وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بہت سے معاملات کو ہم زندگی کی دشواریوں کا سبب گردانتے ہیں جبکہ وہ نتیجہ ہیں! بہت سے عوامل ہماری زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ عمل دن رات جاری ہے۔ ہم بہت کچھ دیکھ اور جھیل رہے ہیں مگر سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ سمجھنا چاہتے بھی نہیں۔سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائیاں اور کشمکش اس مقام تک پہنچ چکی ہیں جہاں سے ملک و قوم کے حقیقی زوال کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔ جب پورا کا پورا معاشرہ ہی داؤ پر لگتا دکھائی دے رہا ہو تب کیا عوام اور کیا خواص‘ سبھی الجھن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کوئی بھی الجھنوں سے استثنا نہیں پا سکتا۔ ہاں‘ کسی کے حصے میں زیادہ تکلیف آتی ہے۔ کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے نشانے پر رکھا گیا ہے۔ نشانے پر رکھے جانے کا احساس تو اب عام ہو چکا ہے۔ یہ احساس اس لیے ہے کہ پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی بھی طبقے کے لیے مشکلات جب بڑھتی رہیں تو یہ احساس بھی شدت اختیار کرتا جاتا ہے کہ اسے نشانے پر لیا گیا ہے اور کہیں کوئی رعایت نہیں دی جارہی۔
ہمارا معاشرہ اس وقت جن الجھنوں سے دوچار ہے وہ بدحواس کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سسٹم موجود ہے مگر ناکارہ ہوچکا ہے۔ بہت کچھ اب بھی برقرار دکھائی دے رہا ہے مگر کارکردگی انتہائی مایوسی کن ہے۔ معاشرے میں بہت سی ایسی قباحتیں قدم قدم پر موجود ہیں جو کسی بھی معاشرے کو حقیقی اور مکمل زوال سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہوا کرتی ہیں۔ اہلِ سیاست ہوں یا اہلِ معیشت، اہلِ علم و فن ہوں یا اہلِ ثقافت‘ سبھی ظالم ہیں اور مظلوم بھی۔ جس کا بس چلتا ہے وہ صورتحال کا فائدہ اٹھانے لگتا ہے۔ کبھی کسی کا بس چلتا ہے اور کبھی کسی کا۔ یہ کیفیت معاشرے کو کھارہی ہے۔ کرپشن اتنی زیادہ ہے کہ سوچنے بیٹھیے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاملات کچھ کے کچھ ہوتے جاتے ہیں اور ہم دیکھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے۔ کسی بھی معاملے میں پانی ہماری آنکھوں کے سامنے سر سے اوپر ہونے لگتا ہے۔ اب معاملات خرابی کے اس درجے میں ہیں جہاں کوئی بھی بات پوری طرح کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ لوگ بہت سے معاملات کو سمجھنا چاہتے بھی نہیں۔ اس کا سبب بے دِلی یا بے حسی نہیں بلکہ خوف ہے۔ تلخ حقیقتوں کی طرف دیکھنے سے گریز کیا جارہا ہے۔
کم و بیش ڈھائی عشروں کے دوران ہمارے ہاں سیاسی اور معاشی سطح پر عدم استحکام رہا ہے۔ مرحوم پرویز مشرف کا دور تھوڑا سا الگ نوعیت کا تھا۔ جس میں چند ایک اچھائیاں دکھائی دیں‘ تب جینا زیادہ دشوار نہ تھا۔ اس کے سوا تمام ہی ادوار کسی نہ کسی حوالے سے ابتری ہی کے حامل رہے۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی لوگ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور ہم کس سمت جائیں گے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دو‘ دو ادوار ایسے گزرے جن میں عام آدمی کے لیے اکھاڑ پچھاڑ بہت زیادہ تھی۔ اکھاڑ پچھاڑ تو خیر پرویز مشرف کے دور میں بھی بہت ہوئی مگر تب نائن الیون کے بعد کی صورتحال میں امریکہ ہمارے پڑوس میں آ بیٹھا تھا‘ اس لیے مسائل کی نوعیت بدل گئی تھی۔ پھر بھی معیشت کا حال بہت برا نہ تھا۔ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینے کی اچھی خاصی گنجائش تھی۔ یہ گنجائش بتدریج ختم ہوتی گئی۔ کم و بیش ایک عشرے سے ملک میں شدید کشمکش کی سی کیفیت رہی ہے۔ اہلِ سیاست کسی صورت آرام سے بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی اب مافیا کا انداز صاف جھلک رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اب جماعتوں سے زیادہ ہم خیال لوگوں کے گروہوں کی شکل میں زیادہ کام کر رہی ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ جیسے بھی بن پڑے، زیادہ سے زیادہ فوائد بٹور لیے جائیں۔ سیاست اب صرف فوائد بٹورنے کا معاملہ رہ گیا ہے۔ جن میں زیادہ طاقت ہے وہ سب اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کے لیے ایک ہو چکے ہیں۔
نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں بہت کچھ ایسا تھا جو کسی نہ کسی طور گوارا کیا جا سکتا تھا۔ خرابیاں ضرور تھیں مگر ایسی نہ تھیں کہ انسان تنگ آ جائے یا بالکل مایوس ہوکر بیٹھ جائے۔ تب تحریک انصاف نے حکومت کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ کیا ہم اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے اس وقت حکومت کو ڈھنگ سے کام نہیں کرنے دیا؟ اسلام آباد پر چڑھائی بھی کی جاتی رہی اور معاملات کو خرابی تک پہنچانے کی کوششیں بھی کم نہ تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ اسلام آباد کی سیاسی صورتحال کے باعث چینی صدر کے دورے کو منسوخ کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے کا معاملہ ہے اور اتنا تازہ ہے کہ ہمارے حافظوں میں محفوظ ہے۔ یہاں اس بحث کی گنجائش کم ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا تھا۔ ہمیں تو حاصل پر غور کرنا چاہیے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ملک شدید عدمِ استحکام سے دوچار ہوا۔ پھر جب عمران خان آئے تو ان کی راہوں میں روڑے اٹکانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کی بدنصیبی کہ کورونا کی وبا بھی اس کے دور میں آئی اور معیشت و معاشرت کو تلپٹ کرگئی۔ پھر وہ ڈھنگ سے سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ یہ کام ایسا مشکل نہ تھا کہ حیران ہوا جاتا مگر حیرت کی بات ہے کہ خان صاحب حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ ان کی حکومت چند نشستوں کی برتری سے قائم ہوئی تھی اور انہی پر ٹکی ہوئی تھی۔ جب وہ نشستیں نہ رہیں تو حکومت بھی نہ رہی۔ اس پر اتنا واویلا مچانے کی گنجائش تھی ہی کہاں؟کم و بیش ایک سال کے دوران ہمارے ہاں انتہائی نوعیت کا سیاسی عدم استحکام رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت بھی ڈانواں ڈول رہی ہے۔ خان صاحب نے کسی بھی مقام پر سکون کا سانس نہیں لیا اور حقیقت کو تسلیم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حکومت اگر ان کے سے ہاتھ سے گئی تھی تو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کرنے کی گنجائش موجود تھی مگر یہ کردار انہیں زیادہ بھا نہیں رہا تھا، یہ کیفیت اب تک برقرار ہے۔
روز افزوں سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس کے نتیجے میں عوام کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ صبح سے چلیں تو شام تک کیسے پہنچیں۔ غریب طبقہ تو بالکل پس کر رہ گیا ہے۔ ہاتھ بھی خالی‘ جیب بھی خالی۔ اور اس سے بڑھ کر ذہن بھی خالی۔ کوئی امنگ بچی ہے نہ امید۔ صرف قنوطیت رہ گئی ہے جو سر تا پا اوڑھی جارہی ہے۔ ایک سال کے دوران عام آدمی کا جینا دُوبھر ہوگیا ہے۔ بہت کچھ ہے جو وہ محض جھیل رہا ہے مگر سمجھ میں بالکل نہیں آرہا۔ یہ کیفیت زندگی کے ڈھانچے کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہیں بھی نہیں‘ کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی سازشیں بھی ہیں جنہوں نے ہمارا ناطقہ بند کیا ہوا ہے مگر جو کچھ ہم خود کر سکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پا رہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کرنے میں تساہل بھی برت رہے ہیں اور تاخیر کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں؟
زندگی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اب پند و نصائح سے کام نہیں چلنے والا۔ سختی کا رویہ بھی کارگر ثابت نہ ہوگا کیونکہ خرابیاں کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ اب تو ہر طرف خرابیاں ہی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میں سفاک رویہ ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے میں قومی سطح پر مصالحت سے کام لینے ہی کی گنجائش بچی ہے۔ گنجائش مصالحت کی ہے نہ کہ مصلحت کی۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر طے کرنا چاہیے کہ اب یہاں سے کہاں جانا ہے، کس طرف بڑھنا ہے اور یہ کہ بڑھنا بھی ہے یا نہیں۔ جنوبی افریقہ کی طرز پر مصالحتی کمیشن بنایا جا سکتا ہے جو بنیادی سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھاکر ملک و قوم کی بقا پر قائل کرے۔