ہر بات میں کوئی نئی بات تلاش کرنا، ہر معاملے سے کچھ نیا پانے کی کوشش کرتے رہنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ کم و بیش ہر انسان کچھ نہ کچھ نیا چاہتا ہے۔ اگر جدت نہ ہو تو دنیا بے رنگ ہو جائے۔ جدت ہی سے تو ساری رنگینی ہے، رونقِ تمام ہے۔ پھر کچھ نیا پانے کی تمنا میں بُرائی کیا ہے؟ یقینا کچھ نہیں! ہر انسان کا حق اور فرض ہے کہ اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ جدت کے لیے کوشاں رہنے سے دل و دماغ تر و تازہ رہتے ہیں۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں رنگ بھی ہیں، خوشبوئیں بھی اور روشنیاں بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کو اِن میں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا، کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ اِس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک بنیادی سبب بیزاری ہے۔ اپنی ذات سے بیزاری، اپنے ماحول سے بیزاری۔ جو انسان اپنے وجود سے بیزار ہو وہ بالآخر پورے ماحول ہی سے بیزار ہو جاتا ہے۔بیزاری یعنی اُکتاہٹ! یہ اُکتاہٹ کیوں ہوتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے آپ سے‘ اپنے ماحول سے ہمہ وقت بیزار سے دکھائی دیتے ہیں؟ یہ بیزاری اُن کے پورے وجود کو چاٹ جاتی ہے۔ وہ کوئی بھی کام پورے من سے نہیں کرتے۔ اُن کی نظر میں دنیا رہنے کے قابل نہیں۔ پھر بھی وہ دنیا کا حصہ تو ہوتے ہی ہیں۔ بیزاری ایک عجیب طرح کا احساس ہے۔ یہ احساس اس لیے عجیب ہے کہ انسان کو دنیا سے چلتا بھی نہیں کرتا اور کہیں کا‘ کسی کام کا رہنے بھی نہیں دیتا۔ بیزاری سے بھرا ہوا انسان کسی اور کے کام تو کیا آئے گا‘ اپنے کام بھی نہیں آسکتا۔ وہ ہر وقت زندگی سے گریز اور فرار پر تُلا رہتا ہے۔ ہے نا عجیب بات؟ ایک طرف زندگی سے فرار کی کوشش دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف زندگی کا تسلسل برقرار رکھنے کی لاشعوری کوشش بھی نظر آتی ہے۔ بیزاری کا ''کمال‘‘ یہ ہے کہ دو بالکل الگ دنیائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں!
بات سیدھی سی ہے۔ اگر کوئی بیزاری کے ساتھ زندہ ہے تو اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا۔ جب مرنا نہیں چاہتا تو پھر پورے من سے جیے۔ بیزاری کے سامنے ہتھیار ڈال کر‘ ہار مان کر وہ اپنے پورے وجود کو خوا مخواہ مٹی میں کیوں ملاتا رہتا ہے؟ اگر کوئی تعلیم حاصل کر رہا ہے مگر دل لگاکر نہیں‘ تو پھر پڑھنے کا فائدہ کیا؟ اگر کسی شعبے میں دل نہیں لگ رہا تو اُس شعبے کو ترک کرکے من چاہے شعبے میں طبع آزمائی کرنے میں کیا قباحت ہے؟ نفسی امور کے ماہرین بیزاری کو زندگی ڈکار جانے والا احساس قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک کسی بھی معاملے میں بیزاری کوئی انوکھی بات تو نہیں مگر افسوس ناک ضرور ہے۔ افسوسناک اِس لیے کہ بیزار رہنے والا انسان اپنے قریبی یا بنیادی ماحول میں پائے جانے والے لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنتا ہے۔ آپ خود بھی تو ایسے کسی بھی انسان کو برداشت نہیں کرتے ہوں گے جو ہر وقت بیزار رہتا ہو، ہر معاملے کے تاریک پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو اور پُرامید رہنے کو زیادہ پسند نہ کرتا ہو۔ کیا آپ کو بیزاری کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ ایسے لوگ اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ بات بات پر منہ بسورنے والے اور شدید بیزاری کے ساتھ شب و روز بسر کرنے والوں کو اُن کے اپنوں سمیت کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
بیزاری فطری بھی ہو سکتی ہے یعنی مزاج کا حصہ ہوسکتی ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اِسے زندگی بھر جی کا روگ بناکر رکھا جائے۔ بیزاری سے نجات پانا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ یہ احساس حواس کو گھیرے میں لیے رہے تو ڈھنگ سے جینا دشوار ہو جاتا ہے۔ بہت سوں کو آپ اِس حال میں پائیں گے کہ اچھی خاصی لیاقت اور سکت رکھنے پر بھی کچھ زیادہ نہیں کر پاتے کیونکہ وہ بلا جواز طور پر ہر معاملے میں بیزار ہو رہنا پسند کرتے ہیں۔ بیزاری کو ترجیح دینے کا رجحان اگر قوی ہو تو مزاج و کردار کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بیزاری محض وقت نہیں بلکہ توانائی، تعلقات اور امکانات کو بھی ضائع کرتی رہتی ہے۔ بہت سے اہل اور لائق افراد محض بیزاری کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر تمام امکانات کو خاک میں ملاتے جاتے ہیں۔بیزاری کے پیدا ہونے کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ یکسانیت بھی بیزاری کو جنم دیتی ہے اور معاملات کے شدید ٹھہراؤ سے بھی بیزاری کو راہ ملتی ہے۔ انسان اگر بہت محنت کرے اور مطلوب کامیابی یقینی بنانا ممکن نہ ہو پائے تو بیزاری کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ یہ تو ہوئیں بنیادی وجوہ۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دل و دماغ میں بہت کچھ منفی چل رہا ہوتا ہے اور جب اُسے باہر آنے کا کوئی واضح راستہ نہیں ملتا تو بیزاری کی شکل میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں انسان خود بھی سمجھ نہیں پاتا کہ اُس کے ذہن میں پنپنے والے ہیجان آمیز جذبات کیا ہیں اور جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو وہ بیزاری کی راہ پر چل کر اپنا دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں دل کو تو کیا بہلنا ہے‘ معاملات کچھ اور بگڑ جاتے ہیں، بیزاری کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے اور زندگی مزید بے رونق ہوتی چلی جاتی ہے۔
بیزاری کا توڑ کیا ہے؟ زندگی سے پیار! جب انسان اپنے معاملات میں بھرپور دلچسپی لینا شروع کرتا ہے تب زندگی کی بے رونقی گھٹتی جاتی ہے۔ بیزاری کے ہاتھوں پیدا ہونے والی بے رونقی کا گراف گرتا ہے تو انسان تازہ دم ہوکر اپنے معاملات کو درست کرنے کی سمت گامزن ہوتا ہے۔ بیزاری کو ترک کرنا اور زندگی میں دوبارہ بھرپور دلچسپی لینا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اِس کے لیے خاصی مشق اور مشقّت کی ضرورت پڑتی ہے۔ زندگی کی ہماہمی اور کشاکش انسان کو ڈھنگ سے سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیتی۔ حالات کا دباؤ انسان کو مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ مایوسی کی طرف جائے، اُمید کے بارے میں سوچنا چھوڑے اور بیزاری کو بہترین آپشن کے طور پر قبول کرے۔زندہ اور متحرک معاشرے کی ایک بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ بیشتر معاملات میں واضح طور پر اُمید بھری طرزِ فکر و عمل کا حامل ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں کے لوگ محض زندہ نہیں رہتے بلکہ زندگی بسر کرنے کے معاملے میں اپنا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اِس کے لیے بیزاری سے اجتناب برتنا لازم ہے۔ متحرک معاشروں کے لوگ اپنے معمولات میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ پُرعزم بھی رہتے ہیں اور باعمل بھی۔ اُن کے یومیہ معمولات میں کہیں بھی بیزاری دکھائی نہیں دیتی۔ ہر وقت خوش رہنا تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا مگر اِس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ وقت بے وقت منہ پھلائے رہیے اور معاملات کو شدید بے دِلی و بے عملی کی نذر ہونے دیجیے۔ زندگی کو سب سے بڑی نعمت کے درجے میں رکھ کر قبول کیا جائے تو فکر و عمل کا انداز کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ ہمیں محض جیے جانے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ ہمیں سانسوں کے تسلسل سے ہم کنار رہتے ہوئے محض جینا نہیں بلکہ اِس طور جینا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی خیر کا سامان ہو۔
آج ہمیں ایسا بہت کچھ میسر ہے جو زندگی کی رنگینی اور رونق میں اضافے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کو امکانات کے گڑھ میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان چاہے کسی بھی مزاج کا ہو، آج وہ سب کچھ میسر ہے جس سے زندگی کی رنگینی بھی بڑھائی جاسکتی ہے اور اُسے زیادہ بامقصد بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ہاں‘ اِتنا ضرور ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات ہوتا ہے نہ آسانی سے۔ حالات کا دباؤ انسان کو بے ذہنی، بے دلی، بے عملی اور بیزاری کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ اِس کے سامنے ڈٹ جانا ہے، سینہ سپر رہنا ہے۔یہ دنیا جیسی بھی ہے‘ پوری کی پوری سب کے لیے ہے۔ امکانات ہیں تو سب کیلئے اور مشکلات ہیں تو سب کیلئے۔ ایسے میں بیزاری کی غلامی اختیار کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے پورے من سے کرنا ہے۔ ادھورے من سے جینے والوں کا حشر ہم دیکھتے آئے ہیں۔ زندگی ہم سے عزمِ محکم اور بھرپور ذوقِ عمل کی طالب ہے۔ ایسے میں بیزاری کا آپشن بچتا ہی نہیں۔