آج زندگی کی ہماہمی کچھ ایسی ہے کہ انسان کو کچھ احساس ہی نہیں کہ شخصیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہر انسان حیوانی جبلت کا حامل ہے یعنی دیگر تمام حیوانات کی طرح اُسے بھوک بھی لگتی ہے اور رفعِ حاجت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ انسان کو بھی دیگر تمام مخلوقات کی طرح نیند آتی ہے اور نیند پوری ہونے پر وہ تازہ دم ہوکر اپنے کام میں جُت جاتا ہے۔ یہاں تک تو معاملہ حیوانوں والا ہی ہے مگر صاحب! انسان حیوانِ عاقل و ناطق بھی تو ہے۔ اُسے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ وہ جو کچھ سمجھتا ہے اُسے بیان کرنے کی صلاحیت کا بھی تو حامل ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھتا ہے، مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔ دیگر مخلوقات کو اِس ذمہ داری سے دور رکھا گیا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے ایک اہم مرحلہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور تہذیب و تطہیر کا بھی تو ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم زندگی بھر بہت کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ صفت یا عمل ہمارے لیے ناگزیر نوعیت کی ذمہ داری بھی کھڑی کرتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ جو کچھ بھی واقع ہوتا رہے اُسے محض سمجھنا نہیں ہوتا بلکہ اُس سے مطابقت رکھنے والی سوچ بھی پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں بہت کچھ زندگی کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ شخصیت اِسی طور پروان چڑھتی ہے۔ جو کچھ بھی زندگی کا حصہ ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ شخصیت کا بھی حصہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو انسان کی مرضی کے بغیر اور کبھی کبھی محض لاشعوری طور پر شخصیت کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ اگر توجہ دی جائے تو ٹھیک وگرنہ شخصیت کی تشکیل کا عمل محض الجھنیں پیدا کرتا ہے۔
دنیا کے ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنی شخصیت کی تشکیل و تطہیر پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرے۔ ایسا کیوں ناگزیر ہے؟ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں کرنا ہی ہے۔ اگر نہ کریں تو محض خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہم میں سے بہت سوں کو زندگی بوجھ لگتی ہے اور وہ ہر معاملے میں شدید اضمحلال کا مظاہرہ کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ زندگی کو بوجھ سمجھ کر جینا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جب آپ کا ذہن زندگی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو آپ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حالات انسان پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ صبر و تحمل کی سطح بھی سب میں برابر نہیں ہوتی۔ کون کسی صورتِ حال کا دباؤ کس حد تک اور کس طرح برداشت کرے گا اِس کا مدار بہت حد تک مزاج اور تربیت پر ہوتا ہے۔ بہت سوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ اُنہیں ہر پریشانی سوہانِ روح معلوم ہوتی ہے۔ اگر تربیت کا اہتمام نہ کیا گیا ہو تو سمجھ لیجیے یہ معاملہ درست ہو ہی نہیں سکتا۔ حالات کا دباؤ سبھی کو قبول اور برداشت کرنا ہوتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہتھیار ڈال دیے جائیں، شکست تسلیم کرکے گوشہ نشینی اختیار کر لی جائے۔ زندگی ایسے رویے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مسائل اِس لیے ہوتے ہیں کہ اُن کا حل تلاش کیا جائے۔ ہر مشکل صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس کا تدارک کیا جائے، آسانی تلاش کی جائے۔ یہ سب کچھ اپنے آپ نہیں ہوتا، تگ و دَو کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
شخصیت کی تشکیل و تطہیر ہر انسان کے لیے ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہوتی ہے۔ ہم زندگی بھر طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں، اُن کی باتیں سنتے ہیں، معاملات نمٹاتے ہیں، واقعات اور حالات کو برداشت کرتے ہیں، سوچتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، فیصلوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور اُن کے نتائج کی بنیاد پر آئندہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے شخصیت کی تشکیل و تطہیر ایسا معاملہ ہے ہی نہیں کہ کسی بھی درجے میں نظر انداز کیا جائے۔ ہم زندگی بھر جو کچھ بھی دیکھتے، سوچتے اور کرتے ہیں وہ غیر محسوس طور پر ہماری فکری ساخت کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمارے افکار و اعمال پر ہمارے زندگی بھر کے معاملات کا کچھ نہ کچھ اثر مرتب ہوتا ہی ہے۔ ہم جن لوگوں سے ملتے ہیں وہ ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ کسی سے مل کر ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے اور کسی سے ملنا ہمارے لیے کسی حد تک سوہانِ روح ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم قدم پر انتخاب کا مرحلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ لوگوں سے زیادہ ملنا چاہیے اور کچھ لوگوں سے بہت کم۔ کسی کے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحات انتہائی خوش گوار ہوتے ہیں اور کسی کے ساتھ ہم اچھا خاصا وقت گزار کر بھی کچھ خاص نہیں پاتے۔ شخصیت پروان چڑھانا ہر انسان کے لیے ناگزیر معاملہ یوں بھی ہے کہ شخصیت کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ زندگی سے کیا لینا ہے اور کیا دینا ہے۔ کسی بھی انسان کی کامیابی میں کلیدی کردار شخصیت کی نوعیت کا ہوتا ہے۔ زندگی بھر کے معاملات اثر انداز ہوکر ہماری شخصیت کو مختلف مراحل سے گزارتے رہتے ہیں۔ اگر ہم متوجہ ہوں، سنجیدگی اختیار کریں تو شخصیت کی تطہیر کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں سے ہمارا رابطہ رہتا ہے یا واسطہ پڑتا ہے اُن سے ہمیں کچھ نہ کچھ ملتا ہی ہے۔ اگر اچھا ملے تو قبول کرنا چاہیے اور بُرا ملے تو اپنے آپ کو اُس کے اثرات سے بچانے پر متوجہ رہنا چاہیے۔
آپ بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی شعبے میں پچیس تیس سال گزار کر بھی کچھ نہیں بن پاتے۔ اُن کی شخصیت پروان نہیں چڑھتی کیونکہ وہ اِس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اُن کی طرزِ زندگی ایسی ہوتی ہے گویا کوئی شخص میلے میں وقت گزار رہا ہو، تماشے دیکھ رہا ہو اور محض دل بہلاتے رہنے پر یقین رکھتا ہو۔ زندگی میلے کے تماشے دیکھنے جیسا معاملہ نہیں۔ ہمیں محض تماشے نہیں دیکھنے، اُنہیں سمجھنا بھی ہے اور میلے کی رونق بڑھانے کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہم کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور اِس حوالے سے اپنی شخصیت کی تعمیر پر بھی متوجہ ہوں۔
کسی بھی انسان کے لیے شخصیت کی تعمیر کئی مدارج کا معاملہ ہوتی ہے۔ جو کچھ ہم کہتے اور کرتے ہیں وہ شخصیت کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے مگر اِس کیساتھ ساتھ دو اور معاملات بھی ہیں جو شخصیت کو نکھارنے کے حوالے سے نمایاں ہیں۔ ایک ہے مطالعہ اور دوسرا ہے مشاہدہ۔ ہم جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ہماری فکری ساخت پر اثر انداز ہوکر شخصیت پر اپنے نقوش ثبت کرتا ہے۔ اگر ہم معیاری چیزیں پڑھیں گے تو فکری ساخت بلند ہوتی جائے گی اور اِس کے نتیجے میں شخصیت کا حسن بھی نکھرتا جائے گا۔ غیر معیاری مطالعہ انسان کو فکر و نظر کے اعتبار سے بند گلی میں پہنچا دیتا ہے۔ مشاہدے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور لوگوں کے رویوں پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے۔ مشاہدہ یعنی دیکھنا۔ اگر ہم معیاری مشاہدے کے حامل ہوں یعنی معاملات کو بطریقِ احسن دیکھ سکتے ہوں یا دیکھنا چاہتے ہوں تو شخصیت پنپتی ہے کیونکہ جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ شخصیت کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ مشاہدے کا اعلیٰ معیار بہت سوں کو اچھا اداکار بنادیتا ہے۔ علم و فن کی دنیا میں مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدے کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مشاہدے کی مدد سے لوگ اداکاری، گلوکاری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور دیگر بہت سے فنون میں اپنے آپ کو بہتر طور پر منوانے کے قابل ہوتے جاتے ہیں۔ پرفارمنگ آرٹس میں یعنی عملی سطح پر پیش کیے جانے والے فنون میں مشاہدہ زیادہ کارگر ثابت ہونے والا عامل ہے۔
محض گزارے کی سطح پر جینے کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو شخصیت کی تعمیر کا عمل رک جاتا ہے۔ ہر انسان کو خالص حیوانی سطح سے بلند ہونے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ سوچنے ہی سے شخصیت پنپتی اور نکھرتی ہے۔ شخصیت کے نکھرنے ہی سے ہمارے لیے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ انسان میں جتنی بھی صلاحیت و سکت ہوتی ہے اُسے بروئے کار لانے میں شخصیت کی نوعیت کلیدی یا فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ شخصیت کا پھیلائو ہی طے کرتا ہے کہ آپ کی کامیابیوں کا پھیلائو کتنا ہونا چاہیے۔