی بھی معرکہ نہیں جیت سکتے۔ اوقاتِ کار قابو میں آجائیں تو دوسرا بہت کچھ بھی درست ہوتا چلا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں