آپ نے زندگی بھر بہت سوں کو غیر معمولی کامیابی کے لیے بھرپور تگ و دَو کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ اگر ڈھنگ سے جینا ہے، اپنا کچھ نشان چھوڑ کر جانا ہے تو یہ لازم ہے۔ ہوسکتا ہے آپ نے بھی شاندار کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی محنت کی ہو۔ مگر کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ کسی بھی انسان کو بھرپور کامیابی کے لیے کی جانے والی محنت کو در حقیقت جنگ کی شکل دینا پڑتی ہے؟ جی ہاں‘ جنگ! کامیاب وہی ہو پاتے ہیں جو اپنی جدوجہد کو جنگ کا رنگ دیتے ہیں۔ کسی بھی جنگ میں حصہ لینے کی صورت میں جو جذبہ اختیار کرنا پڑتا ہے اُسی جذبے کے ساتھ کامیابی کے لیے بھی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ اور یہ جنگ ہر حال میں جیتنا ہوتی ہے کیونکہ ہارنے کی صورت میں سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ فتح ہر اعتبار سے مکمل نہ بھی ہو تو بھی کوئی بات نہیں۔ بیشتر بڑے معرکوں میں حاصل ہونے والی کامیابی ہی کو فتح سمجھ کر خوش ہونا پڑتا ہے۔ یہ معاملہ صرف آپ کا نہیں‘ سب کا ہے۔ ہر اعتبار سے مکمل فتح تو کسی کو بھی نہیں ملتی۔ کبھی کبھی فتح قربانیوں کے بقدر نہیں ہوتی مگر اُسی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی انسان کو بھرپور کامیابی کے لیے کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ایک محاذ ہے لیاقت اور مہارت کا۔ اس محاذ پر زیادہ متوجہ رہنا پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں جو چیز بِک رہی ہو وہی آپ کو بھی پیش کرنا پڑتی ہے۔ جو لیاقت اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہی آپ کو اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہ بات اِتنی آسان ہے کہ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اِتنی آسان سی بات بہت سوں کی سمجھ میں زندگی بھر نہیں آتی! اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ سستی اور تذبذب کے علاوہ اَنا کا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ذہن میں یہ خیال گھر کر جائے کہ بہت کچھ سیکھ لیا ہے، اب مزید کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں تو سمجھ لیجیے جی چکے اور ہوچکے آپ کامیاب۔
ایک محاذ محنت کا ہے۔ اس محاذ پر لوگ فعال تو رہتے ہیں مگر پورے من سے فعال رہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ اول تو لوگ اُتنی محنت نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے اور پھر یوں بھی ہے کہ جس طور محنت کرنی چاہیے اُس طور محنت نہیں کی جاتی۔ جہاں‘ جس وقت محنت کی جانی چاہیے وہاں اور اُس وقت محنت سے کترانے کی روش بھی عام ہے۔ لوگ محنت بھی اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ محنت ہمیشہ صورتِ حال کے تقاضوں کے تحت کی جاتی ہے۔ اِس میں کسی بھی انسان کی مرضی ایک خاص حد تک ہی چل سکتی ہے اور وہ حد بہت جلد ہی آجاتی ہے۔
جنہیں شاندار کامیابی یقینی بنانا ہو اُنہیں اپنی فکری ساخت یا نفسی ڈھانچے سے بہت کچھ کھرچ کر پھینکنا پڑتا ہے۔ بہت سی بری عادتوں کو ترک کیے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے کی جانے والی محنت ہم سے محض توجہ اور محنت نہیں چاہتی بلکہ اس امر کی بھی متقاضی رہتی ہے کہ ہم فضول معاملات سے گریز کریں، قبیح عادتیں ترک کریں اور ہر اُس عادت کو بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اپنائیں جو کامیابی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کے ظاہری معاملات کو دیکھ کر بھی آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ وقت ضائع نہیں کرتے، کمائی فضول کاموں پر نہیں لُٹاتے، آسرے پر نہیں رہتے یعنی جو کچھ بھی کرنا ہو اپنے بل پر کرتے ہیں، کسی کی مدد سے نہیں کتراتے؛ تاہم اُسے زندگی بھر پالنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے، کسی کی مدد اِس طور کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور آئندہ مشکل گھڑی میں مدد مانگنے سے گریز کرے۔ کامیاب انسانوں سے آپ اور بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کامیابی کے لیے بھرپور جدوجہد کا آغاز کرتے وقت یہ نکتہ ہر نوجوان کے ذہن میں کیل کی طرح ٹُھنکا ہونا چاہیے کہ یہ جنگ ہے اور اپنے ہی خلاف لڑنی ہے اور اپنے آپ سے جیتنا بھی ہے۔ ایک طرف ماحول ہے اور دوسری طرف آپ خود۔ آپ ماحول سے جیت سکتے ہیں؟ کیوں نہیں؟ بہت سوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ماحول سے جیت جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ساری محنت مٹی میں مل جاتی ہے‘ کیونکہ اس کے بعد وہ اپنے آپ سے ہار جاتے ہیں! اپنے آپ سے شکست کھا جانا؟ یہ کیا بات ہوئی؟ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ کا اپنا وجود آپ سے بغاوت پر تُلا رہتا ہے۔ کبھی اُسے بہلا پھسلاکر رام کرنا پڑتا ہے اور کبھی اُس کے خلاف کھڑا ہونا پڑتا ہے، طبلِ جنگ بجاکر باضابطہ لڑنا پڑتا ہے۔
کم و بیش ہر انسان کے لیے ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو اُسی کے خلاف جارہا ہوتا ہے۔ بعض خیالات، بعض عقائد، بعض اعمال اور بعض رویے انسان کو قدم قدم پر روکتے ہیں، راستے کی دیوار بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذہن ماحول سے بہت کچھ قبول کر رہا ہوتا ہے۔ جو کچھ بھی ذہن میں داخل ہوتا ہے یعنی فکری ساخت یا نفسی ڈھانچے کا حصہ بنتا ہے وہ ایک طرف پڑا نہیں رہتا بلکہ اُس کا کوئی نہ کوئی اثر مرتب ہو رہا ہوتا ہے۔ مثبت اثرات کم ہوتے ہیں اور کمزور بھی۔ منفی اثرات زیادہ اور طاقتور ہوتے ہیں۔ اُنہی کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ ایک طرف آپ کامیاب لوگوں کو دیکھ کر بھرپور محنت کرنے کا جذبہ اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دوسری طرف آپ ہی کا ذہن محض حسنِ اتفاق سے کامیاب ہو جانے والوں کی مثال پیش کرکے آپ کو لیاقت و مہارت کے اظہار اور بھرپور محنت بروئے کار لانے کی روش سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے! جو ذہن آپ کو محنت کا جذبہ اپنانے کی تحریک دیتا ہے وہی آپ کو تن آسانی (کاہلی) کی طرف بھی مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے! ذہن کے اِس تضاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں وہ بہت تیزی سے ذہن کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔
جب کوئی بھی انسان بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب اُسے اپنی ذات کے محاذ کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ذات کے محاذ پر بھی لڑنا پڑتا ہے۔ آپ کو لیاقت و مہارت کے اظہار اور محنت کو بروئے کار لانے کی راہ سے بھٹکانے والوں کی ماحول میں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ جو زندگی کی دوڑ میں کچھ دور تک دوڑنے کے بعد ہی تھک ہار کر بیٹھ چکے ہوں، ہتھیار ڈال چکے ہوں وہ آپ کو بھی ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ کبھی کوئی جان بوجھ کر آپ کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتا مگر لاشعور یا تحت الشعور کی سطح پر اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ آپ ہتھیار ڈال دیں۔ یہ ہے آپ کی اصلی جنگ۔ ایک طرف تو آپ کو ماحول کے خلاف لڑنا ہے اور دوسری طرف اپنے ہی خلاف شمشیر بکف رہنا ہے۔
آپ کو کامیابی کی راہ سے ہٹانے والے کسی بھی ماحول میں کم نہیں ہوتے۔ جو خود کامیاب نہ ہوسکے ہوں وہ دوسروں کو بھی کامیابی کی راہ پر گامزن دیکھنا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اُن کی نادانستہ ہی سہی‘ یہ کوشش ہوتی ہے کہ آپ بھی اُن کی صف میں شامل ہوں یعنی کچھ کرنے، کچھ پانے کا خیال ذہن سے جھٹک دیں۔ کوئی کیا کہہ رہا ہے یہ دیکھنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بھرپور کامیابی کے لیے آپ کو جو کچھ کرنا چاہیے وہ آپ کر رہے ہیں تو پھر زیادہ تردّد پالنے کی ضرورت نہیں۔ محنتِ شاقّہ کی راہ پر گامزن رہیے۔
کامیابی کے لیے محض تگ و دَو کافی نہیں، لڑنا بھی پڑتا ہے۔ ویسے تو خیر آپ کے بہت سے دشمن ہوسکتے ہیں مگر بھرپور لڑائی کے لیے دشمن کی تلاش میں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا اصل دشمن تو آپ کے اندر ہے۔ کامیابی کی لڑائی اپنے ہی وجود کے خلاف ہوتی ہے۔ آپ کا اپنا وجود سب سے پہلے آپ کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ ماحول بہت کچھ دیتا ہے اور وہ سب کچھ آپ کی نفسی ساخت سے چمٹ کر رہ جاتا ہے۔ اچھی باتوں کو محض ذہن تک نہیں رہنے دینا، سینے سے بھی لگانا ہوتا ہے۔ اور بری باتوں سے پنڈ چھڑانا ہی پڑتا ہے۔ یہی اصل جنگ ہے جو آپ کو ہر حال میں جیتنی ہے۔