جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ محض قوت سے نہیں بلکہ قوتِ ارادی سے ہوتا ہے۔ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کے لیے صلاحیت و سکت سے بہت پہلے قوتِ ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلے مرحلے میں طے کرنا ہوتا ہے کہ کام کرنا بھی ہے یا نہیں۔ صلاحیت و سکت کے ساتھ ساتھ مہارت بھی ناگزیر ہے تاہم ان تمام امور سے قبل آپ کو ذہن بنانا پڑتا ہے۔ جب تک ہم کسی کام کے کرنے کا ذہن نہ بنائیں تب تک معاملہ شروع ہی نہیں ہو پاتا۔
شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر لکھنے والوں کی اکثریت اس نکتے پر خاص زور دیتی ہے کہ انسان کو پہلے اچھی طرح طے کرنا چاہیے کہ وہ آخر کرنا کیا چاہتا ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے یا بننا ہے اُس کے لیے ذہن سازی کے مرحلے سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ عمر کا بڑا حصہ یہ طے کرنے میں ضائع کر بیٹھتے ہیں کہ بننا اور کرنا کیا ہے۔ کریئر کی سوچ اوّل تو ہمارے ہاں ہے نہیں۔ اور اگر نئی نسل اس حوالے سے سوچتی بھی ہے تو محض سرسری انداز سے یا خانہ پُری کے لیے۔ بیشتر نوجوان کبھی کچھ بننے کا سوچتے ہیں اور کبھی کچھ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جو شعبہ اپنایا جارہا ہے اُس کے تقاضے کیا ہیں اور کچھ مدت کے بعد اُس کی قدر کیا ہوگی۔ ہو سکتا ہے کوئی شعبہ آج بہت اچھا لگ رہا ہو تاہم کچھ مدت کے بعد‘ ٹیکنالوجیز کے ہاتھوں‘ اُس شعبے کا تیا پانچا ہو جائے اور حالات انسان کو اس قابل ہی نہ رہنے دیں کہ اُس شعبے میں نمو تلاش کرے۔ شخصی ارتقا کے لیے شعبے کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اس معاملے میں مشاورت کی بھی بہت اہمیت ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں کریئر کے حوالے سے راہنمائی کرنے والے ماہرین اور ادارے بڑی تعداد میں ہیں۔ وہ نئی نسل کو بالخصوص اور پختہ عمر کے عام آدمی کو بالعموم بتاتے رہتے ہیں کہ کون سے شعبے کریئر کے حوالے سے وسیع تر اور توانا تر امکانات کے حامل ہیں۔
جن معاشروں میں مستقبل کے لیے تیار ہونے کا شعور نہیں پایا جاتا اُن کا وہی حشر ہوتا ہے جو آج ہمارے معاشرے کا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ کبھی یہ طے نہیں کرتے کہ بننا اور کرنا کیا ہے۔ نئی نسل آج بھی کسی شعبے کا انتخاب کرتے وقت اپنے ذوق و شوق سے کہیں بڑھ کر صرف یہ دیکھتی ہے کہ یافت یعنی آمدن کتنی ہوگی۔ جہاں سارا زور صرف دولت پر ہو وہاں کام سے مطمئن ہونے والوں کی تعداد خاصی کم رہتی ہے۔ کسی بھی بچے کو کچھ بنانے اور کچھ کرنے کے قابل بنانے میں اساتذہ کا کردار بھی بہت اہم ہے مگر اُس سے کہیں بڑھ کر والدین اور گھر یا خاندان کے بزرگوں کا کردار اہم ہے کیونکہ بچہ اُن کے ساتھ زندگی بسر کرے گا۔ جن سے دن رات تعلق رہتا ہو وہ جو کچھ بھی سکھائیں گے وہی ذہنی یا فکری ساخت کا حصہ بنے گا۔ والدین مثبت سوچ کے حامل ہوں تو بچے مثبت انداز سے سوچنا سیکھتے ہیں اور اگر اُن میں منفی سوچ نمایاں ہو تو بچے منفی طرزِ فکر کی طرف جاتے ہیں۔ گھر اور خاندان کے بزرگ ہی بچوں میں بڑپّن کے بیج بوتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب بڑوں میں بڑپّن پایا جاتا ہو۔ اگر بڑے ہی بات بات پر چھُٹپن کا مظاہرہ کریں تو بچے کیا سیکھیں گے؟ بچہ جو کچھ بھی بنتا ہے وہ ماں کی گود اور بزرگوں کی تربیت سے بنتا ہے۔ اگر یہ ابتدائی سطح ہی غلط ہو تو بچے کا خدا ہی حافظ ہے۔
کوئی بھی بچہ بڑا ہوکر کیا بنے گا‘ اس کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ وہ کیا مانتا اور کیا ٹھانتا ہے۔ اگر وہ قدم قدم پر ہار ماننے کا عادی ہو تو جیت چکا۔ ہار ماننے والے کچھ نہیں کر پاتے۔ واضح رہے کہ غلطی تسلیم کرکے سر جھکانے اور ہار مان کر حوصلہ بھی ہار جانے میں بہت فرق ہے۔ غلطی مان لینے سے انسان بڑا بنتا ہے۔ شکست جیسی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے اور ہار مان لینے میں بھی بہت فرق ہے۔ جب کوئی اپنی شکست کو تسلیم کرکے اُس کے اسباب پر غور کرتا ہے تو کچھ نیا کرنے کی سوجھتی ہے۔ انسان اپنی ناکامی سے سبق سیکھ کر وہ غلطیاں دہرانے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جن کے باعث شکست سے دوچار ہونا پڑا ہو۔ ہار مان لینے کا مطلب ہے ہمت ہار جانا۔ ایسی حالت میں انسان کچھ نیا کرنے یا نئے سِرے سے ابتداء کرنے کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ ایسی حالت میں شخصیت کی نمو رک جاتی ہے۔
زندگی اگر کچھ ہے تو صرف اُن کے لیے جو ہمت نہیں ہارتے اور ہر حال میں اپنے ارادوں کو توانا رکھنے پر محض یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ توجہ بھی دیتے ہیں۔ آپ کو اپنے معاشرے میں قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جو ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی نفسی کمزوری ہے۔ کسی بھی پریشان کن صورتحال سے گھبرا جانا اور ہمت ہار بیٹھنا اب محض عادت نہیں بلکہ فیشن کے درجے میں ہے۔ لوگ آسانی سے ہمت کیوں ہار بیٹھتے ہیں؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا اور کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ہار مان لیجیے اور ایک طرف بیٹھ جائیے۔ کچھ کرنے کی ٹھانیے تو بیدار ہوکر اٹھ بیٹھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ محوِ عمل بھی ہونا پڑتا ہے۔ ٹھاننے کا مطلب ہے کام سے لگ جانا بلکہ لگے رہنا۔ ہار مان لینے کے بعد تو کچھ کرنا ہی نہیں پڑتا۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہار مان لینے سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہار مان لینے سے ہم وہ بھی نہیں کر پاتے جو کر سکتے ہیں۔ ہار مان کر ایک طرف بیٹھ رہنے کا مطلب ہے اُمید مکمل طور پر ہار دینا۔ یہ عملاً موت ہی کی ایک شکل ہے۔ جب کوئی حوصلہ ہار بیٹھے اور ہار مان لے تو سمجھ لیجیے کہ جہاں ہے بس وہیں اٹکا رہے گا‘ بڑھ نہ سکے گا۔ ہار مان لینے کا مطلب مر جانا نہیں ہوتا مگر غور کیجیے تو یہ مرنے ہی کی ایک صورت ہے۔ زندگی بڑھتے رہنے کا نام ہے۔ ہار ماننے کا مطلب ہے کسی مقام پر رُک جانا‘ تھم جانا۔ تھمے رہنے سے انسان محض گزارے کی سطح پر خاصی مجبور سی زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی پیمانے سے اور کسی بھی زاویے سے نمو ممکن نہیں ہو پاتی۔
زندگی کا حسن کسی بھی معاملے میں کچھ ٹھان کر آگے بڑھنے میں ہے۔ جب انسان کچھ کرنے کی ٹھانتا ہے تو دراصل دنیا کو بتا رہا ہوتا ہے کہ اُسے اپنی صلاحیت و سکت پر کس حد تک یقین ہے۔ یہ یقین ہی اُسے کامیابی کی طرف بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے اور کام کرنے کی توانائی بھی عطا کرتا ہے۔ کچھ کرنے کا عزم بھی کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ کوئی آسان ڈگر ہے ہی نہیں۔ یہ دنیا ہے ہی اُن کے لیے جو آسانیوں کے متلاشی نہ رہتے ہوں بلکہ مشکلات کو تلاش کرکے اُن سے نمٹنے کا ذہن رکھتے ہوں۔
پسماندہ معاشروں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے حالات بدلنے کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کام کرنے کی صلاحیت اور سکت ہو تب بھی اُسے بروئے کار لانے کے بارے میں منظم سوچ نہیں اپنائی جاتی۔ کسی کی کامیابی دیکھ کر اپنا دل چھوٹا کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی جبکہ ہر کامیاب انسان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک حاصل کی جاتی ہے۔ کسی کو بھرپور کامیابی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں مل جاتی۔ سبھی محنت کرنے پر کچھ بن پاتے ہیں۔ کامیابی پر حق بھی اُنہی کا ہے جو ہار نہ مانیں اور کچھ کرنے کی ٹھان لینے کے بعد وہ کر گزریں۔
یہ دنیا بظاہر کسی کی نہیں مگر در حقیقت صرف اُن کی ہے جو حالات سے مایوس ہوکر ہتھیار نہ پھینکیں بلکہ لڑتے رہنے پر یقین رکھیں۔ یہ یقین آسانی سے پروان نہیں چڑھتا۔ دن رات ایک کرنے پر اس یقین کی دولت ہاتھ آتی ہے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے اور ہمت ہار کر ایک طرف بیٹھ رہتے ہیں‘ اللہ کی طرف سے اُنہیں بھی رِزق ملتا ہے تاہم یہ زندگی بسر کرنے کا باعزت طریقہ نہیں۔ ہار ماننے کے بجائے کچھ ٹھاننے پر یقین رکھیے گا تو کچھ نہ کچھ ضرور پائیے گا۔