"MIK" (space) message & send to 7575

ہاتھ پھیلانے سے کب تک کام چلے گا؟

انگریزی کی کہاوت ہے کہ بھیک مانگنے والوں کو انتخاب کی آزادی نہیں ملتی۔ بھیک میں جو کچھ بھی مل جائے غنیمت ہے۔ کوئی کسی سے کچھ مانگتے وقت اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ بات صرف وہ منوا سکتے ہیں جو ڈٹ کر بات کریں۔ انسان ڈٹ کر بات صرف اُس وقت کر سکتا ہے جب اپنے بل پر جی رہا ہو۔ اپنے بل پر جینے والے ہی ڈھنگ سے جی پاتے ہیں‘ اپنی مرضی کے مطابق جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ حاصل کر لیتے ہیں اور اس معاملے میں وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور بھی نہیں ہوتے۔ دوسروں سے ملنے والی مدد کے آسرے پر جینے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے یعنی اُنہیں اپنی مرضی سے کچھ نہیں ملتا اور جو کچھ بھی ملتا ہے وہ لینا اور جھیلنا پڑتا ہے۔
ہمارا بھی یہی حال ہو چکا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر کام چلانے کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہم کہیں سے کوئی بھی چیز ''متعلقات‘‘ کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے۔ جب بھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے تو بہت سے معاملات مدد سے چمٹے ہوئے چلے آتے ہیں۔ کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے سے کچھ مانگیے تو جو کچھ دینا دلانا ہے اُس کی تفصیل تو بعد میں آتی رہے گی‘ شرائط پہلے چلی آتی ہیں۔ اور شرائط بھی ایسی کہ ہم اگر پوری کی پوری مان لیں تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔ عالمی مالیاتی اداروں کو ہماری کسی بھی پریشانی اور مجبوری سے کچھ غرض نہیں۔ ہو بھی کیوں؟ اُن کے اپنے ایجنڈے ہیں جن کی تکمیل کے لیے وہ دن رات پوری دنیا میں شکار کھیلتے پھرتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا بنیادی کام ترقی یافتہ دنیا کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی قابلِ رشک پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں۔ اب تک تو یہی دکھائی دیتا رہا ہے کہ اس مقصد کا حصول ترقی پذیر دنیا کو ایک خاص حد تک روکنے اور پسماندہ ممالک کو مستقل پسماندگی سے دوچار رکھنے ہی سے ممکن ہے۔
پاکستان سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کے معاملات میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ ہم نے جب بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں‘ جو کچھ ملا وہ بہت کم رہا اور اُس کے بدلے ہمیں جو کچھ دینا پڑا وہ کہیں زیادہ تھا۔ یہ کہانی عشروں سے ایک ہی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اِس میں ٹریجڈی تو ہے‘ ٹوئسٹ کوئی نہیں۔ سیدھی سی کہانی ہے ... قرضے لیتے جائیے اور اپنے وجود کو گُھن لگاتے جائیے۔
آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ہمیں جو کچھ بھی دیتے ہیں‘ اُس کے عوض ہم سے محض معاشی سطح پر بہت کچھ نہیں چاہتے بلکہ معاشرتی معاملات کا بگاڑ بھی یقینی بنانے سے باز نہیں آتے۔ قرضوں کا پیکیج دیتے وقت چند ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں جن کی تکمیل سے پاکستان کی معیشت ہی نہیں‘ معاشرت بھی داؤ پر لگتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ آئی ایم ایف کی چند بنیادی شرائط میں یوٹیلیٹیز کے دام بڑھانا بھی شامل ہے۔ ایک زمانے سے ہمیں آئی ایم ایف سے جو قرضے مل رہے ہیں‘ اُن کی محض ادائیگی کافی نہیں بلکہ اسٹرکچرل اصلاحات کے نام پر چند ایک بنیادی تبدیلیاں یقینی بنانا بھی لازم ہے۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی کا دائرہ وسیع کرنے کے نام پر پاکستان بھر میں عوامی سطح پر انتشار بڑھانے کو اپنا بنیادی مقصد بنا رکھا ہے۔ اس کی ایک واضح ترین مثال یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے پر خاص زور دیا جاتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کا پیکیج لینے والی ہر پاکستانی حکومت کو بجلی سمیت تمام یوٹیلیٹیز کے نرخ بڑھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ بات ایسی مشکل بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھا کر انتہائی مالدار طبقے سے زیادہ وصولیاں یقینی بنانے پر عالمی مالیاتی اداروں نے کبھی زور نہیں دیا۔ وہ تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور غریبوں کا جینا مزید دشوار ہو جائے۔
ایک بار پھر پاکستان کو آئی ایم ایف سے وسیع تر پیکیج کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران معیشت کو پہنچنے والے دھچکوں سے کماحقہ نمٹنے اور سیلاب کے بعد کی صورتِ حال کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے لازم ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے نئے پیکیج لیے جائیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے استدعا کی تھی کہ پیکیج کے لیے شرائط نرم کی جائیں کیونکہ معیشت کا بُرا حال ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکس وصولی بڑھائی جائے۔ ٹیکس وصولی بڑھانے کا مطلب ہے عوام پر مزید بوجھ لادنا۔ حکومت کو اندازہ ہے کہ اس شرط کی پابندی سے عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ ہمارے ہاں انتہائی مالدار طبقہ کچھ زیادہ دینے کو تیار نہیں۔ ٹیکس وصولی کی تان ٹوٹتی ہے صرف اور صرف غریب طبقے پر۔ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام ہی کی جیبوں سے مال نکالنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ وزارتِ خارجہ سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ حکومت اس نکتے پر مُصِر ہے کہ مزید ٹیکس لگائے بغیر بھی آمدن بڑھائی جا سکتی ہے اور سال کے آخر تک کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی گھٹ جائے گا۔ حکومت کہتی ہے کہ ٹیکس چوروں سے بھی وصولی کی جائے گی۔ درآمدات گھٹائی جارہی ہیں اور برآمدات کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے بھی وسیع البنیاد اقدامات کیے جارہے ہیں۔ محصولات کا ہدف 7100 ارب روپے کا رکھا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو منانے کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پاکستان کے لیے جو شرائط رکھی ہیں اُن کے حوالے سے نرمی اختیار کیے جانے کا کوئی عندیہ اب تک تو نہیں ملا ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس کوئی خاص آپشن تو بچا نہیں یعنی تان ایک بار پھر غریبوں ہی پر آکر ٹوٹے گی۔
ملک کہاں کھڑا ہے؟ سیاسی بحران ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ کوئی بھی اپنے مقام سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ملک کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔ سب اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ جنہیں اقتدار مل گیا ہے وہ ہر حال میں اُس سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور اقتدار جن کے ہاتھ سے جاتا رہا ہے وہ اس بدلی ہوئی صورتِ حال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ عملاً یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم نہیں کھیل پائے تو تمہیں بھی کھیلنے نہیں دیں گے۔ یہ ہٹ دھرمی ملک کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ ملک کو غیرمعمولی مالیاتی استحکام کی ضرورت ہے۔ معیشت کو مستحکم تر کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سیاسی عدم استحکام جلد از جلد ختم ہو۔ سیاسی محاذ آرائی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ کوئی اس حقیقت پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں‘ بیرونی قرضوں کی امید کمزور پڑتی جارہی ہے‘ ترسیلاتِ زر میں بھی پریشان کن حد تک کمی واقع ہو چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی اداروں نے ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بھی اِتنی گھٹادی ہے کہ کاروباری طبقہ سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ کہاں کتنی سرمایہ کاری کرے۔ صنعتی عمل جاری رکھے یا نہ رکھے۔ تجارت کا دائرہ وسیع تر کیا جائے یا نہیں۔ جاب مارکیٹ محض خرابی کا شکار نہیں بلکہ سُکڑ رہی ہے۔ کاروباری طبقہ اخراجات میں کٹوتی کے لیے چھانٹی سمیت کئی طریقے اختیار کر رہا ہے۔
خود انحصاری فی الحال ممکن نہیں تاہم اِس کے لیے ابتدائی کوششیں تو کی ہی جا سسکتی ہیں۔ بیرونی قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے حُب الوطنی پر مشتمل جامع مساعی کی اشد ضرورت ہے۔ ہاتھوں کو پھیلانے کے بجائے محنت اور جاں فِشانی کا عادی بنانا ہی اب بہترین آپشن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں