انسان مرتے دم تک طرح طرح کی فکری پیچیدگیوں اور مغالطوں میں الجھا رہتا ہے۔ قدم قدم پر ایسے معاملات درپیش ہوتے ہیں جن میں الجھ کر ہم اپنی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ بے راہ رَوی صرف ایک صورت میں ممکن ہے یہ کہ ہم بے ذہنی کا شکار ہوں‘ صریح ''بے فکری‘‘ کو حرزِ جاں بنائے رہیں۔ اس مرحلے میں اٹک جانے والوں کے لیے پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بے ذہنی اور بے عملی راتوں رات رونما ہونے والی کیفیت نہیں بلکہ یہ مدتِ دراز کی بے ذہنی اور بے عملی کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ شدید نوعیت کی لاپروائی کو حرزِ جاں بنایا جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
انسان اٹکنے پر آئے تو خدا جانے کن کن معاملات میں اٹک جاتا ہے۔ یہ پوری دنیا فریبِ نظر ہے‘ محض دھوکا ہے‘ سر بہ سر استفہام ہے۔ کوئی نہ سمجھنا چاہے تو یہ دنیا کبھی سمجھ میں آنے والی چیز نہیں۔ جیت اُن کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے جو ہارنے کا ذہن لے کر آتے ہی نہیں۔ اور جیتنے والا یا جیت پر یقین رکھنے والا ذہن بھی خود بہ خود نہیں ملتا یا اپنے طور پر نہیں پنپتا بلکہ خاصی محنت سے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ اس کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ انسان کی نیت یا ارادہ کیا ہے۔ اگر نیت بے عمل رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی ہو تو کچھ نہیں ہو پاتا۔ اگر نیت کسی کا مال ہڑپ کرنے‘ اپنا اُلو سیدھا کرنے کی ہو تب بھی حتمی تجزیے میں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ سوال حُسنِ نیت کا ہے۔ اگر انسان طے کرلے کہ اپنے لیے کچھ حاصل کرے گا اور اِس عمل میں کسی کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے گا تب اللہ کی طرف سے فکر و عمل میں برکت کا اہتمام ہوتا ہے۔ نیت کسی کو نقصان پہنچاکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کی ہو تو دُنیوی اور اُخروی دونوں ہی طرح کی زندگی میں صرف خسارہ ہاتھ لگتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اِس معاملے میں شدید لاپروائی اور بے ذہنی و بے نیازی کا مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں۔
اس دنیا کی عارضی زندگی ہمارے لیے ہر اعتبار سے امتحان ہے۔ اس امتحان میں ہماری جو بھی کارکردگی رہے گی اُسی سے مطابقت رکھنے والا نتیجہ آخرت میں سجنے والی اللہ کی عدالت میں ہمارے ہاتھ میں تھمایا جائے گا۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اِس زندگی کے ایک ایک جُز کو پوری دیانت‘ سنجیدگی اور جاں فِشانی سے بروئے کار لایا جائے۔ جب ہر سانس کا حساب لیا جانا ہے تو اس بات کی گنجائش ہی کہاں ہے کہ انسان بے فکر ہوکر جیے‘ بے دِلی کو حرزِ جاں بنائے اور بے عملی کو اپنے بنیادی شعار کا درجہ دے۔ فکر و نظر کی بالیدگی یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے اور پوری دیانت کے ساتھ باعمل رہنا بھی لازم ہے۔ پوری سنجیدگی اور جاں فشانی سے بسر کی جانے والی زندگی ہی ہمیں آخرت میں سرخ رُو کرسکتی ہے۔
ہر انسان مختلف معاملات میں الجھتا بھی ہے اور ذہن کے بھٹکنے کے نتیجے میں راہ سے ہٹ بھی جاتا ہے۔ کبھی کبھی کسی ٹھوس جواز کے بغیر کوئی خاص سوچ پنپتی ہے اور انسان کو گھیر لیتی ہے۔ انسان کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جس نعمت کے ذریعے زندگی کچھ بن پاتی ہے اُسی نعمت کے ہاتھوں زندگی تباہی سے بھی دوچار ہو رہتی ہے۔ انسان کو عطا کی جانے والی بڑی نعمتوں میں شعور بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ شعور ہی کی بنیاد پر تو انسان دیگر تمام مخلوق سے برتر ہے‘ بہتر ہے اور اپنی زندگی کی سمت خود تعین کرسکتا ہے۔ انسان کے سوا تمام مخلوق اللہ کے طے کردہ راستے پر چلتی ہے‘ اس دنیا میں اپنے حصے کا وقت گزارتی ہے اور وقت آنے پر چل دیتی ہے۔ اس سے کوئی حساب کتاب بھی نہیں لیا جانا کیونکہ شعور کی دولت اسے عطا ہی نہیں کی گئی۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی اس لیے ہے کہ وہ شعور کی دولت سے مالا مال ہے۔ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ شعور کو بہ روئے کار لاتے ہوئے ہر اعتبار سے معقول زندگی بسر کرے‘ اپنا بھی بھلا کرے اور دوسروں کے لیے بھی بھلائی کی راہ ہموار کرے۔ ہم معاشرے میں ہر طرف اس حوالے شدید لاپروائی کا چلن دیکھتے ہیں۔
ہر انسان چونکہ غور و فکر کی صلاحیت کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے اس لیے زندگی بھر کچھ نہ کچھ سوچتا ہے۔ اُس کی سوچ پر ماحول کا اچھا خاصا اثر مرتب ہوتا رہتا ہے۔ ماحول ہی فکر کی سمت کا تعین بھی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ خالص حقیقت پسندی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں‘ وہ اپنے معاملات درست رکھنے میں بہت حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جو ذہن دوست ہے وہی دشمن بھی ہے۔ ذہن کو ڈھنگ سے بہ روئے کار لائیے تو ہر معاملہ فائدے کا سودا ثابت ہوتا ہے اور اگر ذہن کو بے لگام چھوڑ دیجیے تو اس میں بہت سے لایعنی خیالات خود رو پودوں کی طرح بڑھتے‘ پنپتے چلے جاتے ہیں۔ جب ذہن کی تہذیب و تطہیر کا اہتمام نہ کیا جائے تب یہ ایسے میدان کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے جس میں دنیا بھر کا کچرا‘ کاٹھ کباڑ بھرا ہو۔
ذہن کو بے لگام چھوڑیے تو اسے بھٹکتے‘ بے راہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ذہن کی کجی اس امر پر منحصر ہے کہ ہم اسے راہِ راست پر رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم یہ طے کرلیں کہ ذہن کو اپنے طور پر کام کرنے دیں گے تو پھر اُس کا بھٹکنا طے ہے۔ ایسے میں فکری کجی بھی ممکن ہے اور مغالطوں کو راہ ملنے کا امکان یا احتمال بھی توانا رہتا ہے۔ کسی بھی ذہن کو مغالطوں کی نذر کرنے والے معاملات بہت زیادہ ہیں۔ دنیوی زندگی اسی لیے تو سر بہ سر امتحان ہے۔ اس میں قدم قدم پر انسان کو سنبھلنا بھی ہے‘ سمجھنا بھی ہے‘ سوچنا بھی ہے اور درست سوچنا ہے۔ اور محض درست سوچنے پر معاملہ ختم نہیں ہوتا‘ عمل کی منزل تک بھی پہنچنا پڑتا ہے۔
ذہن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں جو انسان کو راہِ راست پر رکھے اور ذہن ہی سے بڑھ کر کچھ نہیں جو انسان کو سراسر دھوکے میں رکھے۔ ذہن کا سب سے بڑا دھوکا فریبِ ذات ہے۔ یہ انسان کو بتاتا رہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور اس سے ہٹ کر کوئی بھی نہیں اور کچھ بھی نہیں۔ اگر کسی میں غیر معمولی صلاحیت و سکت پائی جائے تو اس کا تھوڑا بہت سرکش ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اگر انسان نے کچھ پالیا ہو تو تھوڑا بہت غرور بنتا ہے۔ غرور ہر اعتبار سے قبیح ہے تاہم کچھ بننے اور پانے کی صورت میں فطری بھی ہے۔ انسان کی تعلیم و تربیت ڈھنگ سے کی گئی ہو تو وہ ذہن کو غرور کے پیدا کردہ خبائث سے دور رکھنے میں بہت حد تک کامیاب رہتا ہے۔ اگر تعلیم و تربیت میں کمی یا کجی رہ گئی ہو تو انسان بلا جواز طور پر سرکشی کی طرف چلا جاتا ہے۔ تھوڑی سی نمایاں ذہانت انسان کو دھوکا دیتی ہے۔ ذہن ہی انسان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس سے زیادہ ذہین کوئی نہیں اور یہ کہ اسی کی ہر بات درست ہے۔
فریبِ ذات انسان کو باقی دنیا کے لیے ناکارہ بنادیتا ہے۔ جو لوگ نرگسیت کا شکار رہتے ہیں اور اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھتے ان کے لیے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ فریبِ ذات انسان کو باقی دنیا سے لاتعلق سا کردیتا ہے۔ ایسے میں اُس کے لیے اپنی صلاحیت و سکت کو بہ روئے کار لانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ فریبِ ذات ہی تو ہے جو انسان کو ناپسندیدہ بھی بناتا ہے۔ یہ جس انسان کی فکری ساخت سے چمٹ جائے اُس سے لوگ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کوئی اپنے ہی وجود کو سب کچھ گردانتا ہے اور دوسروں کو کچھ بھی نہیں سمجھتا تب لوگ اُس سے تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے۔
فریبِ ذات کے مرحلے سے گزرنے والا انسان اَنا کے پھیر میں آ جاتا ہے یعنی اُس کے نزدیک اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت انسان کی فکری ساخت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ دنیا کو دیکھنے کے لیے فریبِ ذات سے چھٹکارا پانا لازم ہے ؎
اَنا کی گرد چھٹی ہے تو ہم نے دیکھا ہے
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دُنیا ہے!