"MIK" (space) message & send to 7575

’’مثال‘‘ اور ’’سبق‘‘ کے مرحلے سے آگے

کسی بھی انسان کو کس بنیاد پر یاد رکھا جاتا ہے؟ محض صلاحیت کی بنیاد پر؟ یا محنت کی بنیاد پر؟ شہرت کی بنیاد پر یا افادیت کی بنیاد پر؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو صرف کامیابی کی بنیاد پر یاد رکھا جاتا ہے۔ کامیابی کے لیے محنت سبھی کرتے ہیں مگر سب کامیاب ہوں یہ لازم نہیں! کبھی کبھی انسان کا بظاہر کوئی قصور نہیں ہوتا نہ وہ کوئی بڑی غلطی کرتا ہے مگر پھر بھی، محض حالات کے پلٹ جانے سے، ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کسی ٹھوس جواز کے بغیر بھی کامیابی مل جاتی ہے۔ جو کامیاب ہو جائے وہی لوگوں کو یاد رہتا ہے، پھر چاہے اُس نے برائے نام ہی محنت کیوں نہ کی ہو۔ اگر کسی نے متعین ہدف کے حصول کے لیے اپنے آپ کو پوری طرح کھپا بھی دیا ہو مگر کامیاب نہ ہو پایا ہو تو لوگ اُس کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے۔ اُسے سراہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ کسی بھی مقابلے کے لیے محنت ہر فریق نے کی ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو کامیاب ہونا ہی ہوتا ہے۔ تو کیا ہارنے والے فریق کو مکمل طور پر فراموش کردیا جانا چاہیے؟ ہوسکتا ہے کسی اور دنیا میں ہارنے والوں کو بھی، حقیقت پسندی کے مظہر کے طور پر، یاد رکھا جاتا ہو مگر ہماری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں صرف اُسی کے گُن گائے جاتے ہیں کامیابی نے جس کے پیر چومے ہوں۔
ویسے یہ بات ہے بہت عجیب کہ کسی مقابلے میں آخری لمحے تک میدان نہ چھوڑنے والے کو ناکام ہونے پر بھلادیا جائے، نظر انداز کردیا جائے۔ حقیقی فتح تو وہ ہوتی ہے جس میں فاتح اپنی صلاحیت، مہارت اور مشقّت سے مفتوح کو واضح طور پر بہت پیچھے چھوڑ دے۔ کسی کرکٹ میچ میں آخری بال پر فیصلہ ہو تو ہارنے والی ٹیم کے لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُسے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عبرت ناک شکست تو یہ ہے کہ کسی ٹیم نے پچاس اوورز میں 350 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف دیا ہو اور مخالف ٹیم یہ ہدف 45 اوورز میں حاصل کرلے۔ معاشرے کا عمومی چلن یا مزاج یہ ہے کہ کسی کو اُس کی بھرپور محنت کی کماحقہٗ داد نہ دی جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے محنت کی داد سے بڑھ کر کوئی بھی صلہ یا معاوضہ نہیں ہوسکتا۔ جو بھی محنت کرتا ہے وہ صرف اِس بات کا منتظر رہتا ہے کہ کوئی سراہے، قدر کی نگاہ سے دیکھے۔ عمومی سطح کی محنت پر بھی انسان داد چاہتا ہے۔ اور خصوصی معاملات میں؟ علم و فن کی خاطر محنت کرنے والے تو خصوصی طور پر داد کے طالب رہتے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرنے والوں کو تو داد ہی کی طلب رہتی ہے۔
جہاں تک یاد رکھے جانے کا معاملہ ہے، کیا صرف کامیاب لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو یاد رکھا جائے گا؟ یقینا۔ کیا ناکام ہونے پر بھی؟ بالکل‘ سو فیصد۔ دنیا کے ہر انسان کو یاد رکھا جاتا ہے۔ جو مکمل ناکام رہے ہوں اُنہیں بھی کم ہی لوگ بھولتے ہیں۔ کامیاب اور ناکام انسانوں کو یاد رکھنے کے انداز اور طریق میں البتہ فرق پایا جاتا ہے۔ کامیابی سے ہم کنار ہونے والے مثال بن کر زندہ رہتے ہیں۔ بات بات پر اُن کا ذکر مثال کے طور پر کیا جاتا ہے۔ کسی کو کچھ کرنے کی تحریک دینی ہو، کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنا ہو تو کامیاب ترین افراد کی مثال دی جاتی ہے، اُن جیسا بننے پر زور دیا جاتا ہے۔ جو لوگ کرکٹ کی دنیا میں نام کمانا چاہتے ہیں اُن کے سامنے بڑے اور کامیاب کرکٹر مثال کی صورت کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی حال دوسرے شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات کا ہے۔ اُنہیں بھی مثال کی حیثیت سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ کسی بھی شعبے میں نام کمانے کا ہر خواہش مند اُس شعبے کی نمایاں ترین شخصیات کی طرف دیکھتا ہے اور جو شخصیات کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہوں وہی نمایاں ہوتی ہیں۔ اُن سے زیادہ نمایاں ہو بھی کون سکتا ہے؟ ہر ناکام انسان کو ''سبق‘‘ کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ جن کی مساعی لاحاصل رہی ہوں اُن کی لیاقت اور محنت کے بارے میں سوچنے اور اُنہیں کسی نہ کسی حد تک سراہنے کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہیں دیکھ کر سیکھئے کہ ناکامی سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے!
ایسا نہیں ہے کہ صرف پاکستان جیسے معاشرے میں صرف کامیاب لوگوں کو احترام اور رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اُن کا گرویدہ ہوا جاتا ہے۔ کامیاب یعنی ترقی یافتہ معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی ناکام رہ جانے والوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اُن کا ذکر کرنا بھی ہو تو سبق کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ نئی نسل کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو، وہ اپنی جن غلطیوں سے ناکام رہے، تم ویسی غلطیاں نہ کرنا۔ اُنہیں محنت کا کریڈٹ نہیں دیا جاتا۔ نئی نسل کو سکھانے کا یہ طریق بالکل غلط ہے۔ کسی بھی انسان کی کامیابی میں کئی افراد کی محنت کا دخل ہوتا ہے۔ کسی کرکٹ میچ میں اگر کسی کھلاڑی نے بڑی اننگز کھیل کر ٹیم کو فتح دلانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہو تب بھی چند کھلاڑیوں کے نسبتاً چھوٹے کردار بھی ایسے نہیں ہوتے کہ بھلادیے جائیں، نظر انداز کردیے جائیں۔ ٹیم کو ملنے والی کامیابی میں کسی ایک کھلاڑی کو سارا کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کسی فٹبال میچ میں کسی کھلاڑی نے دو گول کرکے اپنی ٹیم کو صفر کے مقابلے میں دو گول سے فتح دلائی ہو تب بھی فاتح ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے مخالف ٹیم کے کئی تابڑ توڑ حملوں کو دل جمعی سے ناکام بنایا ہو اور گول کرنے والے کھلاڑی کو اچھے پاس دے کر فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہو۔ اِسی طور فاتح ٹیم کے گول کیپر نے جو گول روکے ہوں اُنہیں بھی شمار کیا جانا چاہیے۔ گول کسی ایک کھلاڑی ہی کو کرنا ہوتا ہے؛ تاہم اُسے گول کرنے کا موقع فراہم کرنے میں کئی کھلاڑیوں کا کردار ہوتا ہے۔ اِس کردار کو نظر انداز کرنا زیادتی ہے۔
کامیاب ہونا نہ ہونا بعد کا معاملہ ہے۔ پہلا مرحلہ ہے کسی بھی چیز کے حصول کا ارادہ۔ عزم اگر مصمّم ہو تو انسان بہت کچھ کرسکتا ہے اور کرتا ہی ہے۔ عزم پختہ ہو تو محنت کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اگر کسی نے پورے اخلاصِ نیت کے ساتھ محنت کی ہو، کسی کو دھوکا دے کر کامیابی یقینی بنانے کے بارے میں نہ سوچا ہو اور اپنی صلاحیت و سکت کو آخری درجے تک بروئے کار لانے کی کوشش کی ہو تو ستائش پر اُس کا پورا حق ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے چند شخصیات ہیرو کا درجہ رکھتی ہیں مگر بالعموم اُنہیں بھلادیا جاتا ہے جنہوں نے اُن ہیروز کو ہیرو بننے میں قابلِ ذکر حد تک مدد دی ہو۔ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ہر انسان کو ناکام تصور نہیں کرنا چاہیے۔ ناکامی کا لیبل ہر حال میں چسپاں کیا جانا لازم نہیں۔
کسی بھی ٹیم میں ہر رکن اہم ہوتا ہے۔ اُس کی لیاقت اور محنت کا اعتراف کیا جانا چاہیے، اُسے سراہنا چاہیے۔ قوم کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ کچھ لوگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کچھ مالدار ہوتے ہیں۔ کچھ زیادہ شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔ اُنہیں شمع گردان کر اُن کے گرد پروانوں کی طرح منڈلانا اُن سب سے نا انصافی ہے جو جاں گُسل محنت کے مرحلے سے گزرنے پر بھی زیادہ کامیاب نہ رہے ہوں۔ کسی کی عظمت کو محض کامیابی و ناکامی کے پیمانے سے جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ یہ دیکھنا لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو کہاں تک بروئے کار لایا۔ کامیابی کے پائیدان پر نیچے رہ جانے والوں کو بھی سراہا جائے تو نئے آنے والوں کو محنت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کسی بھی انسان کو پرکھنے کا حقیقی معیار اُس کی لیاقت اور محنت ہے نہ کہ محض کامیابی۔ سنیما ہال کی سکرین پر ہمیں ہیرو، ہیروئن اور دیگر کردار دکھائی دیتے ہیں۔ ہم اُنہیں تو سراہتے ہیں مگر ڈائریکٹر، سکرپٹ رائٹر، سنیماٹو گرافر، موسیقار، نغمہ نگار، کوریو گرافر، لائٹ مین، سیٹ ڈیزائنر، ڈریس مین اور فلم کے یونٹ میں شامل اُن دیگر تمام افراد کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کی محنت ہی نے فلم کو کامیابی سے ہم کنار کیا ہوتا ہے۔ کسی کو مثال بنایا جائے یا سبق، احترام اور ستائش لازم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں