ایک سال سے اقتدار و اختیار کے گلیاروں میں جو تماشا چل رہا ہے وہ قوم کیلئے سوہانِ روح ہے۔ قوم تماشے دیکھنے کی عادی ہے۔ بجا کہ اس عادت کی کوئی حد دکھائی نہیں دے رہی مگر تماشوں کی تو کوئی حد ہونی ہی چاہیے۔ ایک زمانے سے قوم کا عمومی مزاج یہ ہے کہ ہر معاملے میں تفنّن کا پہلو تلاش کر لیتی ہے۔ جن معاملات پر دل خون کے آنسو روتا ہو اُن میں بھی استہزا یا تضحیک کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرکے چُہلیں کی جاتی ہیں۔ یہ عمومی مزاج ایک زمانے سے ہے اور اب ہم اِس کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ اِس سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا گیا ہے!
ایک سال کے دوران خرابیوں کا ایسا سلسلہ رہا ہے جس نے قوم کے کَس بل نکال دیے ہیں۔ عام آدمی تو جیسے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے یعنی محض جینے کے قابل بھی نہیں رہا۔ روپے کی قوتِ خرید ایسی گری ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی جُوئے شیر لانے جیسا ہے۔ تین‘ چار افراد پر مشتمل گھرانے کو پالنے والا مزدور اب زندگی کو ایک بوجھ سے کم نہیں سمجھتا۔ جسم کی سکت بھی ایک حد تک ہوتی ہے۔ انسان کتنی محنت کرسکتا ہے؟ یہاں معاملہ یہ ہے کہ انسان بارہ سے پندرہ گھنٹے کام کرے‘ تب بھی گھر کا حساب پورا ہونے میں نہیں آتا۔ جس کے کاندھوں پر پورے گھر کا بوجھ ہو اُسے ڈھنگ سے سونا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں گراف گرتا چلا جاتا ہے اور عمر گھٹتی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر خود کشی کا خیال نہ بھی آئے تو حوصلے کے گراف کا گرتے جانا طے ہے اور یہ بھی تِل تِل مرنے ہی کی ایک شکل ہے۔ حالات کی خرابی ایسی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری منصوبہ سازی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ لوگ اول تو سوچنے کے قائل نہیں اور اگر کبھی اِس طرف آ جائیں تو محض تشویش کے مرحلے میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ عام آدمی بے چارہ تشویش کے مرحلے ہی سے بطریقِ احسن گزر نہیں پاتا۔ ایسے میں وہ غور و فکر کی صلاحیت و سکت کہاں سے لائے؟
شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کو معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔ اِس مدت کے دوران حکومت کچھ خاص کر دکھانے میں کامیاب نہیں رہی؛ تاہم اُسے مکمل طور پر موردِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا۔ معاملات ہیں ہی اِتنے الجھے ہوئے کہ کوئی بھی حکومت اُنہیں سلجھانے میں آسانی سے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت بھی مسائل ڈھنگ سے حل کرنے میں بہت حد تک ناکام رہی تھی اور اِس کیلئے اُسے بھی زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا کیونکہ عمران خان کی قیادت میں کام کرنے والوں کو دو برس تو کورونا کی وبا کا سامنا رہا۔ اِس دوران دنیا بھر میں معیشتیں رُل گئیں۔ ترقی یافتہ دنیا بھی شدید متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ چین، روس، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا بھی جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ گزشتہ برس ہمارے ہاں جس وقت حکومت تبدیل ہوئی وہ وقت کسی بھی اعتبار سے حکومت کی تبدیلی کا نہ تھا۔ حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ چلا۔ بات امریکہ کی مبینہ مداخلت تک گئی اور پھر بعد از خرابیٔ بسیار‘ تحریکِ انصاف کے قائد نے تسلیم کیا کہ امریکہ کا کردار نہ تھا۔ عمران خان کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کے ناکام رہنے کی ٹھوس وجوہ موجود تھیں۔ جنہیں حکومت سنبھالنے کا شوق تھا وہ بھی جانتے اور سمجھتے تو ہوں گے کہ اس تان توبڑے کو سر پر اٹھانا کھیل کھلواڑ کا معاملہ نہیں۔ شریف خاندان ایک زمانے سے ایوان ہائے اقتدار میں رہا ہے۔ کیا اُسے اندازہ نہ تھا کہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر کیسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی جارہی ہے؟ یہ تو آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے والا معاملہ تھا۔
قوم ایک سال سے یہ دیکھنے کو بے تاب ہے کہ حکومت کسی بھی معاملے کو کس حد تک درست کرنے میں کامیاب ہو پائے۔ معاملات کی پیچیدگی ہے ہی ایسی کہ آسانی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ شہباز شریف اور اُن کے رفقائے کار اب تک مختلف معاملات میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ ڈور کا سِرا ہاتھ نہیں آرہا۔ اِس مدت کے دوران آئی ایم ایف ہم سے کھیلتا آیا ہے۔ ترسیلاتِ زر کا گراف گرتا گیا ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کیفیت انتہائی درجے کی خرابی سے دوچار ہے۔ دوست ممالک بھی ایک خاص حد تک ہی مدد کرسکتے ہیں اور اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ کوئی بھی ملک محض دوست ممالک کے دم پر نہیں چل سکتا۔ جو کچھ کرنا ہے وہ بالآخر خود ہی کرنا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی مسائل کے حل کی ایک ہی صورت بچی ہے‘ اپنے معاملات خود درست کریں۔ یہ کام سب سے پہلے گھر میں ہونا چاہیے۔ اندرونی معاملات کو درست کیے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بیرونی معاملات میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنا بھی لازم ہے مگر اِس سے پہلے گھر کی درستی لازم ہے۔
سب اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ جنہیں قبل از وقت انتخابات درکار ہیں وہ اپنے مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی مقبولیت کو کیش کرانا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اُس کی ہم خیال جماعتوں نے طے کر رکھا ہے کہ اس حکومتی سیٹ اَپ کو چلنے نہیں دینا۔ وہ انتخابات سے کم پر راضی نہیں۔ دوسری طرف حکومت کے پاس معیشت کی خرابی اور فنڈز کی کمی کا بہانہ موجود ہے۔ ایک دوسرے کو عدالت میں گھسیٹنے کا عمل شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے میں عدلیہ کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ عدلیہ بھی شدید مخمصے کا شکار ہے کیونکہ اکثریت کی مرضی کے منافی فیصلے آسانی سے قبول نہیں کیے جاتے۔ چند ماہ کے دوران یہ محسوس کیا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں میں عوام کے جذبات بھی ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ججز پر دباؤ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ اِس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ فیصلہ جن کی مرضی اور توقع کے خلاف ہو وہ عدلیہ کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز کے اِس دور میں یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ رائے عامہ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے چند سو مستعد قسم کے وی لاگرز کی ضرورت ہوتی ہے، اور بس۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر اب تک پی ٹی آئی کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔
یہ تماشا مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت بھی جانتی ہے کہ معاملات اُس کے بس میں نہیں۔ ایسے میں انا پرستی کی زیادہ گنجائش نہیں۔ پی ٹی آئی بھی سمجھتی ہے کہ سب کچھ اُس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہے۔ ایک سال کے دوران سیاسی اور معاشی خرابیاں ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔ اِس کے نتیجے میں معاشرتی خرابیوں کا گراف بھی بلند ہوتا گیا ہے۔ کراچی تو جیسے سٹریٹ کرائمز کا شہر ہوکر رہ گیا ہے۔ ہوش رُبا مہنگائی نے بہت سے نوجوانوں کو مال و زر کے آسان حصول کے لیے صرف ڈکیتی کی راہ دکھائی ہے۔ سٹریٹ کرمنلز واردات کے دوران مارے بھی جارہے ہیں مگر پھر بھی وارداتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کمزور سوچ رکھنے والے جن نوجوانوں نے سوچ رکھا ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ مال بٹورنا ہے اُنہیں کسی کی تو کیا‘ اپنی جان کی بھی پروا نہیں۔ ان تمام خرابیوں کی روشنی میں صرف وسیع البنیاد مکالمے کا آپشن بچا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اب مل بیٹھ کر اپنی اپنی انا ایک طرف رکھتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر کچھ سوچنا چاہیے۔ مفادات کا تصادم اپنی جگہ اور ریاست کا وجود اپنی جگہ۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو مکمل نراجیت کی منزل زیادہ دور دکھائی نہیں دیتی۔ جماعتِ اسلامی نے وسیع البنیاد مکالمے کا ڈول ڈالا ہے۔ معیشت کو گڑھے سے نکالنے کا بھی یہی راستہ ہے۔ جب تک ہمارے سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو قبول نہیں کریں گے تب تک باہر سے (قرضوں کی شکل میں) نام نہاد امداد آئے گی نہ سرمایہ کاری۔ تذبذب و تامل کا مرحلہ گزر چکا۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔