ذہن کا کام ہے ہر وقت سوچتے رہنا۔ سوچتے رہنے سے ذہن توانائی بھی پاتا ہے اور تھک بھی جاتا ہے۔ منفی معاملات کے بارے میں سوچتے رہنے سے ذہن پر دباؤ مرتب ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں اُس کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ مثبت معاملات کے بارے میں سوچنے سے ذہن کو جِلا ملتی ہے۔ ایسی حالت میں ذہن اپنی توانائی بحال کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کام کرنے لگتا ہے۔ ذہن کو حقیقی معنوں میں تقویت اُس وقت ملتی ہے جب اُس کا احترام کیا جاتا ہے۔ ذہن کا احترام؟ جی ہاں! ذہن بھی احترام کا طالب رہتا ہے۔ ذہن کے احترام کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک واضح صورت تو یہ ہے کہ اُس میں ابھرنے والے کارآمد خیالات کو شناخت کرکے اُن کی اہمیت محسوس کی جائے اور اُنہیں عملی جامہ پہنانے کے بارے میں سوچا جائے۔ جب ہم ذہن کے پردے پر ابھرنے والے خیالات اور اُن سے متعلق تصورات کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں یعنی اہمیت دیتے ہیں تب ذہن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہماری طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور ہم زیادہ دم خم کے ساتھ تگ و دَو میں مصروف رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ذہن چونکہ ہر وقت مصروفِ کار رہتا ہے اِس لیے حالات و واقعات کا اثر قبول کرتے ہوئے بہت کچھ سوچتا ہے‘ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں راہ دکھاتا ہے۔ اُس کی کوشش اصلاً تو یہ ہوتی ہے کہ ہماری زندگی میں آسانیاں ہوں۔ زیادہ سے زیادہ آسانیاں یقینی بنانے کے لیے ذہن کبھی کبھی بہت تیز دوڑتا ہے تاکہ ہم پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس کوشش میں وہ ٹھوکر بھی کھاتا ہے۔ ذہن کو ٹھوکر کھانے سے بچانے کے لیے بھی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ جو کچھ بھی ذہن میں پکتا، پلتا اور پنپتا رہتا ہے وہ سب باہر آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ اگر اِس معاملے میں نظم و ضبط سے کام نہ لیا جائے تو ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں نظم و ضبط کا مفہوم یہ ہے کہ ذہن میں جو کچھ بھی ہے اُسے باہر لانے کے لیے لائحۂ عمل مرتب کیا جانا چاہیے۔ کچھ بھی بول دینا کافی نہیں ہوتا۔ ذہن میں جو کچھ بھی پنپتا رہتا ہے اُسے ڈھنگ سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سوچے سمجھے بغیر‘ روانی سے بولتے جائیں تو ذہن کا مواد کچھ کا کچھ ہوکر سامنے آتا ہے۔ خیالات کو الفاظ کا سہارا درکار ہوتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب احتیاط اور سلیقے سے کیا جائے تو بات ڈھنگ سے بیان ہوتی ہے اور وہی اثر مرتب کرتی ہے جو مرتب ہونا چاہیے۔ عملی زندگی میں تذبذب کی گنجائش ہوتی ہے نہ تساہل کی۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ اُن میں کام کرنے کے لیے مطلوب صلاحیت و سکت تو ہوتی ہے مگر عزم کے معاملے میں کمزور پڑ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کچھ کرنے کے قابل ہونے پر بھی کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ انسانی فطرت کا لازمہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ نہ کیا جاسکے تو پچھتاوے کا احساس اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے۔ پچھتاوا محسوس نہ ہونے والی رفتار سے انسان کو الجھن میں مبتلا رکھتا ہے۔ بیشتر معاملات میں انسان کو کچھ خاص اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ اُس کا ذہن اِس قدر الجھا ہوا کیوں ہے۔ یہ بات بھی سمجھنا پڑتی ہے کیونکہ اندر ہی اندر کوئی چیز انسان کو کھاتی رہے تو اُس کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا چلا جاتا ہے اور اُس کی توانائی بھی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ اگر بہت کچھ کرنے کے لیے مطلوب توانائی میسر ہو مگر بروئے کار نہ لائی جاسکے تو ذہن کا خلفشار بڑھتا ہے۔ ذہن چاہتا ہے کہ اُس کی بات مانی جائے، اُس کی پیداوار کو بروئے کار لانے میں تساہل برتا جائے نہ تذبذب سے کام لیا جائے۔ اس حوالے سے بھی خاصی وقیع تربیت درکار ہوتی ہے۔ انسانی مزاج کی ایک بنیادی خاصیت یہ ہے کہ یہ بار بار عمل سے بھاگتا ہے، گریز کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔
کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ جو لوگ ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں وہ زندگی بھر الجھے رہتے ہیں؟ ٹال مٹول اور تساہل کا نتیجہ پوری زندگی کی خرابی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر بعض معاملات میں خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ خوف ہمیں تذبذب اور ٹال مٹول کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک بنیادی خوف تو یہ ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بات نہ بنے اور ساری محنت لاحاصل ٹھہرے۔ یہ خدشہ ایک خاص حد تک ہی درست ہوسکتا ہے۔ ہر وقت حالات ایسے نہیں ہوتے کہ ہمارے لیے صرف ناکامی کا سامان ہو۔ حالات کبھی موافق ہوتے ہیں اور کبھی ناموافق۔ ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے، کس معاملے کو کس حد تک لے جانا ہے۔ بہت سے مواقع پر ہمارے لیے خاصے روشن امکانات ہوتے ہیں مگر ہم بلا جواز خوف کے باعث اُن امکانات سے مستفید ہونے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہ کسی بھی معاشرے میں غالب اکثریت کا المیہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ اپنی صلاحیت و سکت کو کماحقہٗ بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اور پھر اِس کے بہت ناپسندیدہ نتائج بھی بھگتتے ہیں۔
ٹال مٹول اور تساہل کے نتیجے میں ذہن مختلف النوع خیالات کا قبرستان بنتا جاتا ہے۔ جی ہاں‘ قبرستان! خیالات صرف اِس لیے ہوتے ہیں کہ اُنہیں عمل سے روشناس کرایا جائے۔ ہر خیال پہلے مرحلے میں اظہار چاہتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اُسے عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ ٹال مٹول اور تساہل برتنے کی صورت میں وقت گزر جاتا ہے۔ ہر خیال کسی نہ کسی موقع کے لیے ہوتا ہے۔ موقع یعنی ٹائمنگ۔ اگر ٹائمنگ کا خیال نہ رکھا جائے تو مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ ہم اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ آئیڈیاز یعنی خیالات ذہن میں ابھرتے ہی رہتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ذہن میں کسی آئیڈیا کے ابھرنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ تو پہلی منزل ہوتی ہے۔ اصل کام تو اِس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی آئیڈیا کو پروان بھی چڑھانا ہوتا ہے، پختہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی آئیڈیا کے بارے میں سوچتے ہیں تب کچھ نیا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ہر آئیڈیا ہم سے محنت طلب کرتا ہے۔ اُس کے بارے میں مزید سوچنا اور اُسے پروان چڑھانا، تزئین و آرائش کے مراحل سے گزارنا لازم ہوتا ہے۔ ذہن کے پردے پر ابھرنے والا تصور یا آئیڈیا ابتدائی یا خامل شکل میں ہوتا ہے۔ انگریزی میں اِسے ون لائنر کہتے ہیں یعنی محض ایک جملے میں بیان ہونے والی بات۔ اِس ایک جملے والی بات کو خوب سوچ بچار کے بعد کہانی، ناول یا فلم کی شکل میں بیان کرنا ہی تو فن ہے۔ کوئی بھی نیا خیال کسی کے بھی ذہن کے پردے پر نمودار ہوسکتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ذہن کے پردے پر ابھرنے والے نئے خیال یا تصور کو ہم کس طور لیتے ہیں، اُس سے کیا سلوک روا رکھتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہوئے اُس پر متوجہ ہوتے ہیں اور عمل کی راہ پر گامزن بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔
وقت انسان کو بہت کچھ سکھاتا رہتا ہے۔ حالات کی روش ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اچھے حالات ذہن کو خوش رکھتے ہیں اور بُرے حالات منفی تصورت کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذہن میں بہت کچھ پنپ رہا‘ ابل رہا ہوتا ہے۔ وہ سب کا سب ہمارے کام کا نہیں ہوتا۔ ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات اور آئیڈیاز کو ہم کہاں تک اپنے حق میں بروئے کار لاسکتے ہیں۔ ذہن کو، ٹال مٹول کے ذریعے، خیالات کا قبرستان بنانا کسی بھی درجے میں دانش مندی نہیں۔ خیالات پر متوجہ ہونا چاہیے۔ ذہن کے پردے پر جو کچھ بھی نمودار ہوتا ہے اُس کے حوالے سے ذہن کو معقولیت کے دائرے میں رکھنا چاہیے۔ اِس کے لیے انہماک بنیادی شرط ہے۔ تھوڑی ہمت بھی درکار ہوتی ہے۔ خیالات کو عملی جامہ پہنانا تھوڑا سا ہمت کا معاملہ ہوتا ہے۔ لوگ اِس سے بھاگتے ہیں اور پھر اِس کے بُرے یا ناپسندیدہ نتائج بھی بھگتتے ہیں۔
طے کیجیے کہ جو کچھ بھی ذہن کے پردے پر نمودار ہوگا اُس پر متوجہ ہوں گے۔ جو کچھ اچھا ہے اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچنا ہے۔ فضول خیالات سے ذہن کو پاک کرنے ہی میں بھلائی ہے۔ بہر کیف‘ ٹال مٹول سے گریز لازم ہے تاکہ ذہن خیالات کا قبرستان ہوکر نہ رہ جائے۔