خوف اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی حوالے سے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیں کوئی بھی چیز، کوئی بھی بات خوفزدہ نہیں کرتی وہ یا تو جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنا دل بہلا رہے ہوتے ہیں۔ خوف ایک حقیقت ہے اور کوئی بھی حقیقت محض تسلیم نہ کیے جانے سے ختم نہیں ہو جاتی۔ کسی بھی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کا نقصان انکار کرنے والوں ہی کو پہنچتا ہے۔ ہم زندگی بھر حقیقت سے انکار کا نقصان اٹھانے والوں کو دیکھتے ہیں مگر کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ خوف انسان کو بہت سے کام کرنے سے روکتا ہے۔ ناکامی کا خوف انسان کو محنت سے دور کرتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے اور نام کمانے کے لیے محنت لازم ہے مگر ناکامی کا خوف محنت کی طرف مائل ہونے سے روکتا ہے اور یوں انسان امکانات سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کر پاتا۔ ہر انسان کو بہت سے معاملات میں باصلاحیت بنایا گیا ہے۔ قدرت نے صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ سکت بھی عطا فرمائی ہے۔ انسان کی تخلیق چونکہ بامقصد ہے اس لیے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ قدرت نے کسی کو صلاحیت و سکت سے نوازا نہ ہوگا۔ ہر انسان کے ذمے جو کام لگایا گیا ہے اُس کے حوالے سے صلاحیت بھی ودیعت کی گئی ہے اور سکت بھی۔ یہ اہتمام فطرت کے نظام کے عین مطابق ہے۔
کیا خوفزدہ ہونے سے کوئی مشکل دور ہوسکتی ہے‘ کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند ایک معاملات میں خوفزدہ ہوکر اچھا خاصا سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خوف بالعموم عمل سے روکتا ہے۔ جب کچھ کیا ہی نہیں جائے گا تو ناکامی کا خوف بھی لاحق نہ ہوگا۔ ناکامی کا خوف انسان کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر اُکساتا ہے۔ گوشہ نشینی سے زیادہ آرام کس معاملے میں ہوسکتا ہے؟ ہر انسان کو اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے جو اُس کے وجود کو بامقصد اور بامعنی ثابت کرے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب وہ عمل نواز رویے کا حامل ہو۔ عمل پسندی انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے مگر یہ وصف خود بخود پیدا نہیں ہو جاتا بلکہ خاصی محنت سے پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ عمل سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ مختلف طریقوں اور ذرائع سے اُنہیں عمل کا قائل کرنا پڑتا ہے۔ یہ خاصا جاں گسل مرحلہ ہے کیونکہ عمل سے دوری اختیار کرنے والوں کے دل و دماغ سے ناکامی کا خوف نکالنا پڑتا ہے۔ خوف انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ دوسرے بہت سے معاملات سے کہیں بڑھ کر یہ ناکامی سے ڈراتا رہتا ہے۔ ناکامی کے بارے میں سوچ سوچ کر انسان کا ذہن اتنا تھک جاتا ہے کہ وہ عمل کے بارے میں سوچنا ہی ترک کردیتا ہے۔ ناکامی کا خوف معاشرے میں ایسا نمایاں ہے کہ لوگ اس ایک خوف کے ہاتھوں بہت سے معاملات میں بصالت سے کام لینے کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایک بڑا عجیب معاملہ بلکہ المیہ یہ ہے کہ معاشرے میں خوف نہ کھاتے ہوئے جینے کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں مگر لوگ اُن مثالوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے محض خوفزدہ رہنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں پایا جانے والا خوف بجائے خود کوئی بری حقیقت نہیں۔ خوف کا پایا جانا فطری امر ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ خوف کے وجود سے انکار درست ہے نہ اُس سے بے نیازی برتنے ہی میں کچھ فائدہ ہے۔ کسی بھی حقیقت کا انکار بالآخر نقصان پہنچاتا ہے۔ یہی معاملہ خوف کا بھی ہے۔ خوف کا انکار کسی بھی درجے میں درست نہیں۔
جنگ کے میدان میں دشمن کے وجود سے انکار تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک طرف تو دشمن کا وجود تسلیم کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف اُس سے کماحقہٗ نمٹنے پر متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ دشمن کے معاملے میں بے نیازی نہیں برتی جاسکتی۔ بے نیاز ہو رہنے سے دشمن غائب ہوتا ہے نہ غیر مؤثر۔ ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ دشمن کا وجود ہمیں عمل کی راہ پر گامزن ہونے کی تحریک دیتا ہے۔ کچھ کر دکھانے کا مزہ تبھی ہے جب کوئی مدِمقابل ہو۔ بے حریفانہ زندگی میں کشش ہوتی ہے نہ لطف۔ خوف کا بھی یہی معاملہ ہے۔ خوف کے وجود سے بے نیازی نہیں برتی جاسکتی۔ خوف کی شدت سے آنکھیں بند کرلینا مسائل کو حل نہیں کردیتا۔ کبوتر اپنے سامنے بلی کو پاکر آنکھیں بند کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ محفوظ ہوگیا۔ شتر مرغ کسی بڑے خطرے کو دیکھ کر ریت میں سر چھپالیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ بیشتر انسانوں کا معاملہ بھی کبوتر اور شتر مرغ والا ہے۔ وہ آنکھیں بند کرکے اور ریت میں منہ چھپا کر یہ سمجھتے ہیں کہ خوف رخصت ہوگیا ہے۔ ایسا ہوا ہے‘ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ کسی بھی طرح کا اور کسی بھی درجے کا خوف کبھی ختم ہوتا ہے نہ اپنے اثرات مرتب کرنے سے پیچھے رہتا ہے۔ چراغ روشن کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اندھیرا ختم ہوگیا۔ یہ سوچ خوش فہمی ہے۔ اندھیرا کہیں نہیں جاتا۔ وہ تو وہیں رہتا ہے جہاں چراغ روشن کیا گیا ہے۔ چراغ جیسے ہی دم توڑتا ہے اندھیرا ''نمودار‘‘ ہو جاتا ہے! یہی معاملہ خوف کا ہے۔ ہم خوف کے وجود کو تسلیم کرکے اُس سے نبرد آزما ہوتے ہیں، اُسے شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ہم کامیاب بھی ہو جاتے ہیں مگر یہ کامیابی تب تک ہے جب تک ہم میں دَم ہے اور ہم ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ہمارے ارادے دم توڑتے ہیں یا ہماری سکت جواب دینے لگتی ہے، خوف پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
کامیابی کا ''فنڈا‘‘ یہ ہے کہ خوف کو محض تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اپنایا بھی جائے۔ خوف کو اپنانے کا مطلب یہ ہے کہ اُسے مثبت طرزِ فکر و عمل کے ساتھ قبول کیا جائے تاکہ اُس کے بطن سے پیدا ہونے والی الجھنوں پر تیزی سے قابو پایا جاسکے۔ خوف کے شدید منفی اثرات سے بچنے کی ایک معقول و مؤثر صورت یہ ہے کہ اِسے قبول کیا جائے، حرزِ جاں بنایا جائے اور اِس کے وجود سے طاقت کشید کی جائے۔ یہ خوف ہی تو ہے جو انسان کو بہتر انداز سے جینے کی طرف لے جاتا ہے۔ بہت سے معاملات میں خوف ہی انسان کو کچھ نیا اور زیادہ کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہی اقوام کچھ کر پائیں جنہوں نے خوف کو بالائے طاق رکھا۔ خوف دامن گیر ہو تو سوچنا چاہیے کہ اُس سے بچنے کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی خوف اس لیے نہیں ہوتا کہ اُس سے گھبراکر فکر و عمل کی راہ ترک کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کی جائے۔ یہ تو سراسر بزدلی اور بے عقلی ہے۔ اگر خوف کے آگے جھک جانے سے مسائل حل ہوا کرتے تو پھر رونا کس بات کا تھا۔ افراد اور معاشرے اُسی وقت کچھ کر پائے جب انہوں نے خوف سے نجات پائی۔
نفسی امور کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں خوف سے نظریں چرانے کے بجائے اُس سے نظر ملانے ہی میں دانش مندی ہے۔ کوئی بھی خوف اس قابل کبھی نہیں ہوسکتا کہ آپ کے پورے وجود کو چٹ کر جائے۔ بعض معاملات میں کوئی معمولی سا خوف بھی ذہن پر حواس پر سوار ہو جائے تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرنے لگتا ہے۔ جب خوف کے آگے ہتھیار ڈالنے کا مزاج پنپ جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان کو کچھ نہیں سوجھتا۔ خوف سے بطریقِ احسن نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُسے حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے اور حقیقت پسندانہ طرزِ فکر و عمل اپناکر اُس کا حل تلاش کیا جائے۔ خوف کا بہترین حل یہ نہیں کہ اُس سے نظر یں چرائی جائیں بلکہ اُسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لانے میں دانش مندی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خوف کے غیر ضروری یا اضافی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ڈھنگ سے زندہ رہنا ہے تو خوف کو پورے تعقل کے ساتھ قبول کیجیے، کھلی بانہوں کے ساتھ اپنائیے اور اُس کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے آپ کو بہتر عملی آپشنز کے لیے تیار کیجیے۔