"MIK" (space) message & send to 7575

معمولات کی اسیری

جہاں زندہ رہنا دوبھر ہوگیا ہو وہاں زندگی بسر کرنے کے بارے میں کون سوچتا ہے؟ انسان اگر حیوانی سطح پر جینے کے پھیر میں پڑ جائے، صبح بیدار ہوتے ہی صرف یہ فکر لاحق ہو کہ دو وقت کے کھانے کا بندوبست کیونکر کیا جائے تو آپ ہی بتائیے کوئی کیا جیے گا، کیا کرے گا۔ آج کے انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ انتہائی معمول کی سطح پر اٹک کر رہ گیا ہے۔ ایک زندگی وہ ہوتی ہے جس میں محض بصارت نہیں‘ بصیرت بھی ہوتی ہے۔ ایسی زندگی آنے والے زمانوں کو بھی بھانپ لیتی ہے۔ وقت کا کام گزرنا ہے، وہ گزر ہی جاتا ہے مگر اِسے زندگی نہیں کہا جاسکتا۔ زندگی تو وہ ہوتی ہے جس پر بہت حد تک اپنا تصرف ہو۔ تمام معاملات اول و آخر قدرت کے ہاتھ میں ہیں مگر قدرت نے انسان کو ارادہ و عمل کی آزادی بھی تو بخشی ہے۔ ہم اپنے لیے منصوبہ سازی کرنے میں بھی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ بھی ہم پر خدا کا کرم ہے کہ ہم بہت سی پریشانیوں اور الجھنوں کے باوجود کسی نہ کسی طور اپنے لیے تھوڑی بہت گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جب انسان انتہائی سطحی قسم کے معاملات میں الجھ کر رہ جاتا ہے تب زندگی پُھسپھسی ہوکر رہ جاتی ہے۔ اُس میں کسی بھی سطح پر دلکشی باقی نہیں رہتی۔ ایسے میں انسان بے دلی کے ساتھ جیتا ہے۔ کچھ سوچنے کو جی چاہتا ہے نہ کرنے کو۔ اِسی کیفیت کو رضی اختر شوقؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎
اپنا افسانۂ شوقِ ناکام ؍کوئی آغاز نہ کوئی انجام
آج کا انسان معمولات کا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ معمول یعنی وہ کام جو ہم یومیہ بنیاد پر یا باقاعدگی سے کیے جاتے ہیں اور اپنے لیے اُس میں برائے نام بھی کشش نہیں پاتے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہر معمول انسان کو بے ذہنی کی طرف لے جاتا ہے۔ بے ذہنی یعنی ذہن کو بروئے کار نہ لانے کی حالت۔ جب ذہن کو بروئے کار لانے کی ضرورت محسوس ہی نہ ہو تو زندگی میں دلکشی کس طور پیدا ہو۔ یہ جو اِتنی دلکشی ہمیں دکھائی دے رہی ہے یہ سارا کمال ذہن ہی کا تو ہے۔ آپ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ چند معمولات ہیں جنہوں نے آپ کو گھیرے میں لے رکھا ہے بلکہ آپ میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ یہ معمولات زندگی جیسی نعمت کو کنویں کا مینڈک بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ زندگی بہت سے مدارج پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ کئی مراحل سے گزرتی ہوئی پنپتی‘ پروان چڑھتی ہے۔ حالات کی مہربانی ہے کہ اب زندگی صرف اور صرف بے رَس نوعیت کے غیر دلکش معمولات کے مجموعے کا نام ہے۔ کم و بیش ہر طبقے میں مجموعی ذہنی کیفیت یہی ہے۔ زندگی کو صرف اور صرف معمولات کے ڈھیر میں تبدیل ہونے دیا گیا ہے۔ اِس کا نتیجہ؟ اِس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اُتھلے پانیوں جیسی زندگی بسر کرے؟ نہ گہرائی نہ گیرائی۔ ایسے میں موتی کہاں سے ہاتھ لگیں؟
آج کا انسان معمول یا معمولات کے مطابق جینے ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ اُس کی نظر میں زندگی صرف اس قدر ہے کہ خالص حیوانی سطح پر زندہ رہیے۔ بیدار ہونا، کھانا پینا، تھک کر سوجانا اور اگلی صبح پھر بیدار ہونا اور یہی سب کرنا۔ اِس خالص حیوانی سطح کو زندگی کہنا بجائے خود زندگی کا تمسخر اڑانا اور اپنے حقیقی فرائض سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ کیا کیجیے کہ ہم میں سے بیشتر یونہی جی رہے ہیں اور اِسے زندگی سمجھ کر اپنے دل و دماغ کو دھوکا بھی دے رہے ہیں۔ معمولات انسان کو محدود کردیتے ہیں۔ اگر دنیا کے ہر انسان نے ہمیشہ صرف اور صرف معمولات کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کی ہوتی تو آج ہمیں وہ ساری ترقی دکھائی نہیں دے رہی ہوتی جو نہ صرف ہے بلکہ ہماری زندگی کا حصہ بھی ہے۔ کسی بھی شعبے میں اور کسی بھی حوالے سے جتنی بھی پیشرفت دکھائی دے رہی ہے وہ اُسی وقت ممکن بنائی جاسکی ہے جب کسی نے معمولات کو تج کر کچھ نیا کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کیا اور پھر اُس حوصلے سے مطابقت رکھنے والی صلاحیت و سکت کو بھی پروان چڑھایا۔ کسی بھی معاملے میں صلاحیت بنیادی چیز ہے مگر اُسے پروان چڑھاکر یقینی بنائی جانے والی مہارت ہی دنیا کو نیا روپ دیتی ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان خود کو معمولات کی عمومی سطح سے بلند کرنے کے بارے میں سوچے، کچھ نیا کرنے کا ذہن بنائے اور یوں اپنے وجود کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کرے۔ ہم میں سے کون ہے جسے معمولات کے دائرے میں گھومنا پسند نہیں؟ بیشتر کا یہ حال ہے کہ چند مخصوص معمولات کو حرزِ جاں بنائے ہوئے جیتے ہیں اور اِسی میں خوش رہتے ہیں۔ کچھ نیا کرنے کا سوچا جاتا ہے نہ زندگی کے خاکے میں رنگ بھرنے کی فکر ہی لاحق ہوتی ہے۔ معمول کی زندگی ہمیں صرف زندہ رکھتی ہے، اور کچھ نہیں دیتی۔ جو لوگ معمولات کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اُن کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اس طور بسر کی جانیوالی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ جدت، نہ ندرت۔ دلکشی دکھائی دیتی ہے نہ رعنائی۔ رنگ ہوتے ہیں نہ خوشبو۔ کچھ بھی تو ایسا نہیں ہوتا جو اپنی طرف متوجہ کرے۔
تو پھر کیا سبب ہے کہ لوگ معمولات کے اسیر رہتے ہوئے جینے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر نمایاں ترین وجہ ہے ہمت کا نہ ہونا۔ جب انسان کچھ نیا کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ کہیں داؤ پر تو نہیں لگ جائے گا۔ انسان اس بات سے بہت ڈرتا ہے کہ جو کچھ ہاتھ میں ہے کہیں وہ بھی جاتا نہ رہے۔ اگر کوئی بھی نیا کام سوچ سمجھ کر کیا جائے تو غلطی کی صورت میں ہونے والا نقصان اِتنا بڑا نہیں ہوتا کہ برداشت نہ کیا جاسکے۔ کوئی بھی نیا کام ہم سے ہمت تو چاہتا ہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ منصوبہ سازی بھی چاہتا ہے یعنی ناگزیر ہے کہ ہم تمام متعلقہ امور کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی معقول لائحۂ عمل تیار کریں۔ جو لوگ پوری توجہ کے ساتھ جیتے ہیں وہ اول تو ناکام نہیں ہوتے اور اگر ناکامی ہاتھ لگے بھی تو اُسے جھیلا جاسکتا ہے۔ معمولات کا اسیر ہوکر جینے میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان آسانیوں کا عادی ہوتا جاتا ہے۔ جب کچھ نیا نہیں کرنا پڑتا تب آسانی ہی آسانی رہتی ہے۔ یہ آسانی ہی زندگی کو مشکل تر بناتی ہے۔ اصغرؔ گونڈوی نے کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
یہ بات بالکل برحق ہے۔ زندگی کا سارا لطف اِسی بات میں تو ہے کہ وہ لگی بندھی نہ ہو۔ یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ نیا ہونا چاہیے۔ اِس دنیا کے حسن میں اضافہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم معمولات کی اسیری ترک کرکے کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے بارے میں سوچتے رہیں اور نیا کرتے رہیں۔ نیا کرنے سے مراد کوئی انقلاب برپا کرنا نہیں ہوتا بلکہ معمولات سے ہٹ کر کچھ بھی نیا کرنا ہماری زندگی میں معنویت بڑھاتا ہے، ہمیں بامقصد انداز سے جینے کی تحریک دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اس سے اچھی بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ ایسا کرے جو زندگی میں اُس کی دلچسپی بڑھائے، معاملات کو زیادہ پُرکشش بنانے میں مدد دے اور یوں زندگی کو زیادہ بارآور بنانے کی راہ ہوار کرے۔ اگر انسان متوجہ نہ ہو، احساس کے وصف کو ڈھنگ سے بروئے کار نہ لائے تو زندگی میں اچھا خاصا ادھورا پن رہ جاتا ہے۔ احساس کی نعمت کس لیے ہوتی ہے؟ یہ صفت اور نعمت صرف اس لیے بخشی گئی ہے کہ ہم اپنے وجود اور ماحول کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں، جو کچھ سوچنا ہے وہ سوچیں اور جو کچھ بھی کرنا لازم ہو ضرور کر گزریں۔ معمولات مہارت تو پیدا کرتے ہیں مگر ندرت پیدا کرنے میں مدد نہیں دیتے۔ ندرت نیا سوچنے اور کچھ نیا کرنے کا نام ہے۔ ندرت ہی سے دنیا کی ساری رنگینی ہے۔ ہماری دنیا سمیت پوری کائنات میں پایا جانے والا تضاد ہی تو نیرنگی اور رنگا رنگی پیدا کرتا ہے۔ معمول کی زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں