ہمارے شعرا نے کوئی میدان چھوڑا نہیں۔ ہر دشت اور ہر بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑائے ہیں۔ مستند شعرا کی تو خیر بات ہی کچھ اور ہے، فلمی شعرا بھی پیچھے نہیں رہے۔ 1963 کی فلم ''تیسری قسم‘‘ میں راج کپور پر شیلیندر کا لکھا ہوا ایک گیت فلمبند کیا گیا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر بھی شیلیندر ہی تھے۔ گیت مکیش کمار ماتھر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ گیت کیا تھا، نئی نسل کے لیے خصوصی طور پر اور تمام انسانوں کے لیے عمومی طور پر ایک پیغام تھا، چھوٹا سا نصیحت نامہ تھا۔ گیت کچھ یوں تھا ؎
سجن رے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے
تمہارے محل چوبارے یہیں رہ جائیں گے سارے
اکڑ کس بات کی پیارے، یہ سر پھر بھی جھکانا ہے
بھلا کیجے بھلا ہوگا، بُرا کیجے بُرا ہوگا
وہیں لکھ لکھ کے کیا ہوگا، یہیں سب کچھ چکانا ہے
لڑکپن کھیل میں کھویا، جوانی نیند بھر سویا
بڑھاپا دیکھ کر رویا، وہی قصہ پُرانا ہے
واہ کیا بات ہے! کیا ہے جو اِس گیت میں نہیں؟ سبھی کچھ تو بیان کردیا گیا ہے اور وہ بھی سادہ زبان میں۔ شہری بھی سمجھے، دیہاتی بھی سمجھے۔ ڈاکٹر، پروفیسر بھی سمجھ لیں اور پھل بیچنے والا بھی سمجھ لے۔ ایک دور تھا کہ فلم میکرز گیتوں کے ذریعے کوئی نہ کوئی پیغام دینا بھی ضروری سمجھتے تھے۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ لوگ جب فلم دیکھ کر ہال سے نکلیں تو اُن کے ذہن میں کوئی پیغام ہو، زندگی کو نئے زاویوں سے رُوشناس کرانے کا عزم ہو۔ خیر‘ یہ تو ثانوی معاملہ تھا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں فضول اکڑ کسی کام کی نہیں ہوا کرتی۔ کسی بھی انسان کے تمام معاملات کو مٹی میں ملانے والے عوامل میں اُس کا مزاج سرِفہرست رہتا ہے۔ اور مزاج میں بھی اکڑ زیادہ ہو تو سمجھ لیجیے ہو چکا کام۔ یہ اکڑ ہی تو ہے جو انسان کو اچھے خاصے ماحول سے نکال کر لایعنی معاملات کی دلدل میں دھنسادیتی ہے۔
کسی بھی انسان میں اکڑ کیوں ہوتی ہے؟ یہ خالص فطری معاملہ ہے یا انسان کا کچھ عمل دخل بھی ہے؟ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر ''اکڑو‘‘ ہوتے ہیں یعنی اُن میں فطری طور پر کچھ نہ کچھ اکڑ ہوتی ہے۔ یہ اکڑ بلا جواز ہوتی ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں کسی ٹھوس جواز کے بغیر اکڑ دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اِن کے ذہنوں میں یہ بات نصب ہوچکی ہوتی ہے، کِلّے کی طرح گڑ چکی ہوتی ہے کہ اکڑنے سے بات بن جائے گی، کام ہو جائے گا۔ کبھی کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ کوئی کوئی معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ اکڑ دکھانے سے درست ہو رہتا ہے مگر یہ کوئی تسلیم شدہ اصول نہیں کہ ہر معاملہ صرف اکڑ دکھانے سے درست ہو گا۔ انسان کو صورتِ حال سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا پڑتی ہے۔
ہر شعبے میں ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے موزوں موقع پر اکڑ دکھائی تو کامیاب رہا اور بے موقع اکڑ دکھانے سے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ شوبز میں یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ راتوں رات ملنے والی شہرت اور دولت انسان کو بدل ڈالتی ہے۔ جب ذہن میں کجی پیدا ہو جائے تو مشکل سے دور ہوتی ہے۔ پرستاروں کی تعداد زیادہ ہو تو انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا اُس کی مٹھی میں ہے۔ یہ کیفیت انسان کو بالعموم خرابی کی طرف لے جاتی ہے کیونکہ وہ رفتہ رفتہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اپنے پورے شعبے کو وہی چلا رہا ہے! ذہن میں یہ تصور راسخ ہوتا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ کم و بیش عقیدے کی شکل اختیار کرلیتا ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو اُس کا شعبہ ہی دم توڑ دے، کچھ نہ کر پائے!
شیطان ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ انسان خرابیوں کی طرف بڑھنے کا مزاج رکھتا ہے تو اُس کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ خرابیوں کو شیطان اچھائیوں کے روپ میں پیش کرتا ہے اور انسان کو ورغلاتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اُس کے اپنے دم قدم سے ہے، کسی اور کا کوئی کردار نہیں تو پھر کیوں نہ اکڑ دکھائی جائے، دوسروں کو جوتے کی نوک پر رکھا جائے۔ ابلیس کے اس داؤ کو سمجھنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی گمان کربیٹھتے ہیں ایسے لوگ بالآخر خسارے کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ شیطان اُنہیں بہلا پھسلاکر خرابیوں کی طرف لاتا ہے اور پھر بیچ چوراہے پر اُن کی ہنڈیا پھوڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔
شوبز میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بھرپور کامیابی کے دور میں کسی نے اکڑ دکھائی، لوگوں کو پریشان کیا اور جب شہرت کا سورج غروب ہونے پر مائل ہوا تو لوگوں نے پوچھنا تو درکنار‘ دیکھنا بھی چھوڑ دیا۔ اگر کوئی کسی جواز کے بغیر اکڑ دکھا رہا ہو تو اُس کے بُرے وقت میں لوگوں کا دور ہٹنا کسی بھی درجے میں کوئی حیرت انگیز امر نہیں۔ جس طور اکڑنا بلا جواز ہوتا ہے بالکل اُسی طور اچھا وقت گزر جانے کے بعد نظر انداز کیے جانے پر ملول ہونا بھی بلا جواز ہی ہوتا ہے۔ اچھے وقت میں اکڑ دکھاتے وقت یہ احساس نہیں رہتا کہ مشکل گھڑی میں لوگ کسی نہ کسی طور انتقام ضرور لیں گے۔ نظر انداز کرنا بھی انتقام لینے ہی کی ایک شکل ہے۔ مثالی نوعیت کی شہرت سے ہم کنار رہنے والوں سے گم نامی سے دوچار ہونا کسی بھی درجے میں ہضم نہیں ہو پاتا۔ جو شاخ جھکنا نہیں جانتی وہ ٹوٹ جایا کرتی ہے۔ درختوں کو دیکھ کر سیکھئے کہ ہوا تیز چل رہی ہو تو تمام شاخیں جھومنے‘ لہرانے لگتی ہیں۔ یہ نتیجہ ہے لچک کا۔ لچک ہوتی ہے تو ہر شاخ جھوم کر خود کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔ انسانوں کا بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ جب وہ حالات کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے فضول اکڑ دکھاتے ہیں تو ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر انسان کو صورتِ حال کے مطابق تبدیل ہونے‘ لچک دکھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
عزتِ نفس کا احساس بڑی دولت بلکہ نعمت ہے۔ یہ نعمت جنہیں عطا کی جاتی ہے وہ اپنی جائز بات منوانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ اس مغالطے کا شکار رہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں اکڑ دکھانے سے بات بن ہی جائے گی۔ جہاں معاملہ اصول کا ہو اور لوگ محسوس کریں کہ آپ غلطی پر نہیں وہاں آپ کا مؤقف پر ڈٹ جانا لوگوں کو زیادہ نہیں کَھلتا۔ ٹھوس جواز کے بغیر اپنی بات پر اَڑنا کسی بھی درجے میں مستحسن نہیں۔ معقولیت کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ انسان صورتِ حال کی مناسبت سے اپنے موقف اور طرزِ عمل میں لچک پیدا کرے۔ غیر ضروری طور پر اکڑنا انسان کو سب کی نظر میں بُرا بنادیتا ہے۔ ہر اُس انسان کو آسانی سے قبول کرلیا جاتا ہے جس کے مزاج میں نرمی پائی جاتی ہے۔ مزاج کی نرمی انسان کو سب کے لیے مفید بننے میں مدد دیتی ہے۔ ہر انسان گوناگوں صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر بہت سوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہو پاتا ہے یا نہیں۔ جب انسان کو اپنے وجود سے رُوشناس ہونے کا موقع ملتا ہے تب امکانات کے دریچے کھلتے ہیں۔
عمل کی دنیا میں شعور کا سکّہ چلتا ہے۔ تعقل ناگزیر وصف ہے۔ معاملات کو درست رکھنے کے لیے معقول رویہ اپنانا لازم ہے۔ بلا جواز اکڑ معاملات کو صرف خرابی کی طرف لے جاتی ہے اور ایسے میں امکانات بھی معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمل کی دنیا میں حقیقت پسندی کا چلن عام ہے۔ جو حقیقت پسندی کو ناگزیر وصف کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا اور نہیں اپناتا وہ اپنی راہیں خود ہی مسدود کرتا ہے۔ کامیاب انسانوں میں ایک خاص قسم کی اکڑ کا پایا جانا فطری امر ہے۔ جب انسان بھرپور محنت کے نتیجے میں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر کچھ بنتا ہے تب تھوڑا بہت تفاخر تو بنتا ہے۔ ہاں‘ اِس دریا میں زیادہ بہنے کی صورت میں کناروں سے بہت دور جا نکلنے کا احتمال رہتا ہے۔