"MIK" (space) message & send to 7575

دور اُفتادہ ٹیمیں اور اُن کا نظم و نسق

دنیا بھر میں دور اُفتادہ ٹیموں سے کام لینے کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے۔ ہائی ٹیک اور چند دوسرے شعبوں میں یہ رجحان زیادہ قوی اور نمایاں ہے۔ دور اُفتادہ ٹیموں کو اصطلاحاً ''ریموٹ ٹیمز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تصور ورک فرام ہوم سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ ورک فرام ہوم یعنی کسی کو گھر میں بٹھاکر کام کرانے کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ملازمین کو چند مخصوص ذمہ داریاں سونپی جائیں اور ڈیڈ لائن کے مطابق کام لیا جائے۔ ورک فرام ہوم والا فرد چونکہ ملازم ہوتا ہے اس لیے بہت سے معاملات میں متعلقہ ادارے کے قوائد اور شرائط کا پابند ہوتا ہے۔ ریموٹ یا دور اُفتادہ ٹیموں کا تصور اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اِس میں کسی ایک ملک کے مختلف علاقوں یا حصوں ہی کے نہیں بلکہ مختلف خطوں کے افراد بھی کام کرتے ہیں۔ ہائی ٹیک ادارے اپنا اچھا خاصا کام آؤٹ سورس کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں اعلیٰ ترین ذہانت کے حامل افراد تلاش کرتے ہیں، اُنہیں ذمہ داری سونپتے ہیں، ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہیں اور مطلوب نتائج حاصل کرتے ہیں۔
خیر‘ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ذمہ داری کسی کو سونپی گئی اور اُس نے ڈیڈ لائن کے مطابق کام کرکے دے دیا۔ بہت سے معاملات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ جسے کام سونپا گیا ہے اُس نے اپنی ذمہ داری نبھائی بھی یا نہیں، اپنی صلاحیتوں کو بہترین طریق سے بروئے کار لانے کی کوشش کی بھی یا نہیں۔ کارکردگی کو ٹریک کرنا پڑتا ہے۔ اِس سے بھی کئی قدم آگے جاکر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جنہیں کام سونپا گیا ہے اُن میں مطلوب ولولہ اور کام کرنے کی لگن ہے بھی یا نہیں۔ دور اُفتادہ ٹیموں کے حوالے سے یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کسی کو بھی سابق کارکردگی کی بنیاد پر کام نہیں ملتا۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اُسے جو کچھ کرنے کو کہا گیا ہے وہ اُس نے پوری دیانت، مہارت اور برجستگی کے ساتھ کیا ہے یا نہیں۔ موجودہ کارکردگی ہی متعلقہ فرد کی وقعت کا تعین کرتی ہے۔ ایلی گرین (Ali Greene)اور ٹمارا سینڈرسن (Tamara Sanderson) نے اپنی کتاب ''ریموٹ ورکس‘‘ میں دور اُفتادہ ٹیموں کی آزادی، لچک اور انہماک پر بحث کی ہے۔ دونوں کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی دور اُفتادہ ٹیم کو خالص آمرانہ انداز سے نہیں چلایا جاسکتا۔ بہترین کارکردگی کا حصول اُسی وقت یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کھل کر کام کرنے دیا جائے، تجربے کرنے سے نہ روکا جائے اور نتائج پر فوری فیڈ بیک بھی دیا جائے۔ ایلی گرین اور ٹمارا سینڈرسن لکھتی ہیں کہ ریموٹ ٹیمز کا مطلب یہ نہیں کہ چند افراد کو کسی ایپ کے ذریعے انٹرنیٹ سے جوڑ دیا جائے اور کام سونپ کر سکون کا سانس لیا جائے۔ اِس طور کام ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ کسی بھی ایپ کے ذریعے میٹنگز تو کی جاسکتی ہیں، بھرپور کارکردگی کا حصول یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔عظیم دور اُفتادہ ٹیمیں ہر شکل اور حجم کی ہوتی ہیں۔ وہ کام کے معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف اور بعض اوقات تو بالکل منفرد بھی ہوتی ہیں۔ کسی بھی دور اُفتادہ ٹیم کو اُس کے ''ڈی این اے‘‘ کی بنیاد پر سمجھ کر چلایا جاسکتا ہے۔ یہی اس کتاب یعنی ''ریموٹ ورکس‘‘ کا مرکزی خیال ہے۔
کتاب کی مصنفین لکھتی ہیں کہ کسی بھی دور اُفتادہ ٹیم کی تشکیل کے وقت یہ نکتہ فراموش نہ کیا جائے کہ جو لوگ اپنے اپنے ماحول میں کسی بڑے مقصد یا ہدف کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک اپنے مقام پر منیجر ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ لچک چاہتا ہے۔ اُس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کام اپنی مرضی سے کرنے کا موقع دیا جائے۔ بڑے کاروباری ادارے اور بالخصوص ہائی ٹیک ادارے اِس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے بہترین ذہنوں کو کام کرنے کے لیے اُن کی پسند اور مرضی کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اِن اداروں کے منیجرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصل چیز کارکردگی ہے۔ اگر کوئی اچھے نتائج دے رہا ہے تو اُسے اُس کی مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ کسی بھی دور اُفتادہ ٹیم کے ارکان سے کام لیتے وقت یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایسی ٹیم میں ہر شخص اپنے مقام پر منیجر ہوتا ہے۔ اُسے روایتی کمانڈ اینڈ کنٹرول طریقِ کار کے تحت نہیں چلایا جاسکتا۔ ''ریموٹ ورکس‘‘ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ آپ تنہا کام کر رہے ہوں، کسی فرد کے ساتھ مل کر کام میں مصروف ہوں، 225 رکنی ٹیم کا حصہ ہوں یا کسی کاروباری ادارے کی پوری ٹیم کا حصہ ہوں‘ آپ کے لیے لازم ہے کہ اپنے آپ کو منیجر کے روپ میں دیکھیں۔ جب ایسا ہوگا تب ہی آپ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کام کرتے ہوئے مطلوب نتائج دے سکیں گے۔
آئیے! کتاب کے حصوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ٭ دور اُفتادہ ٹیم کے فوائد پہچانیے۔ ایسی ٹیم کے ارکان دنیا کے کسی بھی حصے سے منتخب کیے جاسکتے ہیں۔ لچک دار ماحول فراہم کیے جانے پر مرضی کے نتائج ملتے ہیں۔ ٭ ہر شخص منیجر ہے۔ دور اُفتادہ ٹیموں میں کوئی بھی فرد روایتی انداز سے کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتا۔ سب آزادی اور لچک کے طلبگار ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کے حکم کے تابع نہیں رہنا چاہتا۔ ٭ سب کی کامیابی یقینی بنائیے۔ اگر آپ کسی دور اُفتادہ ٹیم کا حصہ ہیں تو آپ کا بنیادی کام اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی کامیابی بھی یقینی بنانا ہے۔ دوسروں کا بھلا سوچنے ہی سے اندازہ ہوگا کہ آپ کس حد تک قابلِ قبول ہیں۔ ٭ منشور تیار کیجیے۔ سب کی حدود کا تعین لازم ہے۔ کام کرنے کی آزادی اور لچک فراہم کرنا بنیادی چیز ہے مگر ٹیم کے ہر فرد کو اندازہ تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ کس حد تک جاسکتا ہے اور کہاں وہ دوسروں کے لیے پریشانی کھڑی کرسکتا ہے۔ ٭ ڈیجیٹل ہاؤس تیار کیجیے۔ ایسا ڈیجیٹل ماحول تیار کیجیے جس سے سبھی استفادہ کرسکیں۔ مطلوب آلات اور سہولتیں سب کو میسر ہونی چاہئیں۔ ٭ کام مکمل کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ مختلف خطوں کے لوگ جب مل کر کوئی ٹیم تشکیل دیتے ہیں تب اُن میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ایسے میں کام کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ کسی بھی دور اُفتادہ ٹیم کے ہر رکن کی اہمیت صرف اس بات کی بنیاد پر ہے کہ وہ اپنا کام عمدگی سے اور وقت پر مکمل کرے۔ ٭ input سے output تک کا سفر۔ روایتی منیجرز input پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، غیر روایتی منیجرز یا دور اُفتادہ ٹیموں کے ارکان output پر زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔ ٭ غیر روایتی ابلاغ کا فروغ۔ روایتی ابلاغ براہِ راست یعنی ریئل ٹائم میں ہوتا ہے جبکہ دور اُفتادہ ٹیموں کے ارکان کو براہِ راست یا ریئل ٹائم میں ابلاغ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس نوعیت کے ابلاغ کے لیے الگ مہارت درکار ہوتی ہے۔
کام کرنے کے بدلتے ہوئے طریقوں کے بارے میں غور کرتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ دور اُفتادہ ٹیمیں کام کا مستقبل ہیں۔ وہ زمانہ زیادہ دور نہیں جب دنیا بھر میں ایسی ٹیمیں زیادہ اور اچھا کام کر رہی ہوں گی۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ منزل اب بھی بہت دور دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ اور زیادہ تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر کے آجروں کو اَپ ڈیٹس بھی لینی چاہئیں اور اَپ گریڈیشن پر بھی متوجہ رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں آجروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ لوگوں سے اس طور کام لینا ہے کہ کام لیا ہی نہ جائے یا کم از کم ایسا محسوس نہ ہو۔ دنیا بھر میں وہی ادارے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اپنے ملازمین کو کام کے دباؤ سے آزاد رکھتے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں بیشتر ملازمین یہ چاہتے ہیں کہ کارکردگی کا مطلوب معیار گوش گزار کرنے کے بعد کام مرضی سے کرنے دیا جائے۔ اگر کام کے دوران کوئی دباؤ نہ ہو تو کام زیادہ اور اچھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آجروں نے اب تک ملازمین کو زیادہ سے زیادہ لچک کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے۔ چند ایک اداروں نے بہت محدود پیمانے پر دور اُفتادہ ٹیموں کے ذریعے کچھ کرنا چاہا ہے تاہم یہ معاملہ بھی اب تک عہدِ طفولیت ہی میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں