وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا جتنی الجھتی جارہی ہے اُس سے کہیں زیادہ ہم الجھتے جارہے ہیں؛ ہم یعنی پاکستانی۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک اور معاشروں میں ہوتا ہے جنہوں نے مثالی نوعیت کے قدرتی وسائل کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پستی کے گڑھے سے نکالنے میں اب تک کامیابی ممکن نہیں بنائی ہے۔ قدرت کو جو کمال کرنا تھا وہ تو اُس نے کردیا۔ اِدھر ہم ہیں کہ اب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ یہ اُمید دم توڑنے کا نام نہیں لیتی کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور ہمارے تمام معاملات درست کردے گا۔ کوئی کہاں سے آئے گا اور کیوں آئے گا؟ کیا دوسروں کے معاملے میں ایسا ہوا ہے؟ نہیں نا؟ تو پھر ہمارے معاملے میں ایسا کیوں ہونے لگا؟ اپنے معاملات کی درستی کے لیے جو کچھ بھی کرنا ہے ہمیں کرنا ہے۔ اور ہاں‘ اپنی بربادی کے لیے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بیرونی سازشیں ہوتی ہوں گی مگر اُن سے سب کچھ تباہ نہیں ہو جاتا۔ سوال تو اندرونی مضبوطی کا ہے۔ دنیا بھر کے پس ماندہ معاشروں پر اُچٹتی سی نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ اُنہیں کسی اور نے برباد نہیں کیا، وہ سب اندرونی بوجھ سے گرے ہیں۔ تاریخ پر گہری نظر رکھنے اور اِس حوالے سے سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ بڑی سلطنتیں کسی کے گرائے نہیں گرتیں بلکہ اُنہیں اپنا ہی بوجھ لے ڈوبتا ہے۔ سلطنتِ روم اِس کی بہت روشن مثال ہے۔ اندرونی قرضوں اور عالی شان طرزِ زندگی کا انتہائی بوجھ اِس عظیم سلطنت کو یوں لے گِرا کہ پھر اُٹھ نہ پائی۔ فارس کی سلطنت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ قرضوں کا بوجھ اُس پر بھی خاصا تھا؛ تاہم اِس سے کہیں زیادہ بوجھ ذہن کی کج رَوی یعنی تکبر کا تھا۔ اہلِ فارس اپنے سامنے کسی کو گردانتے ہی نہ تھے۔ اُن کی نظر میں باقی دنیا جاہل اور غیر مہذب تھی اور اُسے جینے کا حق ہی نہ حاصل نہ تھا!
ہمارا معاشرہ پس ماندگی کے معاملے میں خاصا منفرد کیس ہے۔ یہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں۔ تیل بھی ہے اور گیس بھی۔ معدنیات بھی ہیں۔ سونا بھی کم نہیں۔ دریا بھی ہیں اور میدان بھی۔ پہاڑ بھی ہیں اور کھائیاں بھی۔ یہاں شدید گرمی بھی پڑتی ہے اور برف بھی گرتی ہے۔ یہاں بارشیں بھی ہوتی ہیں اور زمین بھی انتہائی زرخیز ہے۔ اناج، سبزیوں اور پھلوں کا بھرپور تنوع اِس ملک کا خاصا ہے۔ خشک میوہ جات کی پیداوار میں بھی ہم نمایاں ہیں۔ مویشیوں کی پیداوار کے معاملے میں بھی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ اِس کے باوجود ملک پس ماندگی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ افرادی قوت کی بات کیجیے تو ماننا پڑے گا کہ اہلِ پاکستان میں غضب ناک حد تک اعتماد پایا جاتا ہے۔ اِس کا بیّن ثبوت وہ پاکستانی ہیں جو بیرونِ ملک اپنے آپ کو خوب منوا رہے ہیں۔ اپنے ملک میں جنہیں کام کرنے کا معقول و موزوں موقع نہیں ملتا وہ بیرونِ ملک موقع ہاتھ آتے ہی کمالات دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیلنٹ مینجمنٹ کا معقول نظام رُو بہ عمل ہو تو یہ ملک دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ جو پاکستانی بیرونِ ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ملک کے لیے نام اور مال کما رہے ہیں وہ یہ سب کچھ حکومت کی سرپرستی کے ذریعے نہیں کر رہے۔ افرادی قوت کی برآمد میں حکومت کا کردار محض پاسپورٹ جاری کرنے تک محدود ہے۔ لوگ اپنے طور پر بیرونِ ملک جاتے ہیں اور ترسیلاتِ زر کی شکل میں ملکی خزانے کو مستحکم کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔
ملک کے حالات روز بروز زیادہ سے زیادہ ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ جنہوں نے زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے اُن سے کچھ خاص نہیں ہو پارہا۔ وسائل کی تقسیم کا مرحلہ خدا جانے کب آئے گا، فی الحال تو ملک بندر بانٹ کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اور بندر بانٹ بھی ایسی ہے کہ بندر دیکھیں تو شرما جائیں! جس کے ہاتھ میں کچھ اختیار آگیا ہے وہ اُسے ڈگڈگی کی طرح بجائے جارہا ہے یعنی اپنی تجوری بھرنے میں مصروف ہے۔ قومی خزانے پر تصرف کے حامل حکام اپنی مرضی کے فیصلوں کے تحت نظام کو چلارہے ہیں۔ اور یہ لفظ (نظام) بھی اب اپنے معانی گنوا چکا ہے۔ ہم نظام کا رونا روتے رہتے ہیں جبکہ ملک شدید ''بے نظامی‘‘ کی حالت میں ہے! حکومتی اور انتظامی سطح پر کیے جانے والے فیصلے ایسے ہیں کہ قوم دیکھ کر پریشان ہوئی جاتی ہے۔ سرکاری مشینری کام سے یوں بھاگتی ہے جیسے کوئی متعدی مرض سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ سرکاری شعبے کے بیشتر ملازمین کی کارکردگی کا جائزہ پوری دیانت سے لیجیے تو چند ہی ایسے نکلیں گے جنہیں نظام سے نکال باہر نہ کیا جائے۔ ملک بھر میں سرکاری اساتذہ کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری سکول اور کالج جس معیار کی تعلیم دے رہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تعلیم سمیت ہر معاملے میں تیزی سے گرتے ہوئے معیار پر کوئی شرمندہ بھی نہیں ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
حالات کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے اپنی سوچ کو مثبت رکھنا انتہائی درجے کے چیلنج میں تبدیل ہوگیا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف انتشار دکھائی دے رہا ہے۔ عمومی رویوں میں ایسا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ اب اصلاح کی گنجائش دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں ہر اُس انسان کا دل قدم قدم پر ڈوبنے لگتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے کچھ بہتری چاہتا ہے، معاشرے کو پستی کی دلدل سے کسی حد تک نکلتا ہوا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔
حساس دل کا حامل ہر پاکستانی اِس وقت دل گرفتہ ہے کہ ملک کو لاحق مسائل کے حل میں اپنا حصہ کیسے ڈالے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ پورا معاشرہ بدعنوان ہوچکا ہے تو ہم دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غالب اکثریت بدعنوان ہے۔ سبھی بدعنوان ہو جائیں تو معاشرہ زلزلہ زدہ مکان کی طرح دھڑام سے نیچے آ رہے۔ معاشرے اُنہی لوگوں کے دم سے زندہ رہتے ہیں جو ہر حال میں دیانت کا دامن تھامے رہتے ہیں اور طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سوچ کو مثبت رکھتے ہیں اور دوسروں کی مدد پر مائل رہتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران ہم نے دیکھا کہ کرپٹ سمجھی جانے والی قوم نے حالات کی چکی میں پسنے والوں کو نظر انداز نہیں کیا اور جتنی بھی مدد ہوسکتی تھی کی جاتی رہی۔ اہلِ سیاست کی روش چاہے کچھ ہو، سرکاری مشینری کے پُرزے چاہے جتنی بدعنوانی کے مرتکب ہوں، عام پاکستانیوں میں ایسے لوگوں کو تناسب اب بھی حوصلہ افزا ہے جن کے دل معاشرے کی عمومی خرابیوں پر کڑھتے ہیں اور جو معاملات بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔
فی زمانہ مثبت سوچ کے ساتھ جینا کسی بھی انسان کے لیے چیلنج سے کم نہیں۔ وقت ہی کچھ ایسا ہے کہ سوچ کو مثبت رکھنا مستقل نوعیت کی مشقت کے درجے میں ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ شکن معاملات ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الجھنوں کا گراف بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ معاشرے کا مرکزی دھارا بے نظمی اور شدید حرص و ہوس سے عبارت ہے اور سبھی کچھ اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا ہے۔ ایسے میں اپنے آپ کو بچانا اور معقول و متوازن انداز سے زندگی بسر کرنا شدید جاں گُسل نوعیت کی آزمائش ہے۔ سوچنے کے انداز پر منفی اثرات مرتب کرنے والے عوامل زیادہ ہیں۔ دل کو حوصلہ بخشنے والے معاملات خال خال ہیں۔ ایسے میں سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے جینا واقعی بہت بڑا چیلنج ہے۔ دانش و حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان فضول معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھے، اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے، اُن سے مراسم بڑھائے جو مثبت سوچ کے ساتھ انتہائی درجے کے عمل پسند ہوں یعنی پورے تعقل اور شعور کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی صحبت انسان کو بھٹکنے سے بچاتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر جینے اور کسی بھی صحبت کا حصہ بننے کی صورت میں وقت اور توانائی دونوں ہی کے ضیاع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم جہاں ہیں وہاں تادیر نہیں رہیں گے یعنی مزید خرابیوں کی طرف بڑھیں گے۔ قدرت ہم پر مہربان ہو جائے اور کوئی اچھا حاکم آکر معاملات کو درست کرنے پر مائل ہو تو اور بات ہے، وگرنہ دکھائی تو یہی دے رہا ہے کہ اب مثبت فکر و عمل کے ساتھ جینا جہاد کے درجے میں ہے اور یہ جہاد ہمیں زندگی بھر کرنا ہے۔