"MIK" (space) message & send to 7575

بیاں غائب ہے اور … اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے!

آج کی دنیا واقعی بہت عجیب ہے۔ ویسے دنیا کب عجیب نہیں تھی مگر اب معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔ کسی بھی چیز کو سمجھنے کی کوشش کیجیے تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے یعنی آپ کی آنکھوں کے سامنے کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے۔ یہ ویسی ہی کیفیت ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ع
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سِرا ملتا نہیں
ایک زمانہ تھا جب کسی بھی معاملے کو اُس کی گہرائی اور گیرائی کے تناظر میں پیش کیا جاتا تھا۔ لوگ کسی بھی چیز کو اُس کے اپنے میرٹ کی بنیاد پر دیکھتے، پرکھتے، جانچتے اور سراہتے تھے۔ اب فلم ہی کو لیجیے۔ کسی بھی فلم میں کئی چیزیں ہوتی ہیں۔ کہانی، مکالمے، اداکاری، سنیماٹو گرافی، موسیقی، رقص، سیٹ ڈیزائننگ، فائٹنگ، لائٹنگ وغیرہ وغیرہ۔ کسی بھی فلم کو تمام بنیادی شعبوں کے توازن کی بنیاد پر جانچا‘ پرکھا جاتا ہے۔ کہانی جاندار ہونی چاہیے، مکالمے چونکادینے والے ہونے چاہئیں، اداکاری ایسی ہو کہ لوگ کرداروں میں گم ہوکر رہ جائیں، سیٹ ایسے ہوں کہ دیکھیے تو دیکھتے رہ جائیے، لوکیشنز ایسی ہوں کہ دیکھتے ہی وہاں پہنچنے کو جی چاہے، گانے ایسے ہوں کہ کانوں میں رس گھولیں، فائٹ کمپوزنگ ایسی ہو کہ دیکھنے والا خود کو سکرین پر محسوس کرے، سنیماٹو گرافی ایسی ہو کہ ہر فریم شاندار لگے۔ فلم میں صرف کہانی اچھی ہو تو لوگ پسند نہیں کرتے۔ زور صرف اداکاری پر دیا گیا ہو تو بھی فلم غیر متوازن ہوکر رہ جاتی ہے۔ محض لوکیشنز کو دیکھنے تو کوئی بھی نہیں جاتا۔ گانے اچھے نہ ہوں تو؟ مکالمے تو جاندار ہوں مگر کہانی ہی پُھسپھسی ہو تو پوری فلم بے جان دکھائی دیتی ہے اور مکالموں کا لطف بھی جاتا رہتا ہے۔
آج ہم ایسے ماحول کا حصہ ہیں جس میں بات کو گھما پھراکر کہنے اور معاملات کو کچھ کا کچھ دکھانے کا رجحان عام ہے۔ اگر آپ کسی غزل سنگر کو سننے جائیں اور وہ صرف یہ ثابت کرے کہ اُس کا غزلوں کا انتخاب بہت اچھا ہے تو؟ غزل اچھی ہونی چاہیے مگر سوال صرف غزل کے اچھا ہونے کا نہیں بلکہ اُسے گانے یعنی پیش کرنے کا بھی ہے۔ اگر گلوکار اچھا نہ ہو، محنت کرکے نہ آیا ہو تو اچھی غزل بھی آپ کو اچھی لگے گی؟ اِسی طور اگر گلوکار بہت اچھا ہو، دُھنیں بھی اچھی بنائی ہوں، اظہارِ فن یعنی گائیکی پر بھی بہت محنت کی گئی ہو مگر غزلوں ہی میں دم نہ ہو تو؟ ایسی محنت بھی خاک میں مل جاتی ہے۔ آج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی فن پارے کی تیاری کے دوران توازن کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جنہیں کچھ تخلیق کرنے کا شوق ہے وہ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ کرنا کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اور کہیں جا نکلتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا حالات کا دباؤ بہت زیادہ ہے؟ کیا مسابقت بہت بڑھ گئی ہے؟ کیا زندگی کی نہج ایسی ہوگئی ہے کہ اب اس نوعیت کے دباؤ کو برداشت کرتے رہنا پڑے گا؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کچھ بھی نیا کرنے کے لیے انسان کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی نیا آئیڈیا ذہن کے پردے پر ابھر تو سکتا ہے؛ تاہم اُسے باضابطہ شکل دینا آسان نہیں۔ ذہن الجھے ہوئے ہیں۔ عمومی سطح پر ذہن کو ڈھنگ سے کام کرنا نصیب نہیں ہوتا۔ کسی پر حالات مہربان ہوجائیں تو اور بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ کسی بھی شعبے میں ڈھنگ سے کام کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لوگ کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو آزمانے کے لیے خاصی تگ و دَو کرتے تھے اور اُس کا نتیجہ بھی سامنے آ جاتا تھا۔ تب مسابقت بھی زیادہ اور بہت الجھی ہوئی نہ تھی اور کسی بھی شعبے میں پیش رفت بھی اِتنی زیادہ نہ تھی کہ انسان سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والے آلات اور ٹیکنالوجیز اگرچہ کمیاب تھیں؛ تاہم انسان اپنے ذہن کو بروئے کار لاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ انسان کرنا کچھ چاہتا ہے اور ہو کچھ جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ کر دکھانے کا سوچیے تو خود کو بھی یقین نہیں آتا کہ کرنا کیا تھا اور ہو کیا گیا۔ گویا ع
پاؤں رکھتے ہیں کہیں اور کہیں پڑتا ہے
حالات کی روش ایسی ہے کہ انسان خاصی تگ و دَو کے بعد ہی ذہن کو متوازن رکھ پاتا ہے۔ اگر توجہ نہ دی جائے تو ذہن پٹڑی سے اترنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ کم و بیش تمام شعبوں میں لیپا پوتی کی ذہنیت کارفرما ہے یعنی زیادہ سے زیادہ تزئین و آرائش یقینی بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ مقصد یا ہدف ڈھونڈنے نکلئے تو اپنا نشاں بھی گم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ آج معاملات صرف دکھاوے کی حد تک رہ گئے ہیں۔ دکھاوا یعنی یہ اہتمام کہ جو کچھ سامنے ہے وہ دلکش دکھائی دے۔ لوگ اصلیت کے فراق میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ یہ اُن کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں۔ آج ایسے لوگ خال خال ہیں جو کسی بھی معاملے کو اُس کی اصلیت کے ساتھ دیکھنا اور قبول کرنا چاہتے ہیں۔ غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ جو کچھ بھی موجود ہے اُس سے ہٹ کر بہت کچھ دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں یعنی اپنے آپ کو دھوکا دینے کا شوق خطرناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ اِسے آپ حقیقت سے گریز کا نام بھی دے سکتے ہیں، بلکہ واقعتاً ایسا ہی ہے۔ لوگ ظاہر کو باطن پر ترجیح دے رہے ہیں۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ زندگی کے دامن میں اُن کے لیے کیا ہے۔ باطن میں بہت کچھ ہوسکتا ہے تو ہوتا رہے۔ یہاں کس کو پڑی ہے کہ پردہ ہٹانے کی زحمت گوارا کرے اور حقیقت یعنی باطن تک پہنچے؟ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُسی سے لوگ خوش ہیں اور جو کچھ دستیاب ہے بس اُسی سے مستفید ہوتے ہوئے جینے کے قائل ہیں۔ عمومی رجحان یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں لوگ بیان سے کہیں زیادہ حسنِ بیاں کے قائل ہیں۔ محترم ظفرؔ اقبال نے خوب کہا ہے ع
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے
لوگ کسی بھی بات کو سمجھنے سے زیادہ اِس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ وہ بات بیان کس طور کی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی مکان کی تزئینِ و آرائش سے کہیں زیادہ اب اِس بات کو اہم گردانا جارہا ہے کہ تزئین و آرائش کا بہت سا سامان جمع کرکے اُسے پیش کرنے کے لیے کہیں سے کوئی گھر بھی حاضر کیا جائے! سیف الدین سیفؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
بالکل درست مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جدت اور ندرت کی تلاش میں اصل بات کو کہیں دفنادیا جائے، غرق کردیا جائے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ اندازِ بیاں کی دلکشی میں گم ہوکر یہ بھول ہی جاتے ہیں بیان کس چیز کا ہے۔ شان الحق حقیؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سُراغِ منزل
آنکھ تو صرف نظاروں ہیں کھو جاتی ہے
عالم یہ ہے کہ آنکھیں نظاروں میں گم ہوکر رہ گئی بلکہ کھوگئی ہیں۔ منزل کو بھول کر لوگ راستے کی دلکشی میں مست ہیں۔ سفر کی لذت کو منزل پر ترجیح دی جارہی ہے۔ آج کی افتادِ طبع یہ ہے کہ جو کچھ بھی سامنے ہے اُس کی دلکشی اور لذت میں گم رہیے۔ جو کچھ پسِ پردہ ہے وہ زیادہ دلکش ہوسکتا ہے مگر لوگوں کو بظاہر اُس سے کچھ غرض نہیں رہی۔ یہی ذہنی کیفیت فوری لذت کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ لوگ فوری نتائج چاہتے ہیں، پھر چاہے وہ کھوکھلے ہی ہوں! معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ ہر معاملے میں زبردستی کی دلکشی اور رعنائی ڈھونڈیے۔ قدم قدم پر ''ششکوں‘‘ کی تلاش ہے۔ ''ششکا‘‘ ایک عامیانہ اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے بات کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بناکر پیش کرنا۔ آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا بیشتر مواد ششکوں کے آغوش میں ہے۔ لازم ہے کہ یہ عامیانہ روش ترک کرکے انسان اصلیت کی طرف پلٹے۔ راستہ کتنا ہی پُرکشش ہو‘ سفر منزل کی خاطر کیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں