"MIK" (space) message & send to 7575

تیاری نہیں تو کامیابی نہیں

ایک زمانہ تھا جو دیویکا رانی کا تھا۔ دیویکا رانی معروف فلم ساز ادارے ''بامبے ٹاکیز‘‘ کی روحِ رواں تھیں۔ ان کا نام فلم انڈسٹری میں احترام سے لیا جاتا تھا۔ ابتدا میں انہوں نے اداکاری کی۔ پھر معروف پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر ہمانشو رائے سے شادی کی۔ دیویکا رانی جس پر مہربان ہوتی تھیں‘ اس کا کریئر بن جاتا تھا۔ دیویکا رانی ہی تھیں جنہوں نے یوسف خان کو دلیپ کمار بنایا۔ یوسف خان جب طالب علم تھے اور تھوڑا بہت ذاتی کاروبار بھی کر رہے تھے‘ تب ان کے ایک شناسا ادیب نے انہیں دیویکا رانی سے ملنے کا مشورہ دیا۔ یوسف خان نے مشورہ مانا اور ملاقات کی۔ دیویکا رانی نے پہلی ہی نظر میں یوسف خان کے اندر چھپے ہوئے فنکار کو پہچان لیا۔ یوسف خان میں اعتماد بھی غضب کا تھا۔ طبیعت تھوڑی شرمیلی تھی مگر وہ اپنی بات کہنے میں زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ دیویکا رانی نے یوسف خان کا سکرین ٹیسٹ لیا۔ ان کا چہرہ قابلِ رشک حد تک فوٹو جینک تھا۔ جب سکرین ٹیسٹ کے رشز دیکھے گئے تب اندازہ ہوا کہ سکرین پر ان کا وجود بہت موثر اور متاثر کن دکھائی دے رہا تھا۔ دیویکا رانی نے انہیں اپنے ادارے کے بینر تلے بننے والی فلم ''جوار بھاٹا‘‘ کے لیے سائن کر لیا۔ یہ 1943ء کی بات ہے۔
یوسف خان سے کہا گیا کہ وہ روزانہ سٹوڈیو آئیں گے‘ شوٹنگ دیکھیں گے اور جو کچھ دیکھیں گے اسے نوٹ کرکے اس پر غور کریں گے۔ اب یوسف خان کا معمول ہوگیا کہ گھر سے آئیں‘ سٹوڈیو میں شوٹنگ دیکھیں‘ اداکاری و صدا کاری کی باریکیوں پر غور کریں‘ سیٹ اور لائٹنگ وغیرہ سے مانوس ہو جائیں۔ کم و بیش تین ماہ تک یہ معمول جاری رہا۔ اس دوران یوسف خان نے اپنے آپ کو فلمی ماحول کے لیے پوری طرح تیار کیا۔ جب وہ پوری تیاری کے ساتھ کیمرے کے سامنے آئے تو سبھی نے محسوس کیا کہ یہ پورا ماحول ان کے لیے اجنبی نہیں۔ دیویکا رانی جہاں دیدہ تھیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ تیاری کے بغیر کسی بھی نوجوان کو میدان میں لانا کسی بھی اعتبار سے لائقِ تحسین اور معقول امر نہیں۔ معقول بات یہی ہے کہ کسی بھی نوجوان کو کسی بھی شعبے میں کریئر شروع کرواتے وقت پہلے اچھی طرح تیار کیا جائے۔
یوسف خان جب پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آئے تو لوگوں نے ان میں بھرپور اعتماد دیکھا۔ ابتدائی چار پانچ فلمیں زیادہ موثر ثابت نہ ہوئیں مگر پھر بھی فلم میکرز کو یوسف خان میں ایک بڑا اداکار دکھائی دے گیا۔ انہیں فلمیں ملتی رہیں اور وہ بھرپور محنت کے ذریعے اپنے آپ کو منواتے رہے۔ ''جُگنو‘‘ کی کامیابی کے بعد یوسف خان کو مڑ کر نہیں دیکھنا پڑا۔ یوسف خان نے دلیپ کمار بننے تک کا سفر بہت محنت سے کیا۔ دیویکا رانی کی مہربانی کہ بھرپور تیاری کی عادت دلیپ صاحب بننے کے بعد بھی یوسف خان میں رہی‘ بلکہ عمر بھر رہی۔ انہوں نے اپنے کام کو کبھی ہلکا نہیں لیا۔ وہ جب بھی کوئی فلم سائن کرتے تھے تو اس میں ڈوب جاتے تھے‘ اسے اپنی پہلی فلم سمجھ کر شوٹنگ میں حصہ لیتے تھے۔ انہیں اپنے کام سے محض پیار نہ تھا‘ عشق تھا۔ یہ کام سے عشق ہی تو تھا جس نے انہیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ آٹھ بار دلوایا۔ ایک دنیا ان کی معترف اور دلدادہ ہے۔ وہ کل بھی کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے اور آج بھی کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں۔ یوسف خان کی پوری زندگی اس بات کا واضح مظہر ہے کہ جو لوگ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آتے ہیں وہ بازی جیت ہی لیتے ہیں اور اگر ایسا نہ بھی کر پائیں تو اپنی کارکردگی کی بدولت لوگوں کو یاد ضرور رہ جاتے ہیں۔
آسٹریلیا نے ایک زمانے سے کرکٹ میں یہ چلن اختیار کر رکھا ہے کہ کسی کو عنفوانِ شباب میں سامنے نہیں لایا جاتا‘ میدان میں نہیں اتارا جاتا۔ سترہ اٹھارہ سالہ نوجوان میں جوش و جذبہ تو بہت ہوتا ہے‘ تجربہ برائے نام بھی نہیں ہوتا۔ تجربہ نہ ہونے سے بالعموم اعتماد بھی نہیں پایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے بیشتر کرکٹرز یا تو ابتدائی مرحلے میں میدان چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تین چار برس لڑھکنے کے بعد کرکٹ کے میدان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اچھا خاصا ٹیلنٹ اسی بنیادی غلطی کے ہاتھوں ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کرکٹر کو اچھی خاصی ڈومیسٹک اور فرسٹ کلاس کرکٹ کھلاکر انٹر نیشنل کرکٹ میں لایا جائے تو کریئر بھرپور اعتماد کے ساتھ شروع ہوگا اور قومی کرکٹ ٹیم کو بہت کچھ ملے گا۔
کسی بھی نوجوان کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اسے میدان میں کس طور اتارا جاتا ہے۔ اگر کسی میں صلاحیت ظاہر ہوتے ہی عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سامنے لایا جائے تو بنتی بات بھی بگڑ سکتی ہے۔ فلمی دنیا میں بھی اس بات کی خاصی اہمیت ہے کہ کسی کو فلمی دنیا میں کب لانچ کیا جانا چاہیے۔ بڑے سٹارز اپنے بچوں کو خاصی تیاری اور ان میں بھرپور اعتماد پیدا کر چکنے کے بعد کیمرے کے سامنے لاتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کو خام مال کی حیثیت سے سامنے لایا جائے تو ان کے ضائع ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
ہمارے ہاں نئی نسل کو آنے والے زمانے کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کی روایت زیادہ مضبوط کبھی نہیں رہی۔ کچھ ہی لوگ اپنی اولاد پر پوری توجہ دیتے ہیں‘ انہیں بہت کچھ سمجھاتے اور سکھاتے ہیں‘ عملی زندگی کے لیے کماحقہُ تیار کرتے ہیں۔ حکومت بھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتی۔ کاروباری ادارے بھی نئی نسل پر خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ ہے نئی نسل کے حوالے سے مجموعی کیفیت۔ جب بھی آپ نے کسی کامیاب انسان کے بیٹے کو بھی کامیاب انسان کی حیثیت سے دیکھا ہوگا تو یہ تبصرہ ضرور سنا ہوگا کہ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے۔ مثلاً کسی بڑے اداکار کا بیٹا بھی اداکار کی حیثیت سے نام کمائے یا کسی بزنس مین کا بیٹا بھی کامیاب بزنس مین ثابت ہو تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طور مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا‘ وہ خود ہی تیرنے لگتا ہے بالکل اسی طرح بزنس مین کے بیٹے کو بزنس سکھانے کی ضرورت نہیں اور اداکار کا بیٹا بھی ایسا پیدائشی اداکار ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ مچھلی اور انسان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مچھلی کے بچے کا تیرنا اور بندر کے بچے کا قلا بازیاں کھانا قابلیت یا مہارت نہیں بلکہ محض جبلّت ہے یعنی اللہ نے یہ خصوصیت اس کے ڈی این اے میں رکھی ہے۔ بزنس مین کا بچہ بزنس مین خود بخود نہیں بن جاتا۔ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر کاروباری کامیابی موروثی طور پر منتقل ہوا کرتی تو پھر بعض کاروباری شخصیات کی اولاد کاروبار میں یکسر ناکام ثابت نہ ہوتی۔ بالکل ایسا ہی معاملہ فنونِ لطیفہ کا بھی ہے۔ اداکار کا بیٹا اداکار بنے یہ لازم نہیں۔ یہ تو خالص دلچسپی اور محنت کا معاملہ ہے۔ علامہ نے خوب کہا ہے ؎
مٹادے اپنے ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے کامیاب گلوکاروں کے بچے اپنے باپ کا گایا ہوا ایک مکھڑا بھی ڈھنگ سے گنگنا نہیں سکتے۔ اسی طور بہت سے مصنفین کی اولاد ڈھنگ سے ایک پیرا گراف بھی نہیں لکھ سکتی۔ یہی معاملہ دوسرے بہت سے‘ بلکہ تمام شعبوں کا ہے۔ نئی نسل اپنے بھرپور جوش میں بہت کچھ بھول جاتی ہے۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس کے پاس تجربہ نہیں۔ تجربہ کلاس روم میں سکھایا نہیں جا سکتا۔ یہ تو عملی زندگی شروع کرنے کے بعد حاصل ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان کسی شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانا چاہتا ہے تو ناگزیر ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے۔ ادھوری تیاری اور ادھورے من کے ساتھ میدان میں اترنے والوں کے لیے زیادہ اور دیرپا کامیابی نہیں ہوتی۔ ہر عہد کی نئی نسل جلد باز ہی ہوتی ہے۔ آج کی نئی نسل بھی بہت کچھ بہت تیزی سے پانا چاہتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بہت کچھ پہلے مرحلے میں مل بھی جائے تو ہضم نہیں ہو پاتا۔ پوری تیاری والے ہی کامیاب کہے جا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں