"MIK" (space) message & send to 7575

کچھ نیا ہو جائے

لوگ کاربن کاپی کو پسند کرتے ہیں؟ کاربن کاپی کو پسند کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ روش اُن کی ذہنی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی نے ایک مدت تک محنت کے بعد جو مقام پایا ہو اور جو فن سیکھا ہو اُس کی نقل بہر صورت نقل ہی ہوتی ہے۔ بڑے گلوکاروں کے گائے ہوئے نغمات دنیا بھر میں گائے جاتے ہیں مگر وہ نقل ہی کہلاتے ہیں۔ اصل ہر حال میں اصل ہے۔ فی زمانہ ٹیکنالوجی کی بھرمار ہے۔ ریکارڈنگز سے متعلق ٹیکنالوجی بھی ایسی پیش رفت یقینی بناچکی ہے کہ بہت سے پرانے گانوں کو re-master کرکے ایسی حالت میں پیش کیا جائے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔ بعض پرانے گانوں کو نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس قدر عمدگی کے ساتھ ریکارڈ کیا جاتا ہے کہ لوگ سن کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے‘ اصل تھا تو اُس کی نقل ممکن ہوئی نا! اور نقل کو ایک حد تک ہی سراہا جاسکتا ہے۔ کسی بڑی فلم کا ری میک بہرحال ری میک ہی ہوتا ہے۔ اُسے اصل کے مساوی کسی صورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعض فلموں کو دوبارہ بناتے وقت جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کچھ کا کچھ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل اُن فلموں کو چُوں چُوں کا مربہ بنادیتا ہے۔ ایسے میں اصل کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ چند برس قبل بالی وُڈ اداکار امیتابھ بچن کی فلم ''ڈان‘‘ کا ری میک بنایا گیا۔ ڈان کا کردار شاہ رخ خان نے ادا کیا اور فلم کے ڈائریکٹر فرحان اختر تھے جو ڈان کے مصنف جاوید اختر کے صاحبزادے ہیں۔ ڈان ٹو میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کچھ نیا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہی ہونا تھا! 1978ء میں ریلیز ہونے والی ڈان کی کامیابی کا پورا کریڈٹ رائٹنگ اور ایکٹنگ کو جاتا ہے۔ سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر ایسا سکرین پلے لکھا اور ایسے مکالمے دیے کہ لوگ اَش اَش کر اُٹھے۔ فلم میں کئی موڑ ایسے تھے جو شائقین کو نشست سے اٹھنے نہیں دیتے تھے۔ یہ فلم آج بھی بہت شوق سے دیکھی جاتی ہے۔ فرحان اختر کے ذہن میں شاید یہ بات آئی کہ نئی مشینری فلم کو کچھ نیا بنادے گی۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ ہوتا بھی کیسے؟ لکھنے کا کمال الگ ہوتا ہے۔ بہت سی فلمیں بڑے اداکاروں کے باوجود محض جملوں کی بنیاد پر کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔ اب اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں کہ کوئی بھی فلم اصلاً تو سکرپٹ ہی کی بنیاد پر سپر ہٹ یا سپر فلاپ ہوتی ہے۔ سکرپٹ اچھا ہو تو لوگ اداکاری نہیں دیکھتے اور اگر سکرپٹ پھسپھسا ہو تو لوگ بڑے اداکاروں کی محنت بھی قبول نہیں کرتے۔ گویا جو بھی کچھ ہے ''لکھاری کا پھیلاؤ‘‘ ہے!
قصہ مختصر، جو کچھ بھی پہلے مرحلے میں کیا جاتا ہے وہی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب کسی چیز کا اعادہ ہوتا ہے تو اُس پر لوگ زیادہ متوجہ اس لیے نہیں ہوتے کہ نقشِ اول سے اُس کا موازنہ ناگزیر طور پر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی نے نقل پر محنت بھی کی ہو تو بالعموم ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو نقل چھوڑ کر اصل کی طرف جھکنا چاہیے۔ نئے خیال کے ساتھ کچھ نیا کرنے کی سمت بڑھیے گا تو اندازہ ہوگا کہ دِقّت کے باوجود مزہ تو اِسی بات میں ہے کہ کچھ نیا کیجیے‘ کچھ نیا دیجیے۔ دنیا نئے کی قدر کرتی ہے۔ انسان کی فطرت ایسی ہی واقع ہوئی ہے۔ کسی بھی چیز کی نقل ہر حال میں چونکہ نقل ہوتی ہے اس لیے اُس کا کریڈٹ بھی نہیں لیا جاسکتا۔ آج اگر بھارتی حکومت تاج محل کے پہلو میں بالکل ویسی ہی عمارت کھڑی کردے تو کیا اُسے تاج محل قرار دیا جاسکے گا؟ بالکل نہیں! نقل حتمی تجزیے میں نقل ہی ہے۔ اور یہ بات بھی ہے کہ تاج محل کے ہوتے ہوئے دنیا اُس کی نقل میں کیوں دلچسپی لے یا اُس کے بنانے والوں کو کس بات کا کریڈٹ دے؟
اداکاری ہو یا گلو کاری، فنِ تعمیر ہو یا مصوری‘ ہر معاملے میں اہمیت اصل کی ہوتی ہے۔ اگر کوئی کسی چیز سے تحریک پاکر کوئی نئی چیز پیش کرے تو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کسی چیز سے متاثر ہونا اچھی بات ہے اور متاثر ہوکر کچھ نیا سوچنا اور بھی اچھی بات ہے مگر معاملہ نقل کا نہیں بلکہ اکتساب کا ہونا چاہیے۔ بہت سی کہانیاں اور ناول کسی نہ کسی تخلیق سے متاثر ہوکر قلم بند کیے گئے مگر دنیا نے انہیں پسند کیا کیونکہ اُن میں تھوڑی بہت اصلیت ضرور تھی۔ سوال اصلیت کا ہے۔ کاربن کاپی بھی غیر معمولی محنت چاہتی ہے۔ کسی بھی شاہکار کی نقل کرنا آسان کام نہیں۔ نقل کی تیاری میں اصل کی تمام نزاکتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ لوگ جب موازنہ کرتے ہیں تو معمولی سی کمی کو بھی بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی شاہکار کی نقل تیار کرنے میں بھی غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے تو پھر اصل کام ہی کیوں نہ کیا جائے۔ کسی بھی چیز کی بہترین نقل تیار کرنے والابھی نقّال کہلاتا ہے اور بھرپور تحسین کی منزل سے دور ہی رہتا ہے۔ لوگ سراہتے بھی ہیں تو محض نقال کے طور پر۔ ایسی تحسین اور ایسی ستائش انسان کی روح میں تشنگی سی چھوڑ جاتی ہے۔
کیا کچھ نیا سوچنا ناممکن ہے؟ جو کچھ ہم اپنے ماحول میں دیکھ رہے ہیں اُس کا بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں اصلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیا سوچنا کسی بھی اعتبار سے ناممکن معاملہ نہیں۔ نیا سوچنے کے لیے اضافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اپنے شعبے میں رونما ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس جائزے کی بنیاد پر ذہن نئی سوچ کی طرف بڑھتا ہے۔ کوئی نیا خیال ذہن میں جڑ پکڑتا ہے تو اُسے عملی شکل دینے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی نئے خیال کو محض ابتدائی شکل میں قبول کرکے سکون کا سانس نہیں لینا چاہیے بلکہ اُسے پروان چڑھانے کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ کوئی بھی خیال اپنی ابتدائی شکل میں لازمی طور پر بہت زیادہ پُرکشش نہیں ہوتا۔ جب اُس خیال کو پروان چڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے تب اُس کے ساتھ بہت کچھ جُڑتا چلا جاتا ہے۔ یوں خیال کی جڑیں گہری ہوتی جاتی ہیں اور اُس پر کھڑی کی جانے والی عمارت مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ لوگ ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ محض نقل کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ اُسے زیادہ سے زیادہ فرسٹ کاپی یا سیکنڈ کاپی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اصل کام کرنے والوں کو کبھی کبھی کمتر درجے کی چیز بھی زیادہ توقیر سے ہم کنار کردیتی ہے۔ دنیا چونکہ کچھ نیا چاہتی ہے اس لیے کمتر معیار پر بھی گزارہ کرلیتی ہے۔ بہت سی فلمیں اچھی اداکاری، اچھی موسیقی اور دیگر بہت سے عوامل کے باوجود محض اس لیے فلاپ ہو جاتی ہیں کہ کہانی چرائی ہوئی ہوتی ہے۔ بہت سے گانے محض نقل ہونے کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہو پاتے جبکہ اُن کی تیاری پر اچھی خاصی محنت کی گئی ہوتی ہے۔ بہت سے اچھے کام محض اس لیے زیادہ پسند نہیں کیے جاتے کہ اُن میں اصلیت کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور ناکامی کا خطرہ ٹالنے کے لیے نقل کو زیادہ اہمیت دی گئی ہوتی ہے۔
کچھ نیا کرنے کی ذہنیت رکھنے والوں کو یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی نئے خیال کو پوری تیاری کے ساتھ پیش کرنا ہی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ کسی بھی خیال کو اُس کی ابتدائی شکل میں پیش کرنے سے کامیابی کا امکان خاصا کمزور پڑ جاتا ہے۔ ہر نیا خیال پنپنے میں کچھ وقت لیتا ہے اور محنت بھی چاہتا ہے۔ بہت سے سکرپٹ رائٹر کسی نئے خیال کو عجلت میں اِس طور پیش کردیتے ہیں کہ وہ کچا رہ جاتا ہے۔ بنیادی آئیڈیا ذہن نشین رکھ کر اُسے مضبوط اور پیش کیے جانے کے قابل بنانے کے لیے غیر معمولی محنت کے جاں گسل مرحلے سے گزارنا پڑتا ہے۔ ہر نیا خیال محنت طلب ہوتا ہے۔ اِس مرحلے میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ نیا خیال انسان کو نچوڑ لیتا ہے مگر محنت کے صِلے سے نوازتا بھی ہے۔ اِسی صورت تخلیقی جوہر کھل کر سامنے آتا ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ کچھ نیا ہوجائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں