ہم بہت سی باتوں کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ یہ زمانہ عقل کا بھی ہے۔ یہی زمانہ ٹیکنالوجیز کا بھی ہے۔ جدت کا بھی یہی زمانہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ سہولتیں یقینی بناکر زندگی کو آسان سے آسان تر بناتے جانے کا زمانہ بھی وہی ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ دوسری بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ تیزی کا بھی زمانہ ہے۔ اور تیزی بھی ایسی کہ اب زندگی ہاتھ سے پھسلتی، نکلتی جارہی ہے۔ ہر معاملے میں اور بات بات پر اپنائی جانے والی تیزی کے ہاتھوں بیشتر معاملات الجھ کر رہ گئے ہیں۔ مجموعی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ پُرسکون زندگی بسر کرنے والوں کو Odd سمجھا جانے لگا ہے۔ عام آدمی کی فکری ساخت میں یہ بات کیل کی طرح ٹھونک دی گئی ہے کہ تیزی ہی زندگی کی سب سے بنیادی قدر ہے۔ جب تیزی ہی کو زندگی سمجھا جانے لگے تو ہر معاملے کو تیزی سے نمٹانے کی سوجھتی ہے اور فی الحال یہی ہو رہا ہے۔ تیزی نے زندگی کو الجھادیا‘ پیچیدہ تر بنادیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ سوچنے سمجھنے کی زحمت گوارا کیے بغیر ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ تیزی کو ناگزیر سمجھتے ہوئے جی رہے ہیں۔ ایک طرف بہتات کا عذاب ہے اور دوسری طرف بے ذہنی سے عبارت تیزی کی شکل میں نازل ہونے والا وبال۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ آج کے انسان کے لیے ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی۔
کیا محض تیز رفتاری ڈھنگ سے جینے اور زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کا موزوں ترین طریق ہوسکتی ہے؟ تیز رفتاری جن کے لیے ناگزیر ہوتی ہے صرف اُن کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ یہ ہر آدمی کا معاملہ نہیں۔ جہاں زندگی کی رفتار کم رکھنا لازم ہو وہاں تیزی زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ بعض معاملات دھیمی یا کم رفتار کے ساتھ ہی عمدگی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ پاتے ہیں، مثلاً کوئی چیز ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں پکتی ہے تو اُسے دس پندرہ منٹ میں نہیں پکایا جاسکتا۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو لذت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پریشر کُکر میں کھانا بہت تیزی سے پکتا ہے؛ تاہم لذت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ بعض چیزیں دھیمی آنچ پر چار پانچ گھنٹے میں پکائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے گزرنے ہی پر اُن چیزوں میں مطلوب ذائقہ پیدا ہو پاتا ہے۔ کچھ یہی کیفیت دوسرے بہت سے معاملات کی بھی ہے۔ بعض فصلیں تیزی سے پروان چڑھتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کٹائی کا وقت آجاتا ہے۔ دوسری طرف بعض فصلوں کو تیار ہونے میں تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ وہ قدرت کی طے کردہ رفتار کو ہضم نہیں کر پاتا۔ پیوند کاری کے ذریعے بہت سی اجناس کی ورائٹی تیار کی گئی ہے۔ یہ فصلیں تیزی سے پکتی ہیں اور پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے؛ تاہم ایسی غذائی اجناس اور پھلوں میں زیادہ لذت نہیں ہوتی اور بسا اوقات غذائیت بھی کم ہی ہوتی ہے۔
ہم عجلت پسندی کا مظاہرہ کب کرتے ہیں؟ جب ہم کم وقت میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں تب عجلت پسندی ہمارے مزاج کا بنیادی وصف بن کر ابھرتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ اپنا وقت ضائع کرتے پھرتے ہیں اور جب کام سر پر آن پڑتا ہے تو ایسی تیزی دکھاتے ہیں گویا دنیا میں ہم سے زیادہ تیزی کسی میں نہ ہو۔ زندگی میں رنگینی اور خوب صورتی اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم ہر کام کو اُس کی فطری رفتار کے مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ذہنیت اپناتے ہیں۔ جو کچھ بہت اہم ہے اُس پر پوری توجہ مرکوز رکھیے۔ جب آپ پوری توجہ کے ساتھ کسی ہدف کو پانے کے لیے متعلقہ سرگرمیاں شروع کریں گے تب ایک فطری رفتار متعین ہوگی اور آپ سُکون سے کام کرنے لگیں گے۔ ایسی حالت میں وہ ذہنی و قلبی سُکون میسر ہوتا ہے جو زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنانے کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنے کے لیے جو رفتار متعین کرنا ہوتی ہے وہ صرف اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم زندگی بھر کام کرتے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں جس ماحول میں انجام دی جاتی ہیں اُس میں فطرت بھی قدم قدم پر جلوہ گر رہتی ہے مگر ہم اُس کی طرف نہیں دیکھتے۔ بارش ہوتی ہے تو ہمیں فکر لاحق ہوتی ہے کہ کام پر کیسے جائیں گے اور واپس کیسے آئیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بارش شروع ہوتے ہی ہم گھر سے نکل کر ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلی سے محظوظ ہوں، بارش کے پانی میں بھیگنے کا بھرپور لطف پائیں۔ بارش ہوتے ہی زمین کِھل اٹھتی ہے۔ بھیگی ہوئی یا گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو ہمیں پکارتی ہے مگر ہم اِدھر اُدھر کی باتوں میں گم ہوکر محض پریشان رہتے ہیں اور موسم کی خوش گوار تبدیلی کا مزہ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے علاقے میں واقع سرکاری پارک میں کچھ دیر باقاعدگی سے گزارتے ہیں؟ تازہ، بھیگی ہوئی گھاس پر چلنے کا لطف کتنے لوگ لیتے ہیں؟ بہت سوں کو تو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ بھیگی ہوئی دبیز گھاس پر چلنے کا لطف ہوتا کیا ہے!
معاشی سرگرمیوں کی ہماہمی میں ہم بھول گئے ہیں کہ اپنی رفتار گھٹاکر بعض چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم اچھا خاصا لطف کشید کرسکتے ہیں، مثلاً پڑوس کے یا محلے کے چھوٹے بچوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کرنا بھی ہمارے مزاج کو مطلوب شگفتگی فراہم کرسکتا ہے۔ اِس خوشی کو ہمارے ہاں لوگ اب بھول چکے ہیں۔ جب کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں محلہ داری ایک تسلیم شدہ نظام کی حیثیت سے موجود تھی تب بچوں سے محبت کا اظہار اور اُن کی شرارتوں بھری سرگرمیوں سے محظوظ ہونا عمومی مزاج تھا۔ اب گلی میں بچوں کا کھیلنا اور شور مچانا بھی لوگوں کو کَھلتا ہے۔ آج کم ہی لوگ ہیں جو محلہ داری پر یقین رکھتے ہیں۔ زندگی کی تیزی میں یہ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اِسی معاشرے میں ایک وقت وہ بھی تھا جب زندگی کی رفتار خاصی کم اور سُکون بخش تھی۔ تب بچہ بیمار پڑے تو اُسے کلینک لے جانے کے لیے باپ کو چھٹی نہیں کرنا پڑتی تھی۔ پڑوس کی بزرگ خواتین کلینک تک ساتھ جایا کرتی تھیں!
ہمیں ایک بار پھر گزرے ہوئے زمانوں سے رجوع کرنا ہے۔ ہمیں اُن زمانوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینا سیکھنا ہے جب زندگی کی رفتار خاصی کم اور سُکون بخش تھی۔ یہ خواہ مخواہ کی تیزی ہمیں کھارہی ہے۔ ہر معاملے میں تیزی ہمارے کسی کام کی نہیں۔ کوشش کرکے تو دیکھیے۔ جب آپ زندگی کی رفتار کم کریں گے تب اندازہ ہوگا کہ بہت کچھ کسی جواز کے بغیر اَن دیکھا رہ جاتا ہے۔ زندگی آج بھی حسین ہے۔ ماحول میں آج بھی ایسا بہت کچھ ہے جو ذہن کو پُرسکون رکھنے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ زندگی کی رفتار گھٹانے کا عمل چھوٹے چھوٹے معاملات سے شروع کرنا ہے۔ ہم اپنے ماحول کو غیر منطقی طور پر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
ترقی یافتہ معاشروں میں غیر معمولی تیزی منطقی ہے کیونکہ وہاں وقت کو سب سے قیمتی اثاثہ گردانا جاتا ہے۔ کوئی بھی اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتا کہ اُس کا وقت ضائع کیا جائے۔ وہاں تیزی پورے ماحول سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ اِس تیزی نے اُن سے بہت کچھ چھین لیا ہے؛ تاہم ماننا پڑے گا کہ تیزی اُن کے لیے موزونیت کی منزل میں ہے۔ ہمارے ہاں لوگ کسی جواز کے بغیر یا تو بہت تیزی دکھاتے ہیں یا پھر وقت ضائع کرتے پھرتے ہیں۔ وقت کا قدر شناس ہونا بہت اچھی بات ہے مگر ضائع ہونے سے بچائے جانے والے وقت کا موزوں ترین مصرف بھی تو ہونا ہی چاہیے۔ زندگی کی خوبصورتی اور رنگینی سے محظوظ ہونے کا موزوں ترین طریقہ یہ ہے کہ ہر کام معقول ترین رفتار سے کیا جائے۔ کسی بھی کام کو بہت تیزی سے یا بہت سست روی سے کرنا مطلوب نتائج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب ہم اپنے کاموں میں بہت زیادہ الجھ جاتے ہیں تب پورا ماحول غیر متعلق سا ہو جاتا ہے، زندگی غیر دلچسپ ٹھہرتی ہے۔ زندگی وہی ہوتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم غیر ضروری رفتار سے گریز کرکے چھوٹی چھوٹی باتوں سے لطف کشید کرنا سیکھیں تو زندگی زیادہ رنگین محسوس ہوگی۔ غیر ضروری تیزی سے گریز کی راہ پر آپ کا چلنا زندگی کو راہ پر لے آئے گا۔