"MIK" (space) message & send to 7575

سب ضرورت کا کھیل ہے

جو لوگ دین کے معاملے میں عمومی معلومات کے حامل ہوں اور باقاعدگی سے کی جانے والی عبادات سے ہٹ کر دین کو کچھ زیادہ نہ سمجھ پائے ہوں وہ جب مفسرین، محدثین، فقہا، علما اور شارحین کی کتب پڑھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ اپنی ذہنی کم مائیگی کا احساس تو ہوتا ہی ہے، اِس سے کہیں بڑھ کر انہیں اِس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جن باتوں کو دین سمجھا جارہا تھا دین تو اُن سے کہیں آگے کا معاملہ ہے۔ دینی کتب میں مختلف مسائل پر مباحث پڑھنے والوں کو کبھی کبھی یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اِسی دین کے پیرو ہیں کیونکہ عمومی سطح پر انسان ان معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا اور کامل ایمان کے ساتھ جینے کے جتنے بھی تسلیم شدہ معیارات ہیں اُنہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ جب مستند کتب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تب اندازہ ہوتا ہے ہم دین کے کتنے محدود تصور کے ساتھ جی رہے تھے۔ جب بھی ہم کسی معاملے کو سرسری لیتے ہیں تب اُس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہونے کی صورت میں عجیب سی اجنبیت کا احساس ہوتا ہی ہے۔ عملی زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ عمومی سطح پر جینے والوں کی سوچ بھی سطحی ہوتی ہے اور تصورات بھی اُتھلے پانیوں جیسے ہوتے ہیں۔ سرسری انداز سے جینے میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ زندگی کو درکار سنجیدگی بالعموم پیدا نہیں ہو پاتی اور ہم اپنا وقت بری طرح ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ اِس راہ پر گامزن رہیے تو بہت جلد وہ وقت بھی آ ہی جاتا ہے جب وقت کے ضیاع کا احساس ہی دم توڑ دیتا ہے۔
عملی زندگی بے مہری بلکہ سفاکیت کی حد تک غیر جانب دار ہوتی ہے۔ خالص عقلی بنیاد پر سوچنے والوں کے رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتے ہیں۔ مؤثر عملی زندگی کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی سوچ دراصل حقیقت پسندی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم عمومی سطح پر محض جذبات کے ماتحت رہتے ہوئے یعنی خالص غیر عقلی انداز سے سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اِس طرزِ فکر میں لچک بھی ہوتی ہے اور تساہل پسندی بھی۔ ہم بہت سے معاملات میں غیر ضروری اور لاحاصل قسم کے سمجھوتے بھی کرتے رہتے ہیں۔ عمومی سطح پر ہم سب کی‘ تحت الشعور کی سطح پر ہی سہی‘ ایک بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ درکار ہے اُس سے کم پر گزارہ کرلیا جائے۔ تساہل پسندی اور زبردستی کی سمجھوتے بازی کے باعث کہیں ہم ڈنڈی مار رہے ہوتے ہیں اور کہیں دوسروں کی ماری ہوئی ڈنڈی برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ غیر اعلانیہ رضامندی کے تحت ہوتا ہے۔
کیا اِس طور زندگی کو بارآور بنایا جاسکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب صرف نفی میں ہی ہوسکتا ہے۔ زندگی حقیقی مفہوم میں بارآور اُسی وقت بن سکتی ہے جب ہم خالص حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنے کی عادت ڈالیں۔ جو کچھ بھی سوچنا اور کرنا ناگزیر ہو وہ سوچنا اور کرنا ہی چاہیے۔ یہ زندگی کے لوازم میں سے ہے۔ زندگی بہت حد تک لین دین کا نام ہے۔ ایرک برنے (Eric Berne) کا شمار اُن اہلِ علم و فن میں ہوتا ہے جنہوں نے دُنیا کی بہتر تفہیم کے حوالے سے کام کیا اور لاکھوں افراد کو خالص حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنا سکھایا۔ ایرک نے نفسی امور کے شعبے میں غیر معمولی تحقیق کی بنیاد پر ''ٹرانزیکشنل اینیلسز‘‘ (Transactional Analysis)کا تصور دیا۔ اُن کا استدلال تھا کہ اِس دنیا میں کچھ بھی مجرد نہیں یعنی کوئی بھی معاملہ کسی غایت کے بغیر نہیں۔ یہ کائنات عِلّت و معلول کے اصول کی بنیاد پر قائم و اُستوار ہے۔ ہر عمل کا کوئی نہ کوئی سبب اور کوئی نہ کوئی نتیجہ ہوتا ہے۔ ٹرانزیکشنل اینیلسز کی بنیاد پر ایرک نے ''گیمز پیپل پلے‘‘ (Games People Play) جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی۔ اِس کتاب کے ذریعے اُنہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زندگی کا ہر معاملہ در حقیقت لین دین کی بنیاد پر ہوتا ہے یعنی ہم کچھ لیتے اور کچھ دیتے ہیں۔ خالص عقل پرستی کے نقطۂ نظر سے لکھی گئی اِس کتاب پر اچھی خاصی تنقید بھی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی بھی بات، کوئی بھی عمل عِلّت و معلول کے دائرے سے باہر نہیں۔ ہم عبادات بھی بلا سبب نہیں کرتے۔ عبادت کے ذریعے ہم اُس کی رضا چاہتے ہیں۔ کسی سے محبت بھی کسی نہ کسی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ کسی کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہمیں اُس سے اپنی کوئی نہ کوئی غرض پوری کرنی ہو۔ لازم نہیں کہ وہ غرض مال سے تعلق رکھتی ہو۔ کسی سے ملنے کو جی چاہ رہا ہو تو یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم تھوڑا اچھی طرح گزارنے کے لیے اُس کے پاس جائیں۔ فکر و عمل کا ہر زاویہ لازمی طور پر مال سے نتھی نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا! لین دین کا لازمی مفہوم یہ نہیں کہ مال لیا یا دیا جائے۔ یہ معاملہ اخلاص اور جذبات پر مبنی بھی ہوسکتا ہے۔ جب تک زندگی ہے تب تک میل جول ہے۔ کسی سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے، کسی سے سرسری سا۔ کسی کو ہم اپنے قریب جانتے ہیں۔ کسی کو بہت قریب۔ کسی کو ہم اپنا سمجھتے ہیں اور کسی کو پیارا۔ خالص عملی سطح پر یعنی تعقل پسندی کے نقطۂ نظر سے کوئی اپنا ہوتا ہے نہ پیارا۔ سب ضرورت کا کھیل ہے۔ جی ہاں! حقیقت پسندی کی عینک لگاکر معاملات کا جائزہ لیجیے تو ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی ضرورت دکھائی دے گی۔ انسان اپنے رب کے ساتھ ساتھ ضرورتوں اور خواہشوں کا بھی تو بندہ ہے! اس دائرے میں گھومتے ہوئے ہی وہ زندگی بسر کرتا ہے۔
کیا ضرورت مند ہونا بُری بات ہے؟ کسی بھی درجے میں نہیں! ضرورت مندی کی بنیاد ہی پر تو یہ دنیا چل رہی ہے۔ ضرورتیں نہ ہوں تو لوگ ایک دوسرے سے غیر متعلق ہو رہیں۔ پھر کسی کو کسی سے لگاؤ بھی نہ ہو۔ یہ ضرورتیں ہی تو ہیں جو انسانوں کو جوڑے ہوئے ہیں۔ ضرورتوں کو پورا کرنے کا عمل ہی زندگی سے عبارت ہے۔ ضرورت مند ہونا بُرا ہے نہ ضرورت پوری کرنا۔ سوال صرف منطقی حدود و قیود کا ہے۔ ضرورت بلا جواز طور پر شدید نہیں ہونی چاہیے۔ خالص عملی زندگی میں جذبات چلتے ہیں نہ احساسات۔ عملی زندگی صرف اور صرف لین دین کا نام ہے۔ جہاں خالص عقل درکار ہو وہاں جذبات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جو شخص کچھ بیچنے نکلا ہے وہ کسی کی خاطر اپنے منافع کا کچھ حصہ تو چھوڑ سکتا ہے مگر منافع سے مکمل طور پر دست بردار نہیں ہوسکتا۔ ایسا کرنا عقل کے خلاف ہے۔ کسی اپنے کے لیے کچھ کرنا اور بات ہے۔ انسان ضرورت محسوس ہونے پر کسی کی مدد بھی کرتا ہے مگر خالص کاروباری سوچ بالکل مختلف ہوتی ہے۔ سوال تنگ دِلی یا تنگ نظری کا نہیں، عملی سوچ کا ہے۔ عملی سوچ معاملات کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا سکھاتی ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان میں آپ کو حقیقت پسندی کا گراف خاصا اونچا ملے گا۔ حقیقت پسندی کو ایک ناگزیر وصف کی حیثیت سے اپنائے بغیر کوئی حقیقی مفہوم میں کامیاب ہو بھی نہیں سکتا۔
ضرورت کے کھیل کو بُرا سمجھنا لازم نہیں۔ ہم عمومی سطح پر چونکہ غیر حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنے کے عادی ہیں اِس لیے جب بھی کوئی حقیقت پسندی کی حدود میں رہتے ہوئے بات کرتا ہے تو ہمیں بہت حیرت ہوتی ہے اور تھوڑی سی اجنبیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی بات ہوتی بالکل درست ہوتی ہے اور ہم یہ مان بھی رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اُس بات کو ہضم کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ہمارا فکری ڈھانچا بہت سے معاملات کو قبول کرنے کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر ہماری فکری تربیت ڈھنگ سے نہ ہوئی ہو تو ہم بہت سے معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بھی قبول نہیں کر پاتے۔ اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے معاشرے سے سفاکی کی حد تک لاتعلق رہنا اور تنگ دِلی و تنگ نظری کے دائرے میں گھومتے ہوئے صرف اپنے معاملات تک محدود رہنا لازم نہیں۔ خالص تعقل پسندی یہ ہے کہ انسان ہر معاملہ وہاں رکھے جو اُس کا حقیقی اور جائز مقام ہے۔ زندگی کچھ لیتے اور کچھ دیتے گزرتی ہے۔ یہ ضرورت کا کھیل ہے، اور کچھ نہیں۔ ضرورت مند ہونے یا کسی کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ قباحت اگر ہے تو اِس سوچ میں کہ ضرورتوں کا ہونا خرابی پیدا کرتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں