کسی بھی زاویے سے دیکھیے، زندگی صرف اصلیت کا نام ہے۔ تقلید میں کچھ دھرا ہے نہ تعاقب میں۔ ہر بڑا کام صرف اور صرف اصلیت کی بدولت ممکن ہو پایا۔ سوال یہ ہے کہ اصلیت کیا ہے۔ کیا واقعی کچھ اصل ہے بھی یا سب ''نئی بوتل میں پرانے مشروب‘‘ والا معاملہ ہے؟ اس حوالے سے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے۔ تخلیق پسند ذہنیت اُس وقت پروان چڑھتی ہے جب انسان کچھ نیا کرنا چاہتا ہے۔ کچھ نئے سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی نئے کام کو نئے انداز سے کرنا۔ سیف الدین سیفؔ نے کہا تھا ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
سیف الدین سیفؔ نے صرف ایک مقطع میں زندگی کا ایک بڑا راز سمودیا۔ شعرا ایسے ہی کمالات کیا کرتے ہیں۔ کیا واقعی معاملہ وہ نہیں ہے جو سیف الدین سیفؔ نے کہا ہے؟ بہت حد تک ایسا ہی ہے! اگر خالص غیر جانبدار نقطۂ نظر سے دیکھیے اور پرکھیے تو دنیا میں کوئی بھی بات نئی بات نہیں۔ کوئی کہانی نئی ہے نہ کوئی شعبہ۔ ہر شعبہ کسی نہ کسی شعبے کے بطن سے نکلا ہے۔ ہم ذہن پر تھوڑا زور دیں، اُسے بروئے کار لائیں تو اندازہ لگاسکتے ہیں کہ در حقیقت نیا کچھ بھی نہیں۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے ہیں وہ پہلے بھی سوچا جاچکا ہے مگر ہاں‘ اُس کی شکل، نوعیت اور شدت مختلف تھی۔ ہر عہد کے انسان نے بہت کچھ سوچا ہے۔ ہر دور نے بہت سے نظریات دیے ہیں۔ آج کے بہت سے پختہ نظریات گزرے ہوئے ادوار کے ناپختہ نظریات ہی کے بطن سے برآمد ہوئے ہیں۔ جب فطری علوم کو فنون میں ڈھالنے کا عمل شروع نہیں ہوا تھا تب انسان کو اپنی بات منوانے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے معاملات میں سوچ ادھوری یا ناپختہ رہ جاتی تھی۔ بڑے ذہن جتنا سوچ سکتے تھے اُتنا تو سوچتے ہی تھے۔ اپنی بات منوانے کیلئے جو وسائل اُنہیں دکار ہوا کرتے تھے اُن کے نہ ہونے کے باعث معاملہ تصدیق و توثیق کی منزل تک نہیں پہنچ پاتا تھا۔ آج ہم تقریباً تمام شعبوں میں پیشرفت کیلئے درکار علوم اور ٹیکنالوجیز کے حامل ہیں۔ کسی کو اگر تحقیق کرنی ہو تو تمام مطلوب وسائل کی دستیابی آسانیاں پیدا کردیتی ہے۔ اِس کے باوجود اگر کوئی محدود رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا چاہے تو؟ اِس کا تو خیر کوئی علاج اب تک دریافت نہیں ہوسکا! کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے لگی بندھی سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جدت و ندرتِ فکر کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ جب انسان بہت پڑھتا، دیکھتا اور سمجھتا ہے تب کچھ نیا سوچنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ نئی سوچ راتوں رات نہیں پنپتی۔ اِس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جو محنت کرتا ہے وہ ضرور پاتا ہے۔ یہ قدرت کا وعدہ ہے ع
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ایپل کمپنی کے بانی سربراہ سٹیو جابز نے کہا تھا ''آپ کے پاس وقت یکسر محدود ہے اس لیے اِسے دوسروں کی تقلید میں، اُن کی طرح جینے میں ضائع مت کیجیے۔ دوسروں کی سوچ کے نتائج کی بنیاد پر گزاری جانے والی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ انسان کو dogma سے بچنا چاہیے یعنی کسی کے خیالات کا بے جا تعاقب نہیں کرنا چاہیے اور کسی کے خیالات کو اپنا تعاقب کرتے رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘‘۔ ہم زندگی بھر دو بنیادی مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ ایک طرف تو ہم دوسروں کے خیالات کا تعاقب کرتے رہتے ہیں اور تقلید کی منزل سے گزرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اپنے آپ کو، اپنے ذہن کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیتے ہیں اور بہت سوں کے خیالات کو اپنے تعاقب میں آنے دیتے ہیں۔ ہم کسی کے خیالات کا پیچھا کریں یا کسی کے خیالات ہمارا پیچھا نہ چھوڑیں۔ دونوں ہی صورتوں میں زندگی کا محض توازن نہیں بگڑتا بلکہ کبھی کبھی تو یہ بالکل ہی غرق ہو جاتی ہے۔ ہر اُس انسان کے لیے الجھنیں ناگزیر طور پر پیدا ہوتی ہیں جو اپنے ذہن پر تصرف نہ رکھتا ہو، اُسے بروئے کار لانے کے معاملے میں لاپروائی کا مرتکب ہوتا ہو اور زندگی کو سرسری لیتا ہو۔ زندگی کے بارے میں بہت زیادہ سنجیدہ رہنے والے پریشان رہتے ہیں مگر جو لوگ سنجیدگی سے پرہیز کرتے ہیں وہ بھی انتہائی درجے کی الجھنوں کی زد میں رہتے ہیں۔ سٹیو جابز نے زندگی بھر نئے خیالات اور تصورات یقینی بنانے کی سعی کی۔ ان کا شمار ہائی ٹیک انڈسٹری کی اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے مرتے دم تک کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کوشش کی اور دنیا بھر میں ہلچل مچانے کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ ان کے ادارے ایپل نے سیل فون اور آئی ٹی انڈسٹری میں ایسا بہت کچھ کیا جو بعد میں آنے والوں کیلئے غیر معمولی تحریک کا ذریعہ بنا۔ سٹیو جابز نے زندگی بھر لوگوں کو بہتر زندگی کی طرف جانے کی تحریک دی۔ وہ نئی نسل کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے اور اُس کے جوش و خروش میں اضافے کیلئے کوشاں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اُن کی آپ بیتی میں بھی نئی نسل کے لیے بہت کچھ ہے۔
کسی بھی قوم یا معاشرے نے کوئی بھی کام اُسی وقت کیا ہے جب اُس نے اندھی تقلید اور بے ذہنی پر مبنی بھونڈی نقّالی ترک کرکے سوچنا شروع کیا ہے اور اپنے آپ کو مختلف حوالوں سے منوانے کی کوشش کی ہے۔ سوچ میں پائی جانے والی اصلیت ہی کچھ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے چل پڑنے سے انسان ایک دن کسی گڑھے میں جا گرتا ہے۔ بے ذہنی کے ساتھ کی جانے والی تقلید انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیتی۔ قدرت نے سبھی کو منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ سوال بنیادی صلاحیتوں کا حامل ہونے کا نہیں بلکہ اُنہیں پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کا ہے۔ اس راہ پر چلنے والے کم ہوتے ہیں۔ قدم قدم پر اپنے آپ کو آزمائش کی نذر کرنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں پیشرفت کا بازار گرم رکھنے کیلئے کی جانے والی تگ و دَو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ بڑے اداروں اور بڑی شخصیات پر اس حوالے سے غیر معمولی دباؤ برقرار رہتا ہے۔ سٹیو جابز ہی کی مثال لیجیے۔ انہوں نے بہت کچھ کیا مگر یہ سب کچھ یونہی‘ بیٹھے بٹھائے نہیں ہوگیا۔ اُنہوں نے زندگی بھر محنت کی اور خاصا پہلے کینسر کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ ہر معاملے میں اصلیت کے دیوانے تھے۔ وہ اپنے تمام ماتحت افسران اور ملازمین میں جدت پسندی کی روح پھونکنے کیلئے بیتاب رہا کرتے تھے۔ غیر معمولی حد تک اور بہت تیزی سے محنت کرنے کے باعث وہ بیمار بھی پڑے اور دنیا سے چلے گئے۔ جو کچھ ہوچکا ہے وہ ہمارے لیے بہت اہم ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ اہم وہ سب کچھ ہے جو ہمیں کرنا ہے۔ کسی بھی معاملے میں جدت اور ندرت یقینی بنانے کیلئے وہ سب کچھ جاننا لازم ہے جو کیا جاچکا ہے اور کیا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ایک خطے کے لوگوں کو معلوم نہ ہو پاتا تھا کہ دوسرے خطوں میں کس شعبے کے حوالے سے کیا کام ہو رہا ہے۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہم بہت آسانی سے جان سکتے ہیں کہ کس شعبے میں کس طرح کا اور کس حد تک کام ہو رہا ہے۔
تخلیقی سوچ پروان چڑھانے کیلئے مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ بھی بہت اہم ہے۔ اپنے شعبے میں ممکن بنائی جانے والی پیشرفت پر نظر رکھنا ہر اُس انسان کیلئے لازم ہے جو کوئی بھی کام خاصے منفرد انداز سے کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کچھ کرنے ہی پر انسان اپنی الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ تقلید انسان کو چند مخصوص خیالات اور اعمال کے پنجرے میں بند کردیتی ہے۔ دوسروں کا کیا ہوا کام کرتے رہنے سے انسان کے دل کو کبھی حقیقی سکون نہیں مل سکتا۔ تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اُسی وقت تسلیم کیا جائے گا جب آپ بھرپور محنت کے ساتھ کچھ نیا کریں گے۔ کچھ بھی نیا کرنا انسان کو نفسی اور روحانی تسکین عطا کرتا ہے۔ ایسے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ محنت رائیگاں نہیں گئی۔ کسی کے خیالات اور تخلیقی سوچ سے اکتساب بُری بات نہیں مگر نری تقلید آپ کو محبوس کرکے دم لیتی ہے۔