پروفیسر صاحب گاؤں گئے۔ وہاں اُنہوں نے ایک کولھو دیکھا۔ کولھو میں دو بیل جُتے ہوئے تھے۔ دونوں چل رہے تھے یعنی کولھو کے ذریعے تیل نکالا جارہا تھا۔ پروفیسر صاحب نے کولھو کے نگران سے پوچھا ''بیلوں کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی گئی ہے؟‘‘ نگران نے کہا ''حضور! دونوں بیل یہ سوچ کر خوش ہیں کہ دنیا کی سیر کر رہے ہیں۔ اگر آنکھوں پر پٹی نہ بندھی ہو تو اُنہیں پتا چل جائے گا کہ وہ تو ایک ہی جگہ گھوم رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بات اُنہیں دُکھی یا دیوانہ کردے!‘‘ اب پروفیسر صاحب نے دوسرا سوال داغا ''اِن کے گلے میں گھنٹی کیوں بندھی ہے؟‘‘ نگران نے وضاحت کی ''اگر ہم اِدھر اُدھر ہو جائیں اور یہ دونوں دکھائی نہ دے رہے ہوں تو گھنٹی کی آواز سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ چل رہے ہیں‘‘۔ یہ سن کر پروفیسر صاحب نے کہا ''فرض کرو یہ ایک جگہ کھڑے ہوکر گردن ہلاتے رہیں اور گھنٹیاں بجتی رہیں تو تم تو یہی سمجھوگے کہ یہ دونوں چل رہے ہیں‘‘۔ نگران گویا اسی سوال کا منتظر تھا‘ تنک کر جواب دیا ''جنابِ عالی! یہ بے چارے جانور اپنا کام پوری ایمان داری سے کرتے ہیں۔ یہ کوئی فلسفی تھوڑی ہیں!‘‘۔ پروفیسر صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ سچ سننے کے بعد کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟ ہم بھی تو 'فلسفی‘ ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تو یہی ہو رہا ہے۔ کولھو چل رہے ہیں مگر چند بیل ہی ہیں جو اُن میں جُتے ہوئے ہیں اور گھومے جارہے ہیں۔ اُن کی آنکھوں پر پٹی تو نہیں بندھی مگر اُنہوں نے یہ حقیقت اچھی طرح جان اور سمجھ لی ہے کہ سب کچھ دیکھ کر بھی نہ دیکھنے ہی میں راحت کا سامان ہے اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ سوچے سمجھے بغیر کیے جانا ہے۔
اکثریت اُن کی ہے جو بیلوں کی طرح کولھو میں تو بندھے ہوئے ہیں؛ تاہم دماغ اُن کے لومڑی کی طرح چل رہے ہیں یعنی کچھ کر نہیں رہے اور دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے اندازے کے مطابق‘ وہ ایک مقام پر رُک کر گردنیں ہلا رہے ہیں اور اُن کے گلے بندھی گھنٹیاں بج بج کر یہ تاثر دے رہی ہیں کہ کام ہو رہا ہے۔ یوں ان کا کام چل رہا ہے۔ آج ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں کام کرنے والے برائے نام ہیں اور کام کا تاثر دینے والوں کی تعداد اِتنی نمایاں ہے کہ کام کرنے والے بے چارے کہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب ماحول رفتہ رفتہ ایسا ہوتا جارہا ہے کہ کوئی کام کرنے پر فخر بھی محسوس نہیں کرتا اور بتاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے کہ وہ کام کرتا ہے! کام نہ کرنا اور اُس پر کام کرتے رہنے کا تاثر دینا ایسا ہنر ہے جو کل تک عیوب میں شمار ہوتا تھا مگر اب لوگ اِسے مہارت اور چالاکی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کسی بھی حلقے میں آپ کو ایسے لوگ نمایاں دکھائی دیں گے جو نہ صرف یہ کہ کام نہیں کرتے بلکہ اِس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ محنت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک پوری دیانت سے کام کرنا کوئی خوبی نہیں بلکہ عیب ہے اور اس عیب سے بچنے ہی میں ''دانش مندی‘‘ ہے! یوں تو کئی ریاستیں ہیں جن میں کام نہ کرنے پر بھی ''سُکون‘‘ سے جینے کے ہنر میں مہارت کے حامل افراد کی تعداد کم نہیں۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایسی ریاستیں مکمل اور شدید ناکامی کے گڑھے میں گری ہوئی ہیں۔ یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
پوری دیانت سے اپنا کام کرنا وہ وصف ہے جو سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔ چند ایک ہیں جنہیں پوری دیانت اور جاں فشانی سے جینے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی طور کام سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور اِس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ وہ دن کب کے جاچکے جب کوئی کام سے جی چُراتا تھا تو لوگوں سے نظر بھی چُراتا تھا۔ جو لوگ کام نہ کرنے پر یقین رکھتے تھے اُن میں اِتنی حمیت بہر حال ہوا کرتی تھی کہ ایسا کرنے پر فخر نہیں کرتے تھے اور کوئی پوچھ بیٹھتا تھا تو آئیں بائیں شائیں کرکے بات ٹال دیا کرتے تھے۔ آج کا ہمارا معاشرہ ایسے ''فرزندوں‘‘ سے بھرا پڑا ہے جو کام سے یوں جی چُراتے ہیں گویا یہ کوئی عیب ہو اور لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ کام ہو رہا ہے تو وہ ذلیل کریں گے! گردن ہلاکر گھنٹی بجاتے رہنے کا ہنر عام ہوچکا ہے۔ بیشتر اس ہنر میں ایسے ماہر ہیں کہ اُن کی مہارت دیکھ کر رشک آتا ہے۔ گردن ہلاتے رہنے کے ہنر میں ویسے تو خیر معاشرے کا ہر طبقہ ہی ماہر ہے؛ تاہم اس معاملے میں سربراہی سرکاری مشینری کے پُرزوں کے حصے میں آئی ہے۔ سرکاری دفاتر میں ایسے لوگ قدم قدم پر ملیں گے جو گردن ہلاکر گھنٹی بجاتے ہوئے کام کرنے کا تاثر قائم کرنے کے ماہر ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ گھنٹی کے نہ ہونے پر بھی گھنٹی کی آواز نکال لیتے ہیں۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ گلے میں باندھنے کے لیے گھنٹی فراہم نہ کی جائے تو اپنی جیب سے خرید کر باندھ لیتے ہیں کہ اپنی سہولت کیلئے اِتنا تو کرنا ہی چاہیے! گردن ہلاتے رہنے کا ہنر کیا ہے؟ زندگی کو ''آسان‘‘ بنانے کا ہنر۔ یہ تن آسانی اگر کسی کو راس آجائے تو پھر جان نہیں چھوڑتی۔ اس قبیح عادت نے پوری پوری قوموں کو چاٹ ڈالا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے معاشرے بکھرے ہوئے ہیں جو کام سے جی چرانے کی پاداش میں تباہ کردیے گئے۔
ہر انسان کو قدرت نے کسی نہ کسی مقصد کے تحت خلق کیا ہے۔ یہ مقصد اجمالی طور پر تو یہ ہے کہ اپنے خالق و مالک کی رضا کے تابع رہا جائے اور اُس کے احکام کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔ اس اجمالی نقطۂ نظر سے ہٹ کر دیکھیے اور سوچئے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ معاشرے میں زندہ رہنے کی اچھی صورت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے حصے کا کام کرے، خود کو زیادہ بارآور اور مفید بنائے اور دوسروں کی معاونت کرکے اُن کی زندگی آسان کرے۔ جب ایسا ہوتا ہے تب ہی معاشرے پنپتے ہیں۔ صرف اپنے مفاد کو ہر حال میں اور ہر معاملے پر مقدم رکھنے کی صورت میں ایسی خود غرضی پروان چڑھتی ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ کیا آج ہمارے ہاں یہی نہیں ہو رہا؟ کیا اس معاشرے کو بہت سی قبیح عادتیں دیمک کی طرح نہیں چاٹ رہیں؟ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مہذب معاشروں والے اوصاف کے نہ ہونے سے ایسی خرابیاں پنپ رہی ہیں کہ معاشرے کا وجود ہی خطرے میں دکھائی دے رہا ہے؟ کام تو سبھی کو کرنا پڑتا ہے اور کسی نہ کسی طور کرتے ہی ہیں مگر جب کام سے جان چھڑانے کی ذہنیت پروان چڑھ جائے تب زندگی کا پورا ڈھانچا بگڑتا جاتا ہے، کمزور پڑنے لگتا ہے۔ تب کسی بیرونی قوت کو آگے بڑھ کر نہ تو کوئی سازش کرنا پڑتی ہے اور نہ ہی کسی مشن پر نکلنا پڑتا ہے۔
آج ہر معاملے میں گردن ہلاتے ہوئے جینے کا ہنر نقطۂ عروج پر ہے۔ اپنے اپنے حصے کا کام نہ کرنا سب کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ کام سے رغبت کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام بالعموم جو کچھ بھی سیکھتے ہیں‘ خواص سے سیکھتے ہیں۔ خواص میں دیانت، جاں فِشانی اور اخلاص پایا جائے تو عوام بھی اِن اوصاف کی طرف بڑھتے ہیں، اِنہیں اپناتے ہیں، زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے جنہیں پورے معاشرے کے لیے مثال بننا ہے وہی ہڈ حرامی کی مثال بنے ہوئے ہیں؟ بیشتر کا یہ حال ہے کہ دُنیوی اعتبار سے جتنے پڑھے لکھے ہیں‘ دُنیوی معاملات میں اُتنے ہی بے عمل ہیں اور جو خود کو دین دار کہلاتے ہیں‘ ان میں سے اکثر دین کی روح سے عملاً اُتنے ہی دور ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ عمل کو نفسی ساخت کا جُز بنایا جائے، بے عملی کو ایک قبیح عادت سمجھتے ہوئے اُس سے کنارہ کش ہوا جائے۔ گردن ہلاتے ہوئے کام کا تاثر دینے کا ہنر کسی کام کا نہیں۔ ایسا ہر معاملہ زندگی کو ناکامی اور تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔