The buck stops here۔ انگریزی کے اس جملے کا عمومی اور عام طور پر قابلِ قبول مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں گھوم پھر کر ذمہ دار تو آپ ہی ہیں۔ ڈیل کارنیگی کا شمار اُن مصنفین اور مقررین میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے لیے کام کیا۔ وہ اس نظریے کے مبلغ تھے کہ کسی بھی انسان کے لیے اپنی زندگی کا رخ بدلنا ہر حال میں ممکن ہے۔ ہاں‘ اس کے لیے محنت بہت کرنا پڑتی ہے۔ بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ مشق بھی کرنا پڑتی ہے۔ مہارت کا تعلق مشق سے ہے۔ جو جتنی زیادہ مشق کرتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ ماہر ہوتا جاتا ہے۔ انسان روزانہ پڑھے۔ جو کچھ پڑھے اُس کی بنیاد پر سوچے اور جو سوچے اُسے ضبطِ تحریر میں لاتا رہے تو بہت جلد اچھا لکھنا سیکھ جاتا ہے۔ ڈیلی کارنیگی نے کہا تھا کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار آپ ہی ہیں! مایا اینجلو نے خوب کہا کہ جو کچھ بھی آپ بدل سکتے ہیں‘ اُسے بدل ڈالیں، جسے نہ بدل سکیں اُس کے بارے میں اپنی سوچ اور عمل‘ دونوں کو تبدیل کریں۔
بہت کچھ ہے جو انسان بدل سکتا ہے۔ انسان گھر میں بہت سی اشیا بدل سکتا ہے۔ ایسا کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں مگر گھر کو بدلنا؟ ناممکن نہ سہی‘ دشوار ضرور ہے۔ اگر کسی ماحول میں جی نہ لگ رہا ہو، لوگوں کا رویہ تنگ کر رہا ہو تو انسان بیزار ہو جاتا ہے۔ سب کو بدلنے کی کوشش کو آپ کیا کہیں گے؟ کبھی کبھی انسان مجبور ہوکر یہ خواہش کرنے لگتا ہے کہ سب بدل جائیں۔ مگر سب کو بدلنے کی کوشش؟ اِسے صرف حماقت کے درجے میں رکھا جائے گا۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھیں گے جو ہر ایک کو بدلنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسا کسی حال میں ممکن نہیں۔ ہاں‘ اپنے آپ کو ضرور بدلا جاسکتا ہے۔ یہ قدرے آسان ہے مگر لوگ اس طرف نہیں آتے۔ اُن کی عمومی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے تیسے دوسروں کو بدلنے میں توانائی کھپادی جائے۔ اِس سے کہیں کم توانائی کے ذریعے اپنے آپ کو بدلا جاسکتا ہے مگر لوگ اس طرف نہیں آتے۔
کسی بھی ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہمارے مطلب کا ہوتا ہے نہ پسند کا۔ بعض معاملات ہمیں پسند ہوں نہ ہوں، ہمارے کام کے ہوتے ہیں۔ اِسی طور بعض باتیں ہمارے کام کی نہیں ہوتیں مگر ہم اُنہیں پسند کرتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں پسند نہ ہو اُس سے جان چھڑانا ہماری ترجیحات میں ہوتا ہے۔ یہ عمل عجلت کا مظہر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بات یا چیز پسند نہیں تو اُس سے جان چھڑانے کا عمل منطقی ہونا چاہیے تاکہ خواہ مخواہ کوئی نقصان برداشت نہ کرنا پڑے۔ ہر انسان کو یہ بات اول و آخر سمجھنا ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی بدلا جاسکتا ہے بس وہی بدلا جاسکتا ہے۔ جو کچھ بدلا نہیں جاسکتا اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حقیقت سے باخبر ہوتے ہوئے بھی لاحاصل سعی کی جائے تو...؟ ایسے میں نتیجہ صفر ہی برآمد ہوتا ہے اور کبھی کبھی نتیجہ منفی بھی ہوتا ہے یعنی فائدہ ہو نہ ہو‘ نقصان ضرور پہنچ کر رہتا ہے۔
تبدیلی کے معاملے میں انسان کا رویہ بالعموم غیر منطقی اور غیر متعدل ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر ہوتا یہ ہے کہ ہم بہت سے معاملات کو اپنی خواہشات کے آئینے میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم بہت سی تبدیلیاں چاہتے ہیں جبکہ اُن تبدیلیوں کی کوئی منطقی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم بیشتر معاملات میں اس حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں کہ جہاں تبدیلی کی گنجائش نہ ہو وہاں ایسی کسی بھی خواہش کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اِس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم بسا اوقات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی تبدیلی کی گنجائش موجود نہیں مگر پھر بھی ہم تبدیلی یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ ضد والا معاملہ ہے۔ تبدیلی کے معاملے میں رویہ معقول رکھنے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ خواہشات سے ہٹ کر، ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں کیا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہم ماحول میں ایسا بہت کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے مگر یہ خواہش فضول ہے کہ وہ سب کچھ غائب ہو جائے۔ جو کچھ ہمیں پسند نہیں اور جس کا بظاہر کوئی جواز بھی نہ ہو وہ بھی بہت سے مقاصد کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے ۔ اگر وہ سب کچھ راتوں رات ختم کردیا جائے تو اچھا خاصا بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ سب کچھ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو نہیں ہونا چاہیے تب بھی اُس کا نہ ہونا آپ کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ آپ پورے ماحول کے مالک ہیں نہ ذمہ دار۔ آپ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ آپ بس اپنا کام کیجیے۔ اگر آپ نے اپنا کام پوری دیانت سے کیا ہے اور اپنے ضمیر سے مطمئن ہیں تو جلد یا بدیر آپ کو اُس کا نتیجہ اور صلہ مل جائے گا۔ کسی بھی تبدیلی کے لیے آپ کا جذباتی اور مضطرب ہونا فطری امر ہوسکتا ہے مگر لازم نہیں کہ سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق ہوتا چلا جائے۔
معقول ترین رویہ یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے کی منطق کو سمجھے اور ایسا رویہ اختیار کرے جس میں اعتدال ہو۔ معتدل رویہ ہی انسان کو مجموعی طور پر کامیابی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ یہ رویہ راتوں رات پروان نہیں چڑھتا۔ انسان برسوں محنت کرتا ہے، پڑھتا ہے، سیکھتا ہے، مشق کرتا ہے، تجربہ حاصل کرتا ہے، مہارت بڑھاتا ہے، خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے تب کہیں جاکر کچھ اچھا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور ہر معاملے میں معقول و معتدل رویہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یہ دنیا تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ یہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
قدم قدم پر تبدیلیاں ہیں۔ ہم خود روزانہ متعدد تبدیلیوں سے ہم کنار یا دوچار ہوتے ہیں۔ یہ دنیا پل پل بدل رہی ہے اور ہمیں بھی تبدیل کر رہی ہے۔ یومیہ بنیاد پر رونما ہونے والی تبدیلیاں چونکہ معمول کا درجہ رکھتی ہیں اس لیے اچھے خاصے اثرات کی حامل ہونے کے باوجود ہمیں شدت سے محسوس نہیں ہوتیں۔ تبدیلیوں کے اثرات قبول کرنے کے لیے انہیں محسوس کرنا پڑتا ہے۔ بعض معمولی یعنی معمول کا درجہ رکھنے والی تبدیلیاں بھی غیر اہم نہیں ہوتیں۔ ہم اُنہیں عمومی سطح پر درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ غلط ہے! جب تک ہم تبدیلیوں کو سمجھیں گے نہیں تب تک اُن سے اثرات بھی قبول نہیں کریں گے اور اُن اثرات کے حوالے سے خود کو تیار بھی نہیں کریں گے۔
دنیا میں متحرک معاشرے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ متحرک معاشرے وہ ہیں جو خود کو تبدیلیوں کے لیے تیار رکھتے ہیں۔ جو کچھ یومیہ بنیاد پر رونما ہو رہا ہے اُس کے اثرات قبول کرنے کی تیاری بھی متحرک معاشرے کی ایک نمایاں شناخت ہے۔ ایسے معاشرے کسی بھی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کبھی کبھی کوئی معمولی سی تبدیلی بھی غیر معمولی نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ کبھی کوئی چھوٹی سی غلطی بھی شدید نقصان پہنچاسکتی ہے اور کبھی کوئی چھوٹا سا اچھا اور بروقت عمل بھی خاصے وسیع البنیاد خوش گوار نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ عام آدمی کو یہ بات سمجھنا ہوتی ہے کہ کسی بھی تبدیلی کو نظر انداز نہ کرے، اسے کمتر نہ گردانے۔ ہر تبدیلی انسان سے توجہ بھی چاہتی ہے اور عمل بھی۔ اگر ردِعمل بروقت اور معقول نہ ہو تو تبدیلی کے نتائج کچھ اور بھی نکل سکتے ہیں۔
دانش کا تقاضا ہے کہ انسان ہر وقت اپنے فکر و عمل میں تبدیلی کے لیے تیار رہے۔ مگر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں کو تبدیل کرنے سے کہیں زیادہ تیاری اپنے آپ کو بدلنے کے لیے کرنی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جو پورے ماحول کو تبدیل کرسکے۔ ایسے میں دانش مندی یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بدلنے کے لیے محض تیار نہ رہے بلکہ بدل بھی ڈالے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھے کہ سب کو بدلنے کی کوشش سے گریز ہی بہتر ہے۔ سب کو بدلنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ایسی احمقانہ کوشش سے گریز پر توجہ دی جائے۔ کسی کو تبدیل ہونے کی تحریک ایک خاص حد تک ہی دی جاسکتی ہے۔