زندگی بہت کچھ کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔ زندگی کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے رب کے شکر گزار رہتے ہوئے جئیں۔ یہ بھی زندگی کے بنیادی مقاصد میں سے ہے کہ ہم دوسروں کے کام آئیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو ہمیں زندگی بھر کرنا ہے‘ کرتے رہنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم مثبت سوچ کے ساتھ جئیں۔ جب ہم دنیا کو ''جیسی ہے‘ جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں تبھی کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس دنیا میں سب کچھ اچھا نہیں ہے مگر خیر‘ سب کچھ خراب بھی نہیں ہے۔ کرنے کیلئے بہت کچھ ہے اور پانے کیلئے کچھ کم نہیں۔ اگر کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو بس عزمِ مصمّم کا سہارا لے اور کر گزرے۔ کچھ پانا ہے تو نیت کے اخلاص کیساتھ اپنے حصے کا کام کرے‘ جو کچھ بھی وہ چاہتا ہے اللہ کی طرف سے عطا ہو ہی جائے گا۔ کچھ لوگ مزاج کے جھکاؤ کے باعث ناشکرے پن کا شکار رہتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں صرف رونا روتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور پھر یہی مزاج ان کی زندگی بن جاتا ہے۔ لوگ ان کی زبان سے محض ایک دو جملے سن کر بھی اندازہ لگالیتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہیں گے۔ ایسے لوگوں کو بھلا کون پسند کرے گا جو ہر وقت حالات کی ناہمواری کا رونا روتے رہیں؟ ہمیں عطا کی جانے والی زندگی اس لیے بالکل نہیں کہ ہم ہر وقت حالات کی ناہمواری کا رونا روتے رہیں‘ مشکلات کے حوالے سے شکوہ سنج رہیں۔ ایسا کرنے کا کوئی عقلی اور منطقی جواز بھی نہیں۔ کیا محض رونے دھونے سے کچھ ہوتا ہے؟ ہر وقت گلے شکوے کرتے رہنے سے بھی کبھی کسی کا بھلا ہوا ہے؟ زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماحول کا محض سرسری جائزہ لیجیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ کامیاب وہی ہیں جو رونے دھونے پر یقین نہیں رکھتے اور ہر وقت اپنے رب کے شکر گزار رہتے ہیں۔ تشکر ہی میں تشفی ہے۔ جنہیں ہر معاملے میں اپنے رب سے آس لگی ہو وہ کسی بھی صورتِ حال کے کسی بھی نتیجے کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ جن کا اپنے رب پر کامل یقین ہو ان کیلئے یہی طرزِ عمل مثالی ہوسکتی ہے اور ہے۔
معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال کمانے یا بٹورنے کی کوشش کی جائے۔ عام آدمی یا تو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر یا پھر لالچ کے پھیر میں آکر زیادہ سے زیادہ مال چاہتا ہے۔ کیا زیادہ مال انسان کو سب کچھ دے سکتا ہے؟ ہم جتنی بھی سہولتیں چاہتے ہیں‘ کیا وہ سب محض مال کے حصول کے بعد ممکن ہو پاتی ہیں؟ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ زندگی کو آسان بنانیوالے تمام معاملات محض مال و زر کی مدد سے ممکن نہیں بنائے جاسکتے۔
زندگی اپنی اصل میں دو پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ ایک خالص مادّی اور دوسرا خالص روحانی۔ مادّی سطح پر ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اُس کیلئے مال و زر ضروری سمجھا جاتا ہے مگر یہاں بھی حلال کی قید لگائی گئی ہے۔ بھوک لگے تو روٹی چاہیے مگر روٹی حلال کی کمائی سے خریدی جانی چاہیے۔ کسی بھی طرح کی کمائی سے پیٹ بھرنے کی صورت میں انسان کیلئے صرف خرابیاں ہیں۔ جب مادّی معاملات میں حلال کی قید موجود ہے تو اندازہ لگائیے کہ روحانی معاملات میں یہ قید کس نوعیت کی ہوگی۔
ہم نے بہت کچھ بھلادیا ہے۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ جیسے تیسے زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرکیف و رنگین بنانے کی کوشش کیجیے۔ اب اس کوشش میں دین ہاتھ سے جاتا ہے تو جائے‘ اللہ کے ناراض ہونے کا خطرہ ہو تو ہو۔ سوال صرف گناہوں تک محدود رہنے کا بھی نہیں۔ گناہوں کی نوعیت کبھی کبھی ایسی ہو جاتی ہے کہ انسان سے صریح کفر کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ زندگی کو آسانیوں سے مزین کرنے کی کوشش میں اپنی آخرت کا دامن مشکلات سے بھر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتنا عام ہوچکا ہے کہ اسے کسی بھی درجے میں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ حرام و حلال میں تمیز کا شعور پروان چڑھائے بغیر جینے کی روش اس قدر عام ہے کہ اب اسے کسی بھی درجے میں قبیح سمجھنے والے خال خال ہیں۔ہر حال میں اللہ کا شکر گزار رہتے ہوئے جینے میں جو مزا ہے‘ وہ بھی اب لوگ بھول چکے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ جنہیں یہ سب یاد دلاتے رہنا ہے وہ خود مزے کی زندگی بسر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ علما کا فرض ہے کہ لوگوں کو حرام و حلال کے فرق سے اچھی طرح آگاہ کریں اور سادگی سے جینے کی تلقین کریں۔ علماء کی یہ تلقین اسی وقت کارگر ہوسکتی ہے جب وہ خود بھی سادہ زندگی بسر کریں اور حرام و حلال کے فرق کو اچھی طرح ملحوظِ خاطر رکھیں۔ عام آدمی جب علما کو پرتعیش زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو کچھ اور ہی سیکھتا ہے۔
کسی بھی انسان کو حقیقی قلبی سکون اسی وقت مل سکتا ہے جب وہ اپنے ہر معاملے کو اللہ کی مرضی پر چھوڑے۔ اسی کو تسلیم و رضا کہتے ہیں۔ اگر اللہ کو ہر معاملے میں علیم و خبیر اور قادرِ مطلق مان لیا ہے تو پھر ہر معاملے کو اسی کی طرف لوٹانا بھی لازم ہے۔ کس کو کب اور کتنا ملنا چاہیے ‘یہ اللہ کی مرضی اور فیصلے کا معاملہ ہے۔ اگر اللہ نے کسی کو زیادہ نوازا ہے تو اس کی مرضی اور کم نوازا ہے تو اس کی مرضی۔ جسے کم نوازا گیا ہے‘ وہ اللہ کا شکر گزار ہو تو سمجھ لیجیے کم میں بھی بہت کچھ پالیا۔ جسے بہت نوازا گیا ہے لیکن اگر وہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اُس نے رب کو ناراض کرلیا۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر انسان کو زندگی بہت کچھ دیتی ہے۔ مال و زر بھی‘ اولاد بھی‘ تکریم بھی۔ پھر بھی ہم یہی دیکھتے ہیں کہ جو کچھ مل گیا ہے اُس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے لوگ بس اُسی کو روتے رہتے ہیں جو مل نہ سکا ہو!
جو کچھ نہیں مل سکا ہے اُس کے بارے میں سوچنا‘ کُڑھنا اور اس کے حوالے سے شکوہ سنج رہنا محض دینی نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ خالص دُنیوی نقطۂ نظر سے بھی پسندیدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی بھی اعتبار سے کسی دین کو نہ مانتا ہو تب بھی اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ جو کچھ نہیں ملا ہے اس کے بارے میں کُڑھنے کے بجائے اسے وسعتِ قلب کے ساتھ قبول کرے جو اسے ملا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو سکون سے جی نہیں سکے گا۔ اب آئیے دین والوں کی طرف۔ اگر کسی نے اللہ کو ہر معاملے میں برتر مان ہی لیا ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کی مرضی کے آگے سرِتسلیم خم کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ایمان کو داؤ پر لگا بیٹھے گا۔ اللہ کو خالص ایمان مطلوب ہے‘ ملاوٹ والا نہیں۔ جب انسان اپنے تمام معاملات اللہ کی رضا کے سپرد کردیتا ہے اور رب کے ہر فیصلے کو بلا چوں چرا تسلیم کرتے ہوئے خوشی خوشی جیتا ہے تب اس کیلئے سکینت کا اہتمام ہوتا ہے۔
یہ دنیا اپنی اصل کے اعتبار سے کبھی نہیں بدلی۔ چہرہ بدل جاتا ہے مگر اندر سے سب کچھ ویسا کا ویسا رہتا ہے۔ آج ہر شعبے میں رونما ہونے والی فقیدالمثال پیش رفت کی بدولت ہمیں دنیا کچھ اور ہی دکھائی دے رہی ہے مگر غور کیجیے تو یہ سب کچھ محض چہرہ ہے۔ اندر سے تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ اخلاقی سطح پر تو وہی قباحتیں موجود ہیں‘ جو ہمیشہ رہی ہیں۔ انسان کا لالچ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ مادّی ترقی نے روحانی معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ زندگی کا روحانی پہلو بھی ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اسی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ ظاہر کو سب کچھ جان کر باطن سے صرفِ نظر کی روش اپنالی گئی ہے۔
موت کے واقع ہونے سے پہلے جتنی بھی عمر بچی ہے‘ وہ مہلت ہے۔ اللہ کے شکر گزار ہوکر جینے ہی میں دانائی ہے۔ جو ملا ہے اس پر شکر ادا کیجیے اور جو نہیں مل سکا اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کیجیے۔