"MIK" (space) message & send to 7575

مرضی آپ کی ہونی چاہیے

کم و بیش ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ غلط نہیں ہوسکتا یا اُس سے کسی غلطی کا ارتکاب نہیں ہوسکتا۔ حد یہ ہے کہ جو غلطی ہوچکی ہو اُسے بھی غلطی تسلیم کرنے سے انسان شرم ناک و افسوس ناک حد تک ہچکچاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا معاملہ ہے۔ دوسروں کی آنکھوں میں تنکے تلاش کرنے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ آپ کبھی غلط ہوسکتے ہیں؟ کیوں نہیں؟ غلطی کسی سے بھی سرزد ہوسکتی ہے اور ہوتی ہی ہے۔ ہم سب خطا کے پُتلے ہیں۔ بہت سے معاملات میں ہمارے اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہوتے ہیں، ہمارے گمان بے بنیاد نکلتے ہیں اور ہم جن خوش فہمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ محض خوش فہمیاں ہی ثابت ہوتی ہیں۔ پھر بھی ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اصلاح پر مائل ہونے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے۔ کیوں؟ بنیادی سبب یہ ہے کہ انا ایسا کرنے سے روکتی ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، کیا اندازے لگائیں گے۔ یہ پریشانی بھی اپنی اصل میں بے بنیاد ہے۔ سب کے اپنے اپنے جھمیلے ہیں۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ کے بارے میں زیادہ غور کرتا پھرے؟ ؎
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اِس بنا پر فکرِ عالم کیا کریں؟
کون آپ کی طرف دیکھ رہا ہے؟ اور دیکھ بھی رہا ہو تو کیا ہوا؟ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کب کب غلطی پر ہوتے ہیں؟ یا یہ کہ لوگ آپ کو کب غلط سمجھتے ہیں؟ آپ غلطی کے مرتکب ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، لوگ آپ کو اُس وقت غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں جب آپ اُن کی مرضی کے مطابق نہیں چلتے، اُن کی خواہش کے مطابق کام نہیں کرتے، اُن کے طے کردہ اصولوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرتے! ہر اُس انسان کو غلط سمجھا جاتا ہے جو ماحول کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے سے انکار کردیتا ہے۔ ماحول چاہتا ہے کہ کوئی بھی اُس کے طے کردہ دائرۂ فکر و عمل سے باہر رہتے ہوئے نہ جیے۔ یہ ہر معاشرے کا مسئلہ ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نیا کہنے اور کرنے والے کو باغی تصور کیا جاتا ہے۔ ہر دور کا تاریخی ریکارڈ گواہ ہے کہ جس نے بھی کوئی نیا آئیڈیا پیش کیا ہے اور کچھ نیا کر دکھانے کی کوشش کی ہے اُسے پہلے تو عجیب نظروں سے دیکھا گیا، خبطی قرار دیا گیا اور جب قابو میں نہ آیا تو باغی قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ کسی بھی عہد نے روایت شکن کو آسانی سے قبول نہیں کیا۔ جو کچھ معاشرے میں چلن کا درجہ رکھتا ہو اُسے غلط قرار دینا اپنی موت کو دعوت دینے جیسا ہوتا ہے۔ مذہب جیسی حساس چیزوں کے معاملے میں تو یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ معاشرتی معاملات میں بھی کسی روایت شکن کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اور پہلے مرحلے میں تو بالکل قبول نہیں کیا جاتا۔ جو کچھ ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہو اُس سے دوری کسے گوارا ہوتی ہے؟ کسی بھی انسان نے اپنے دل کے معبد میں جو بت بنا رکھا ہوتا ہے اُسے گرتا ہوا دیکھنا گوارا نہیں کر پاتا۔
ہم زندگی بھر اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کہیں کوئی غلط رائے قائم نہ کرلیں۔ لوگوں کا کام ہے سوچنا اور کہنا۔ وہ اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں گے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، پسند کریں یا نہ کریں، لوگ آپ کے بارے میں بالکل بے بنیاد منفی رائے بھی قائم کرسکتے ہیں۔ سوال اُن کا نہیں آپ کا ہے کہ آپ اپنے بارے میں کس حد تک حساس ہیں۔ آپ کو دوسروں کی آرا اور تبصروں کی زیادہ پروا نہ کرتے ہوئے اپنے معاملات کو دیکھنا ہے، نبھانا ہے۔ ہم الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں جینے کا مطلب ہے سب کے ساتھ مل کر رہنا۔ کسی کو ہماری ضرورت پڑتی ہے اور کسی کی ہمیں۔ زندگی کا سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے کام بھی آتے ہیں اور ہم آہنگ رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جو لوگ معاشرے سے ہم آہنگ رہنے کی کوشش نہیں کرتے اُنہیں پسند کرنے والے خال خال ہوتے ہیں۔ کسی ٹھوس جواز کے بغیر اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھنا کسی بھی اعتبار سے تعقل کا مظہر نہیں۔ دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی کو کچھ دے اور کسی سے کچھ لے۔ ہم بہت کچھ دوسروں سے سیکھتے ہیں۔ سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ کسی کی دانش ہمارے کام آتی ہے اور کوئی ہم سے دانش لیتا ہے۔ کوئی ہماری مہارت سے مستفید ہوتے ہوئے اپنی زندگی کا معیار بلند کرتا ہے اور کسی کی مہارت ہمارے لیے نعمت ثابت ہوتی ہے۔ معاشرہ لین دین کی بنیاد پر چلتا ہے۔ سب ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہوئے چلتے ہیں تو سفر ڈھنگ سے طے ہو پاتا ہے۔ الگ تھلگ رہنے والے بہت سے معاملات میں محروم رہ جاتے ہیں۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے مجموعی چلن سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جیا جائے۔ ہاں‘ اپنی مرضی کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ اپنی مرضی تمام معاملات میں نہیں چلائی جاسکتی؛ تاہم چند ایک اہم معاملات میں تو انسان کو اپنی مرضی کے تابع رہنا ہی چاہیے۔
ہر انسان جینے کا ایک خاص ڈھنگ طے کرتا ہے۔ جینے کا یہ خاص ڈھنگ اپنی مرضی کا مظہر ہوتا ہے۔ انسان جو کچھ بہت پسند کرتا ہے اُسے اپنے جینے کے ڈھنگ کا حصہ بناتا ہے۔ بعض معاملات میں وہ دوسروں کی مرضی کو بھی تسلیم کرتا ہے مگر اِس کی بہر حال ایک حد ہوتی ہے۔ ہر معاملہ گھوم پھر کر اپنی مرضی تک واپس آتا ہے۔ اپنی مرضی؟ زندگی بسر کرنے کی اپنی سوچ اور اُس سوچ پر عمل کرنے کا اپنا انداز۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے آپ کی مرضی کو زیادہ پسند نہ کریں۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اپنی مرضی کی زندگی کو دوسروں کے لیے بھی قابلِ قبول بنانے پر متوجہ ہوں۔ آپ کو جو کچھ پسند ہے وہ دوسروں کے لیے تکلیف دہ نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ آپ کو اچھا لگتا ہے وہ سب کو اچھا لگتا ہو یہ لازم نہیں مگر آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی مرضی دوسروں پر مسلط نہ کریں، اُنہیں اپنی پسند و ناپسند کے تابع نہ بنائیں۔ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ دوسروں کے لیے غیر ضروری اور بلا جواز الجھن پیدا نہیں کرتا تو اُس سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
کوئی بھی انسان حقیقی کامیابی سے اُسی وقت ہم کنار ہوسکتا ہے جب وہ اپنی مرضی کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے۔ اپنی مرضی کے مطابق جینے اور کام کرنے سے انسان لمحہ بہ لمحہ فرحت محسوس کرتا رہتا ہے۔ اپنی پسند یا مرضی کی معاشی سرگرمی انسان کو عجیب ہی طرح کا اطمینان عطا کرتی ہے۔ وہ کسی بھی طرح کے ذہنی بوجھ کے بغیر کام کرتا رہتا ہے اور زیادہ یا غیر ضروری تھکن بھی محسوس نہیں کرتا۔ اپنی مرضی کے مطابق جینے میں سب سے بڑی آسانی یہ ہے کہ انسان کسی کا غلام نہیں ہوتا، کسی کا غیر ضروری دباؤ محسوس نہیں کرتا۔ جو لوگ اپنی مرضی کے تابع ہوتے ہیں اُن کے رنگ ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بہت آسانی سے اور بہت دور سے پہچان لیا جاتا ہے۔ اُن کا اعتماد الگ ہی جھلکتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی مسئلے کو سامنے پاکر پریشانی اور الجھن محسوس کرنے کے بجائے اُسے چیلنج کے درجے میں رکھ کر عمل پسند رویہ اپناتے ہیں یعنی معاملات کو درست کرنے کی روش پر متوجہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کا عمومی چلن روایت پسندی پر مبنی ہوتا ہے۔ لوگ زیادہ پُرجوش رہتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرتے۔ معاملات کو درست کرنے کی کوشش پر محض ٹالنے رہنے کی روش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسے میں ہر وہ انسان تھوڑا سا برا لگتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق بھرپور قوتِ عمل کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہو۔ اکثریت کو یہ پسند ہے کہ تن آسانی کا چلن جاری رہے۔ ایسے میں کوئی بھرپور استحکامِ فکر و نظر کے ساتھ جینے کی کوشش کرے تو تھوڑا اجنبی محسوس ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اپنی مرضی کے مطابق جی رہا ہو تو اُس کا ناقابلِ قبول قرار دیا جانا طے ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دوسروں کا غیر ضروری دباؤ قبول کیے بغیر اپنی مرضی کے تحت جینے ہی میں مزہ ہے۔ پھر اگر کوئی غلط سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں