حالات بہت حوصلہ شکن ہیں۔ قدم قدم پر ایسی الجھنیں ہیں کہ انسان کا دل بیٹھا جاتا ہے۔ اعتماد کا گراف گرتا جارہا ہے۔ یہ کم و بیش ہر عام آدمی کی کیفیت ہے۔ عوام کی واضح اکثریت اس وقت شدید بے دِلی کے نرغے میں ہے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ کیا کریں‘ کس طرف جائیں اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت کیسے جُٹائیں۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے جس کیفیت سے دوچار ہیں وہ ہر جہت سے انتہائی پریشان کن ہے اور صرف مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نمایاں دیانت، غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ کام کرنے والے خال خال ہیں۔ تو کیا ہم مایوس ہوکر بیٹھ جائیں؟ کیا اب کچھ بھی ایسا نہیں کیا جاسکتا جس سے معاملات درست ہوں، حالات بہتر ہوں، بہتر طرزِ زندگی کی گنجائش پیدا ہو؟ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ حالات و واقعات انتہائی مایوس کن ہیں‘ معاشرہ تلپٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کرپشن بھی ہے اور کام سے بے رغبتی بھی۔ جو کرپٹ نہیں ہیں یعنی مالیاتی معاملات میں خورد برد نہیں کر رہے ہیں وہ کام میں ڈنڈی مار کر اپنے لیے سہولت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے وہاں وہ اپنے حصے کی کرپشن کر گزرتا ہے۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ سبھی اپنے تئیں دیانت دار بتاتے ہیں۔
تو کیا ہمت ہار دی جائے؟ مایوسی کو اُس کی مرضی کا کھیل کھیلنے کی پوری آزادی دے دی جائے؟ کیا محض مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنا کوئی اچھا آپشن ہے؟ مایوسی اچھا تو کیا‘ آپشن ہی نہیں ہے۔ کسی بھی صورتِ حال میں مسائل کو حل کرنے کے جو طریقے ہمارے پاس ہوتے ہیں وہ آپشن کہلاتے ہیں۔ مایوسی کسی بھی درجے میں آپشن ہے ہی نہیں۔ کسی بھی قوم یا معاشرے کے لیے صرف ایک ہی آپشن ہے‘ پُرامید رہنا، بلند حوصلے کے ساتھ زندگی کا سامنا کرنا اور بیشتر معاملات میں مثبت سوچ کے ساتھ خود کو عمل پسندی کی راہ پر گامزن رکھنا۔ آج کا ہمارا معاشرہ شدید مایوسی اور بے دِلی کا شکار ہے۔ بے دِلی ایسی ہے کہ جس کی جیب بالکل خالی ہے وہ بھی پریشان ہے اور جس کی تجوری بھری ہوئی ہے وہ بھی پریشان ہے۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے مگر کیا کیجیے کہ یہاں ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ لوگ بہت کچھ پانا چاہتے ہیں مگر جب کچھ مل جاتا ہے تو مزید بہت کچھ کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ زبردستی کی ہوس ہماری فکری ساخت کے سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔ ڈھنگ سے جینا ہے تو ہوس کو کسی نہ کسی مقام پر لگام دینا پڑے گی۔ جب معاشرے شدید بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں تب بے دِلی چھا جایا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہو رہا ہے‘ سو اِسے زیادہ حیرت انگیز نہ سمجھا جائے۔ ہاں‘ اِس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے حوالے سے جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ نہیں کیا جارہا۔ یہ ضرور افسوس ناک ہے۔ لوگ مایوس ہو رہنے کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ کسی بھی پریشان کن بات سے محض پریشان ہوتے رہنے میں سکون محسوس کیا جارہا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا محض پریشان ہونے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایسا تو کہیں بھی نہیں ہوتا تو پھر بھلا ہمارے ہاں کیوں ہونے لگا؟ ہر عہد میں پست ترین سطح پر جینے کا آپشن موجود رہا ہے۔ جو لوگ یہ آپشن اپناتے رہے وہ کچھ زیادہ کیے بغیر بھی جیتے رہے مگر اُن کا جینا کسی کام نہ تھا کیونکہ آج انہیں کوئی نہیں جانتا۔ جینا صرف اُسی کا کارگر ہوتا ہے جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے، معاشرے یا قوم کے لیے بھی جیتا ہے اور کچھ ایسا کر جاتا ہے جو لوگوں کو تادیر یاد رہے۔ خود غرضی سے نجات پانے والے ہی لوگوں کو یاد رہ پاتے ہیں کیونکہ وہی کچھ ایسا کر پاتے ہیں جس میں دوسروں کے لیے بھی کچھ مفید ہوتا ہے۔ آج ہم ایک عجیب ہی طرح کی بند گلی میں کھڑے ہیں۔ ایک طرف ہم خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ہمیں یہ فکر لاحق ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ بات اِتنی سی ہے کہ ؎
اپنے پہ بھروسا ہے نہ اوروں پہ تیقن
اِس دور کا ہر شخص دوراہے پہ کھڑا ہے
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف ہمیں یہ گمان ہے کہ ہم انتہائی باصلاحیت ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں اور دوسری طرف اندیشے بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں اور قنوطیت پسندی کی وبا بھی عام ہوتی جارہی ہے۔ یہ دُوئی نہیں چل سکتی۔ ایک طرف ہونا پڑے گا۔ حقیقت پسندی ہی وہ وصف ہے جو ہمیں ایک طرف کرسکتی ہے۔ ذہن جب دو مختلف النوع فکری دھاروں میں بہہ رہا ہو تو انسان ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتا جو زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے میں معاونت کرے۔ ہمارے ہاں عمومی سطح پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ دنیا بھر کی خرابیوں اور خامیوں نے ہمارے معاشرے کا رخ کر لیا ہے۔ عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ جیسی اور جتنی خرابیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں شاید کہیں بھی نہ ہوں گی۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ دنیا بھر میں ناکام ریاستیں بکھری ہوئی ہیں۔ شدید پسماندگی سے دوچار ممالک کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ کہیں کہیں تو خطے کے خطے شدید پس ماندگی کا شکار ہیں۔ ہمارے اپنے خطے میں کئی ممالک انتہائی پس ماندہ ہیں۔ سری لنکا کے حالات سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ بنگلہ دیش ایک طویل مدت تک شدید پسماندگی کا شکار رہا۔ اب یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ زرِ مبادلہ کے غیر معمولی ذخائر کی بدولت وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور عام آدمی کے لیے انتہائی پُرلطف اور پُرکشش زندگی یقینی بنائی جاچکی ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ بھارت ہی کی مثال لیجیے۔ وہ کئی شعبوں میں غیر معمولی مہارت اور خاصی مستحکم افرادی قوت کے ذریعے قابلِ رشک تناسب سے زرِ مبادلہ کمارہا ہے مگر پھر بھی عام بھارتی باشندے کے حالاتِ زندگی اب تک نہیں بدلے۔ بھارت بھر میں شدید پسماندگی بلکہ کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 90 کروڑ سے زیادہ ہے! ہمارے ہاں بعض عاقبت نا اندیش یہ سوچ پھیلا رہے ہیں کہ اب صرف مایوسی میں مبتلا ہونے کا آپشن رہ گیا ہے۔ چند ذرائع ابلاغ کے ذریعے شدید منفی طرزِ فکر کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ معاشرے کی تمام خرابیاں کھول کھول کر بیان کی جارہی ہیں۔ بہت کچھ مثبت بھی ہے، اچھا بھی ہے مگر اُس کی کوریج برائے نام ہے۔ لوگ بھی صرف خامیاں، خرابیاں اور بُرائیاں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پورٹلز نے پوری کردی ہے۔ دنیا بھر کی فضولیات سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں انڈیلی جارہی ہیں اور لوگ سوچے سمجھے بغیر فضولیات کو پی رہے‘ ڈکار رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زندگی کا تیا پانچا ہوگیا ہے۔ فکری ساخت ٹھکانے لگ چکی ہے۔ جنہیں مستقبل میں قوم کا معمار ثابت ہونا ہے وہ ہر طرح کے فضول کاموں میں اپنے آپ کو ضائع کرتے پھر رہے ہیں۔ نئی نسل کو ایجنڈے کے تحت نشانے پر رکھا گیا ہے۔ دنیا رنگین ہے مگر انفرادی سطح پر زندگی کے رنگ پھیکے پڑتے جارہے ہیں۔
آج ہمیں بہت سے مسائل سے لڑنا ہے مگر سب سے بڑھ کر بے دِلی کے خلاف محاذ کھڑا کرنا ہے۔ بے دِلی ہمیں کھارہی ہے۔ مسائل کی شدت میں اضافے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم مایوس ہوکر کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو اُس میں بے دِلی نمایاں ہوتی ہے۔ بے دِلی سے نجات پانا ملک کی سالمیت اور قوم کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ بے دِلی سے نجات پانے میں کلیدی کردار مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کا ہوتا ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ جینے والے عمومی سطح پر باہوش بھی رہتے ہیں اور اُن میں کام کرنے کی لگن بھی توانا رہتی ہے۔ خوش دِلی کے ساتھ جینے میں الگ ہی مزہ ہے۔ ایسے میں انسان اپنے مسائل حل کرنے کے طریقے سوچتا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو حواس پر سوار کرنے کے بجائے اُس سے موثر طور پر نمٹنے کا ذہن بنائیے۔ پورے یقین اور خالص مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیے تاکہ بے دِلی کو پیر پسارنے کا موقع نہ ملے اور مایوسی کی راہ ہموار نہ ہو۔