"MIK" (space) message & send to 7575

کیا یاد رہتا ہے؟

کیا یاد رہتا ہے؟ بہت کچھ۔ ہر انسان کو یہی لگتا ہے کہ اُسے سبھی کچھ یاد ہے۔ آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہوں گے۔ یا پھر ذہن میں یہ بات ہوگی کہ بیشتر باتیں، معاملات اور چیزیں یاد ہی رہتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے! ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ اگر ہم سبھی کچھ یاد رکھیں یا سب کچھ یاد رہ جائے تو یقین کیجیے جینا محال ہو جائے۔ ذہن کی قابلِ رشک کارکردگی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ اِسے کام کرنے دیا جائے۔ کام کرنے دیا جائے؟ یعنی ذہن ہر وقت اِتنا بھرا ہوا نہ ہو کہ الجھا ہی رہے۔
ہمیں کیا یاد رہتا ہے‘ یہ سوال بھی اہم ہے مگر اہم تر سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا یاد رہنا چاہیے؟ جو کچھ ہم کہتے، سُنتے، پڑھتے یا محسوس کرتے ہیں وہ سب کا سب یاد نہیں رہ سکتا۔ یاد رکھنے کی گنجائش ہے مگر ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور قدرت نے بھی ہمارا کام آسان کردیا ہے۔ قدرت کے طے کردہ اصولوں کے مطابق اہم ترین معاملات حافظے کی اوپری سطح پر ہوتے ہیں۔ آپ کو جو کچھ یاد رکھنا چاہیے یا یاد رہنا چاہیے بس وہی پوری طرح یعنی تمام ممکنہ تفصیلات کے ساتھ یاد رہتا ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر بہت کچھ دیکھتے، سنتے، پڑھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے واضح طور پر بڑا حصہ حافظے سے محو ہو جاتا ہے۔ یہ بھی قدرت کا خاص کرم ہے۔ اگر بہت کچھ یاد رہے یا واضح طور پر یاد رہے تو انسان کا جینا آسان نہ رہے۔ حافظہ بہت اچھا اور متحرک ہو تو ذہن ہر وقت الجھا ہوا رہتا ہے۔ جو لوگ گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرتے رہتے ہیں اُن کا حشر ہم نے دیکھا ہی ہے۔ ماضی میں زیادہ وقت گزارنا کسی کے لیے سُود مند نہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں‘ اُس سے سبق ضرور سیکھا جاسکتا ہے؛ تاہم سبق سیکھنے کی بھی کوئی نہ کوئی حد تو ہونی ہی چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ گزرے ہوئے زمانے سے سبق سیکھنے کے معاملے میں زمانۂ حال کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
حافظے کا ایک خاص حد تک متحرک رہنا اور بعض معاملات میں کمی بیشی سے متصف ہونا بھی ہمارے حق میں ہے۔ اگر بہت کچھ یاد رہے تو پھر اہم ترین معاملات بھیڑ میں گم ہوکر رہ جائیں۔ اگر کوئی شخص بہت کچھ یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہو تو وہ کبھی ضرورت پڑنے پر مطلوبہ بات کو یاد کرنے میں ویسی ہی الجھن محسوس کرتا ہے جیسی بھوسے میں سوئی تلاش کرتے وقت درپیش ہوتی ہے۔ ہمیں کیا یاد رہتا ہے اور کیا یاد نہیں رہتا اس حوالے سے دنیا بھر میں بہت سے ماہرین نے تحقیق کی ہے اور جو نتائج اس تحقیق کے نتیجے میں اخذ کیے گئے ہیں‘ وہ بہت حد تک مماثل ہیں۔ چند ماہرین نے زندگی بھر حافظے، تعلیم و تعلم اور ذہنی کارکردگی کے حوالے سے تحقیق کے نتیجے میں جو نتائج اخذ کیے ہیں اُن کی روشنی میں بتایا ہے کہ انسان کے لیے سب کچھ یا بہت کچھ یاد رکھنا لازم ہے نہ سُود مند۔ ذہن کی شاندار کارکردگی کے لیے میدان تیار کرنے کی غرض سے لازم ہے کہ فضول معاملات زیادہ تعداد میں شدت کے ساتھ یاد نہ رہیں۔
امریکی ماہرِ تعلیم ایڈگر ڈیل نے تعلیم و تعلم کے حوالے سے جو ماڈل (لرننگ پیرامِڈ) تیار کیا ہے اُس کی رُو سے جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اُس کا 10 فیصد یاد رہتا ہے، جو کچھ ہم سنتے ہیں اُس کا 20 فیصد یاد رہتا ہے، جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اُس کا 30 فیصد یاد رہتا ہے، جو کچھ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں اُس کا 50 فیصد یاد رہتا ہے، جن معاملات پر ہم دوسروں سے گفتگو اور مباحثہ کرتے ہیں اُس کا 70 فیصد یاد رہتا ہے، جن معاملات کا ہمیں ذاتی تجربہ ہو اُن کا 80 فیصد یاد رہتا ہے اور جو کچھ ہم کسی کو سکھاتے ہیں اُس کا 95 فیصد یاد رہتا ہے۔ ہمیں پڑھا ہوا بھی یاد رہتا ہے مگر بہت کم۔ کیوں؟ اِس لیے کہ یہ سرسری معاملہ ہوتا ہے۔ سنے ہوئے معاملات کا بھی یہی حال ہے کیونکہ کسی بھی ماحول میں ہماری سماعت سے بہت کچھ ٹکرا رہا ہوتا ہے۔ سماعت کسی بھی آواز کو وصول کرنے سے انکار نہیں کرسکتی۔ ذہن کے لیے بڑی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ آوازوں کی بھیڑ میں کام کی آواز کو پہچانے اور محفوظ رکھے۔ یہی سبب ہے کہ سماعت سے ٹکرانے والی باتیں زیادہ یاد نہیں رہتیں۔ جب ماحول میں بہت سی آوازیں پائی جارہی ہوں تب کوئی کام کی بات یا تو بالکل یاد نہیں رہتی یا پھر اِتنی یاد رہتی ہے کہ ٹھیک سے سمجھ میں بھی نہیں آتی اور زیادہ کام کی بھی ثابت نہیں ہوتی۔ آنکھیں بہت کام کی چیز ہیں۔ یہ جو کچھ دیکھتی ہیں اُس کا خاصا بڑا یا نمایاں حصہ ہمیں یاد رہتا ہے۔ جب ہم کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ذہن کو اضافی کام نہیں کرنا پڑتا۔ اُسے سوچنا نہیں پڑتا کہ فلاں چیز کیسی ہوگی۔ اگر کسی کمرے کا بیان آپ پڑھ رہے ہوں تو جیسے جیسے آپ پڑھتے جائیں گے، ذہن سوچتا رہے گا کہ وہ کمرا کیسا دکھائی دیتا ہوگا۔ دیکھنے کی صورت میں ذہن کو اضافی مشقت سے نجات ملتی ہے اور یوں ہم دیکھے ہوئے کو زیادہ آسانی سے اور نمایاں حد تک یاد رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
ہم اپنے ماحول میں جو کچھ بھی پاتے ہیں وہ ہماری سماعت سے ٹکراتا ہے یا پھر نظر سے۔ جب ہم کسی معاملے کو زیادہ وضاحت کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں تو اُسے پڑھتے ہیں۔ پھر بھی بہت کچھ ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ جو کچھ ہم دیکھتے، سنتے یا پڑھتے ہیں وہ سب کا سب آسانی سے ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بہر کیف‘ جب کوئی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی تو ہم اُس پر گفتگو کرتے ہیں۔ گفتگو یعنی مکالمہ! مکالمہ یعنی خیالات کا تبادلہ! اپنی بات کہنے اور دوسرے کی بات سننے سے بہت سے معاملات زیادہ واضح ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مکالمے کی روایت معاشروں کو پروان چڑھاتی ہے۔ جب کسی بھی موضوع پر کھل کر بات ہوتی ہے تو ابہام دور ہوتا ہے، غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں اور ذہن واضح ہوکر کام کرتے ہیں۔ ذہن کو کام کرنے کے لیے زیادہ گنجائش اُس وقت ملتی ہے جب اُس میں کسی معاملے پر ابہام نہ پایا جاتا ہو۔ مکالمے یعنی گفت و شنید سے ابہام کا خاتمہ ہوتا ہے اور یوں ذہن کی راہ میں کھڑی ہوئی دیواریں گر جاتی ہیں۔ ہم جس تجربے سے خود گزر رہے ہوتے ہیں وہ اچھی خاصی حد تک ہمیں یاد رہتا ہے۔ اگر کسی نے پورا دن شدید گرمی میں گزارا ہو تو اس بات کو مدتوں یاد رکھتا ہے۔ کوئی بارش کے باعث کسی علاقے میں گِھر جائے تو اِس تجربے کو مدتوں نہیں بھولتا۔ اِسی طور کسی حادثے کو یا تعلقات میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو بھولنے میں ایک زمانہ لگتا ہے۔ انسان جن معاملات میں اپنے جسم کے ساتھ شریک ہو اُس کے بہت گہرے اثرات قبول کرتا ہے اور اُن معاملات کے بیشتر نقوش حافظے کی دیواروں پر ثبت ہوکر رہ جاتے ہیں۔
اگر ہم بہت کچھ یاد رکھنا چاہتے ہیں تو کیا کریں؟ ایڈگر ڈیل نے خاصی وقیع تحقیق کی روشنی میں بہت آسان حل سجھایا ہے۔ جو کچھ ہم سکھاتے ہیں وہ بہت نمایاں حد تک ہمیں یاد رہتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں بھرپور مہارت پیدا کرنا ہے تو سکھانے پر مائل رہیے۔ جو اساتذہ بہت پڑھاتے ہیں اُن کے ذہن میں بہت کچھ مکمل طور پر محفوظ ہو رہتا ہے۔ تعلیم و تعلم کی خاصیت یہ ہے کہ اِس عمل سے زندگی کا حسن نکھرتا ہے۔ انسان جو کچھ پڑھتا ہے اگر اُسے پڑھانے میں یا سیکھے ہوئے کو سکھانے میں دلچسپی لے تو ذہن کو جِلا ملتی رہتی ہے۔ جو معاملہ بار بار ہمارے سامنے آتا رہے وہ حافظے سے چمٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یونان کے معروف فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ کسی بھی شعبے میں بھرپور مہارت اِس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ دن رات مشق کرتے رہیں۔ یہ عمل کسی بھی فن کو فکری ساخت کا حصہ بنا دیتا ہے۔ پھر اُس فن کا اظہار بہت حد تک تحت الشعور کا معاملہ بن جاتا ہے۔ جو کچھ بھی (اچھا) آپ یاد رکھنا چاہتے ہیں اُسے دُہراتے رہیے یعنی سکھاتے رہیے۔ مہارت کے حصول کا اِس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں