ہیلن کیلر (Helen Keller)کا شمار اُن گِنے چُنے افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے کسی بھی مرحلے پر ہمت نہیں ہاری، اپنی معذوری کو مجبوری یا کمزوری میں تبدیل نہیں ہونے دیا اور ایسی زندگی بسر کی جس میں خود اُن کے لیے ہی بلکہ دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ تھا۔ ہیلن کیلر نے نابینا اور گونگی بہری ہونے کے باوجود ایک بھرپور اور کامیاب زندگی بسر کی اور دنیا بھر کے لیے عزم و ہمت کی ایک بڑی اور نمایاں مثال بن کر اُبھریں۔
ہیلن کیلر کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ اُنہوں نے خاصی چھوٹی عمر سے محسوس کرلیا تھا کہ زندگی محض سانسوں کی گنتی پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو اِس سے بہت آگے کی منزل ہے۔ اُن کے والدین اور اساتذہ کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ ہیلن عام بچی نہیں بلکہ غیر معمولی عزم کی مالک ہے۔ وہ اپنی معذوری کو کامیابی کی راہ میں دیوار بننے کا موقع دینے کے لیے تیار نہ تھیں۔ ہیلن نے بہت چھوٹی عمر میں کچھ کر دکھانے کے ایسے جذبے کا مظاہرہ کیا کہ اُن کے والدین اور اساتذہ اُن پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنے کی تحریک پائے بغیر نہ رہ سکے۔ ہیلن نے زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کہا۔ اُن کی آپ بیتی میں کسی بھی نوجوان کے لیے اعلیٰ معیار کی زندگی یقینی بنانے کے حوالے سے بہت سے اسباق ہیں۔ ہیلن کیلر نے کہا تھا ''زندگی یا تو غیر معمولی مہم جُوئی ہے یا پھر کچھ بھی نہیں‘‘۔
جینے کا مزہ صرف اور صرف سر اٹھاکر جینے میں ہے۔ سر اٹھاکر جینے کا مطلب محض یہ نہیں کہ انسان کسی سے مرعوب نہ ہو بلکہ یہ بھی ہے کہ حالات کے جبر کے سامنے ذرا بھی نہ جھکے اور ڈٹ کر کھڑا رہے۔ اگر کسی کو اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوانا ہے تو بھرپور طور پر منوانا ہے۔ نیم دِلانہ انداز سے بسر کی جانے والی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے پورے من سے کرنا ہے۔ جینا ہے تو پورے من سے اور کچھ کرنا ہے تو پورے من سے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر کچھ مزہ باقی نہیں رہتا۔
ہیلن کیلر کی اپنی زندگی اس بات کا مظہر ہے کہ انسان کو ہر وقت کسی نہ کسی طرح کی مہم جُوئی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مہم جُوئی محض پہاڑ پر چڑھنے، تندخُو دریا عبور کرنے یا ریگستان کو بے سامانی کی حالت میں پار کرنے کا نام نہیں۔ مہم جُوئی تو کسی بھی وقت اور کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ مہم جُوئی ہی کے زمرے میں ہے۔ عمومی سطح پر بسر کی جانے والی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ کشش نہ لطف! لوگ متاثر بھی نہیں ہوتے۔ کوئی بھی آپ کی طرف اُسی وقت متوجہ ہوگا جب آپ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کریں گے، عمومی سطح سے بلند ہوکر اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ سوال کامیابی یا ناکامی کا نہیں‘ کوشش کا ہے۔ بہت سے کھلاڑی ہارنے پر بھی لوگوں کو یاد رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی جیت محض اتفاق کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مقابلہ آخری لمحات تک برابر رہے تو فتح محض قسمت یا اتفاق ہی کی بات ہوتی ہے۔ محض جیتنے والا نہیں بلکہ جو اچھا کھیلتا ہے وہی یاد رہتا ہے۔ جو اپنے معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں وہ زندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل اُنہیں ایسی کیفیت سے ہم کنار کرتا ہے کہ وہ قدم قدم پر فرحت محسوس کرتے ہیں، ہر سانس میں سکون و اطمینان کی خوشبو بسی رہتی ہے۔
خالص حیوانی سطح پر جینا کسی بھی درجے میں کوئی کمال نہیں۔ تمام مخلوق میں صرف انسان ہے جسے قدرت نے شعور عطا کیا ہے۔ شعور ہی کی مدد سے انسان اپنے وجود اور ماحول کو سمجھتا ہے، پھر دونوں کے تفاعل پر غور کرتا ہے اور اپنے لیے کوئی ایسا لائحۂ عمل تیار کرتا ہے جسے اپنانے کی صورت میں زندگی بامقصد ٹھہرتی ہے، شب و روز کچھ دینے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب انسان عمومی سطح سے بہت بلند ہوکر جینے کا سوچے۔
مہم جُوئی کیا ہے؟ لگی بندھی زندگی بسر کرنے سے گریز! معمول کی زندگی کچھ نہیں دیتی۔ یہ تو محض گزارے کا معاملہ ہے۔ گزارے کی سطح پر بسر کی جانے والی زندگی انسان کو صلاحیت و سکت کے بروئے کار لانے کی تحریک دے ہی نہیں سکتی۔ کوئی بھی انسان نمایاں زندگی اُسی وقت بسر کرسکتا ہے جب وہ گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرتے رہنے سے مطمئن نہ ہو اور کچھ ایسا کرکے جانے کا سوچے جس کی بدولت لوگ تادیر اسے یاد رکھیں۔
کسی بھی انسان کے لیے معمول سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر کام مہم جُوئی کے درجے میں ہوتا ہے۔ مہم جُوئی میں ہمت کا بھی دخل ہوتا ہے اور جوش و جذبے کا بھی۔ عام تصور یہ ہے کہ مہم جُوئی میں خطرہ مول لینے کا معاملہ نمایاں ترین حیثیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہت حد تک ایسا ہی ہے مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ مہم جُوئی محض خطرات کو مول لینے کا نام نہیں بلکہ ثابت قدم رہنے کا بھی نام ہے۔ ایسے تو آپ کو بہت سے ملیں گے جو تھوڑا بہت خطرہ مول لیتے ہوئے کسی بھی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں مگر پھر بہت جلد اُن کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور وہ کام ادھورا چھوڑ کر کونا پکڑ لیتے ہیں۔ ایسی مہم جُوئی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ کام ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ عام ڈگر سے ہٹ کر چلے تو پہلے اُسے اِس حوالے سے ذہن تیار کرنا ہے۔ پھر حالات سے موافقت رکھنے والی تیاری پر بھی توجہ ناگزیر ہے۔ کوئی بھی کام شروع کرنا کسی بھی درجے میں کوئی مشکل بات نہیں۔ سوال کام کو شروع کرنے کا نہیں‘ ڈٹے رہنے اور اپنے آپ کو منواتے رہنے کا ہے۔ مہم جُوئی کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کوئی بڑا کام شروع کرے، ڈٹا رہے اور عمدگی سے وہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
کیا ہر غیر معمولی کام کو مہم جُوئی کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے؟ عمومی سوچ یہی ہے مگر در حقیقت ایسا ہے نہیں! ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ جو کام غیر معمولی عزم کا طالب ہو وہ ہمیں مہم جُوئی کے زمرے میں دکھائی دیتا یا محسوس ہوتا ہے جبکہ ایسا ہوتا نہیں۔ ہمارے لیے کسی بھی نوع کی مہم جُوئی اُسی وقت کارگر یا بارآور ثابت ہوسکتی ہے جب ہم اپنی صلاحیت و سکت اور میلانِ طبع کو ذہن نشین رکھیں۔ مہم جُوئی کو مزاج کا حصہ بنانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو کچھ صلاحیت و سکت کے مطابق ممکن ہی نہ ہو اُس کے لیے تگ و دَو کی جائے۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے انتظام کی اُدھیڑ بُن میں پھنسا رہتا ہے اس لیے زندگی کو زیادہ بامقصد اور بامعنی انداز سے بسر کرنے کے بارے میں زیادہ سوچ ہی نہیں پاتا۔ عزم کے معاملے میں وہ خاصا کمزور ہوتا ہے مگر عوام ہی میں سے کچھ لوگ بھرپور عزم اور قوت کے ساتھ اُبھرتے ہیں اور دنیا کو بتادیتے ہیں کہ ع
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
مہم جُوئی مزاج میں بھی ہوسکتی ہے اور معقول تربیت کے ذریعے پروان بھی چڑھائی جاسکتی ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر چلنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے اور بالخصوصی ایسی حالت میں کہ جب سب کچھ داؤ پر لگا ہو۔ مہم جُوئی منضبط سطح پر بھی ہوسکتی ہے یعنی ایسی منصوبہ سازی کی جائے کہ تھوڑی بہت ہمت بھی دکھائی جاسکے اور بہت کچھ داؤ پر بھی نہ لگے۔ زندگی آپ کو وہی محسوس ہوگی جو آپ اُسے سمجھیں گے۔ اچھا ہے کہ اِسے مہم جُوئی سے مزیّن کرکے بسر کیا جائے تاکہ نام باقی رہنے کی صورت تو نکلے۔ امکانات کبھی کم نہیں ہوتے۔ دنیا کا ہر انسان کسی بھی صورتِ حال میں اپنے لیے بہت کچھ تلاش کرسکتا ہے۔ جن معاشروں میں بظاہر کچھ نہیں ہوتا، امکانات برائے نام ہوتے ہیں اُن میں بھی کچھ لوگ اپنی بھرپور ہمت اور جوش و جذبے کی مدد سے بہت کچھ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا اور محض اتفاق کا نتیجہ بھی نہیں ہوتا۔ تھوڑی سی مہم جُوئی انسان کو غیر معمولی کارکردگی کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ تو پھر آپ تیار ہیں زندگی کو مہم جُوئی میں تبدیل کرنے کے لیے؟