"MIK" (space) message & send to 7575

خود داری کا اسیر رہیں تو اچھا

جینے کا مزہ کب ہے؟ بہت سے معاملات کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ جیب بھری ہو تو جینے کا مزہ کچھ اور ہے۔ اور اگر تجوری بھی بھری ہو تو کیا ہی کہنے! انسان علم و فن میں مہارت حاصل کرے تو زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتا ہے۔ صحت اچھی ہو تو زندگی کی رونق قابلِ دید ہوتی ہے۔ شہرت اور مقبولیت نصیب ہو تو زندگی کا نرالا ہی انداز ہوتا ہے۔ جینے کا حقیقی لطف کب ہے اِس حوالے سے جتنے منہ ہیں اُتنی آرا ہیں۔ بہر کیف‘ پوری دیانت اور سنجیدگی سے جائزہ لیجیے تو جینے کا حقیقی لطف صرف اُس وقت ہے جب انسان مکمل خود داری کا حامل ہو۔ خود داری یعنی اپنے بل پر زندگی بسر کرنے کی بھرپور خواہش و کوشش۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگوں کو بہت آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے جو اپنے بل پر جینے کو زندگی کا اپنا انتہائی بنیادی عقیدہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی پر بوجھ بننے سے یکسر گریز کرتے ہیں۔ اِن کی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہو اپنے وسائل اور اپنی محنت سے ہو۔ یہ ذہنیت اُنہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ کسی بھی ماحول میں اُنہیں آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ خود داری اپنا تعارف خود کراتی اور خوب کراتی ہے۔ خود داری ایسا وصف ہے جس میں ایک دنیا سمائی ہوئی ہے۔ خود داری کے حقیقی مفہوم کا تعین بھی غور طلب ہے۔ اس وصف میں معانی کی ایک دنیا آباد ہے۔ خود داری یعنی عزتِ نفس۔ عزتِ نفس یعنی اپنی نظر میں اپنا مقام! جو غیرت مند ہوتے ہیں وہ اپنی نظر میں بلند رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اصل بلندی یہی تو ہے کہ انسان اپنی نظر میں نہ گرے۔
زمانہ ایسا بدلا ہے کہ اب خود داری اور عزتِ نفس کی طرف دیکھنے والوں کی تعداد خطرناک رفتار سے گھٹتی جارہی ہے۔ پورا ماحول ایک نئے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ یہ نیا ماحول انسان سے بہت کچھ چھین رہا ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے مفادات کے حوالے سے زیادہ حسّاس رہا ہے۔ یہ کوئی ایسی بری بات نہیں مگر اپنے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کے مفادات کو ضرب لگائی جائے۔ فی زمانہ انسان منفی معاملات کی طرف اتنی تیزی سے لپک رہا ہے کہ تسلیم شدہ اخلاقی اقدار کی پاس داری جان کا جوکھم بن کر رہ گئی ہے۔
خود داری انسان کو بہت سے معاملات میں غیر معمولی مقام عطا کرتی ہے مگر یہ بات اُسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب بچپن سے سبق سکھایا گیا ہو، تربیت کی گئی ہو۔ اگر معیاری اور تاب ناک مستقبل مقصود ہے تو بچوں کو بتانا ہوگا کہ اُنہیں ہر حال میں اپنے بل پر جینے کو ترجیح دینا ہوگی۔ اپنے بل پر جینے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ کسی سے مدد لینے سے بہت پہلے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر دیکھنی ہے تاکہ جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ تو کر ہی لیا جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ خالقِ کائنات نے اُسے اُس کی اپنی ضرورت کے مطابق تمام صلاحیتوں سے نوازا ہو؟ یہ محسوس کرنے کا معاملہ ہے۔ جب انسان اپنے بل پر زندگی بسر کرنے کا ذہن بناتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کس حد تک حسین ہوسکتی ہے۔
چار‘ پانچ عشروں پہلے کے معاشرے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ اولاد کو پوری توجہ کے ساتھ سکھاتے تھے کہ جیسے بھی بن پڑے، اپنے بل پر جینے کو ترجیح دینا اور دوسروں کی مالی حیثیت کو دیکھ کر اپنا دل چھوٹا نہ کرنا۔ یہ درست ہے کہ تب زندگی کی ایسی ہماہمی نہ تھی۔ ٹیکنالوجی کی ایسی بہتات نہیں تھی اور اسے بروئے کار لاکر بنائے جانے والے بہت سے آئٹمز بھی نہیں تھے۔ پھر بھی وہ دور انسانوں ہی کا تھا۔ انسان تو جیسا تھا‘ ویسا ہی رہا ہے۔ جو قباحتیں آج کے انسان میں پائی جاتی ہیں وہی قباحتیں تب کے انسانوں میں بھی تھیں مگر چونکہ اخلاقی تربیت کا معیار بہت بلند تھا اس لیے قباحتوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ برائیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر اُنہیں پروان چڑھنے سے کسی حد تک روکا جاسکتا ہے اور یہی تو اصل کھیل ہے۔ تب والدین اور خاندان کے بزرگ یہ بات یقینی بناتے تھے کہ بچوں میں ایسی کوئی بھی قبیح عادت پروان نہ چڑھے جو مستقبل میں اُن کے لیے 'واجبات‘ کے درجے میں رکھی جائے۔ بچوں کو سکھایا جاتا تھا کہ صرف اپنے مفاد کو نہ دیکھیں‘ دوسروں کا فائدہ بھی سوچیں۔ اس نکتے پر زور دیا جاتا تھا کہ کام مل جل کر کیا جائے تاکہ کسی پر زیادہ بوجھ پڑے۔ بچوں کو یہ بھی سمجھایا جاتا تھا کہ جو کچھ میسر نہیں اُس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے انسان چھوٹا رہ جاتا ہے۔ دوسروں کی خوش حالی کے بارے میں سوچتے رہنے سے انسان اپنی مالی حیثیت کو کمتر محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ جو کچھ بھی میسر ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہنسی خوشی جینا چاہیے تاکہ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ کرنے کی لگن برقرار رہے۔
آج ایسی تربیت کا شدید فقدان ہے۔ اب مصیبت یہ ہے کہ باپ دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور اکثر ماؤں کو لایعنی باتوں اور فضول سرگرمیوں سے فرصت نہیں۔ آج کی بیشتر خواتین سوشل میڈیا کے سمندر میں غرق ہیں۔ اِس سے پہلے ٹی وی چینلز کی غلامی میں جینا قبول کیا جارہا تھا۔ یہ تماشا کم و بیش تین عشروں سے جاری ہے۔ اس دوران دو نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ آج بچے بہت چھوٹی عمر میں ایسا بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے ان کی عمر سے مطابقت بھی نہیں رکھتا اور کسی درجے میں ان کے کام کا بھی نہیں۔
سکول کی سطح پر بچوں کو اپنے بل پر اور عزتِ نفس کے ساتھ جینا سکھانے پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ بیشتر اساتذہ بھی خصوصی طور پر تربیت یافتہ نہیں۔ وہ بچوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ دوسروں کی طرف دیکھتے رہنے کا نام زندگی نہیں۔ زندگی تو اپنے وجود میں ڈوب کر گوہرِ مقصود تلاش کرنے کا نام ہے۔ اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو نصابی کتب پڑھانے اور امتحان لینے سے ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے! یہ تو اُن کے فرائض کا محض ایک حصہ ہے۔ اساتذہ کو بچوں میں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا حقیقی شعور اور اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے عزتِ نفس اور خود داری کی بہت اہمیت ہے۔ خود داری سکھانے کے لیے بچوں کو مشقیں کرائی جاسکتی ہیں۔ اُنہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں دوسروں کی طرف نہ دیکھیں، کسی سے بے جا طور پر کوئی امید وابستہ نہ کریں اور اپنے حصے کا کام خود کرنے کی عادت کو پروان چڑھائیں۔
آج ہمارے ہاں مجموعی کیفیت یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں لوگ دوسروں کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں۔ اپنا کام پوری دیانت، جاں فشانی اور سنجیدگی سے انجام تک پہنچانے کے بجائے سارا زور اِس نکتے پر دیا جاتا ہے کہ جس سے جو مل سکتا ہے‘ وہ لے لیا جائے بلکہ جھپٹ لیا جائے۔ کہتے ہیں عوام وہی سیکھتے ہیں جو اُن کے حکمران کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کم و بیش ہر حکومت قرضے لینے کی روادار رہی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار مرض کی حد تک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عام شہری بھی قرضے لینے یا کسی سے کچھ مانگ کر معاملات کو درست کرنے میں کچھ خاص قباحت محسوس نہیں کرتا۔ عام آدمی کی سوچ یہ ہے کہ جب حکومت قرضے لے کر اور آسرے پر جی سکتی ہے تو وہ ایسا کیوں نہیں کرسکتا، اِس میں کیا قباحت ہے؟ دوسروں کے آسرے پر جینے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو بروئے کار لانے کی ذہنیت پیدا ہی نہیں کر پاتا یا ترک کر دیتا ہے۔ اپنے سے زیادہ کمانے والوں کی طرف دیکھنا فطری معاملہ ہے مگر یہ ایک خاص حد تک ہی رہنا چاہیے۔ اہلِ علم و فن اور دیگر نمایاں شخصیات کو میڈیا پر آکر عوام کی نفسی تطہیر و تہذیب کرنے کی خاطر یہ بتانا چاہیے کہ زندگی وہ ہے جو اپنے بل پر جی جائے۔ کسی قبیح عادت کی غلامی سے بہتر ہے کہ انسان خود داری کا اسیر رہے۔ خود داری اور عزتِ نفس کے ساتھ جینے کی صورت میں انسان روحانی بالیدگی سے بھی ہم کنار رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں