عمومی سطح پر بیزاری ایسا معاملہ ہے جس سے سبھی کتراتے ہیں۔ بیزاری کی وجوہ کیا ہوتی ہیں یا کیا ہوسکتی ہیں اِس حوالے سے اختلافِ رائے کا پایا جانا فطری ہے کیونکہ جتنے ذہن ہیں اُتنی ہی آرا۔ بیزاری سمیت تمام معاملات کو سبھی اپنے اپنے ذہن کی مدد سے دیکھ اور پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ اختلافِ رائے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم نہ سمجھا جائے۔ جب کسی معاملے میں بہت سی آرا سامنے آتی ہیں تب لازم ہو جاتا ہے کہ اُن کے موازنے کے ذریعے بہترین کا انتخاب کیا جائے اور اگر کسی کی رائے اچھی لگ رہی ہو تو اُسے اپنایا بھی جائے۔
ہم سب کسی نہ کسی حوالے سے بیزاری محسوس کرتے رہتے ہیں۔ بیزاری کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ جب بھی ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تب بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ واقعی کرنے کو کچھ نہیں ہوتا یا ہم اپنی مرضی کا کام ملنے تک کچھ کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ہوتا یہ ہے کہ ہم کام کے معاملے میں رغبت کا وہ درجہ نہیں دکھا پاتے جو دکھانا چاہیے۔ کوئی بھی کام بحسن و خوبی تکمیل سے ہم کنار ہونے کے لیے ہم سے بھرپور توجہ یا انہماک کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر ہم پوری توجہ سے کام نہ کریں تو مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
بیزاری سے کترانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ستم ظریفانہ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں بیزاری انسان کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ جو لوگ عمل پسند رویے کے حامل ہوتے ہیں وہ کسی بھی کام کو جامع ترین انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ذہن تیار رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ٹائم مینجمنٹ کے معاملے میں بھی بہت آگے ہوتے ہیں یعنی وقت کو بہترین اور مؤثر ترین انداز سے بروئے کار لانے کے معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کر رہے ہوتے۔ اِنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کا معیار بلند کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وقت ضائع نہ کیا جائے۔
کسی بھی انسان کے لیے حقیقی بیزاری اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ وقت کی تنظیم و تطبیق کے معاملے میں بُودے پن کا مظاہرہ کرتا ہے یعنی طے نہیں کر پاتا کہ کب کیا کرنا ہے۔ جب وقت کے معاملے میں غفلت اور بُودے پن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تب معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ آج کی دنیا ہم سے قدم قدم پر وقت کے حوالے سے بھرپور احساس اور شعور کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا بھر میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے حصے کے وقت کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ اب وقت ہی سب کچھ ہے؟ بات یہی ہے مگر وقت کب سب کچھ نہیں تھا؟ ڈھائی‘ تین ہزار سال کی تاریخ کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر عہد کے اہلِ دانش نے وقت کے معاملے میں سنجیدگی اختیار کرنے ہی کو زندگی بسر کرنے کی بہترین طرز گردانا ہے۔ ہر عہد کے اہلِ علم و فن نے دولت ہی کو سب سے بڑی دولت قرار دیا ہے۔ کسی بھی عہد کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے تو آپ اِسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس نے معیاری انداز سے جینے کے معاملے میں وقت کو نظر انداز کیا وہ مارا گیا۔ ہر دور کے انسان کے لیے مختلف معاملات میں ٹائمنگ ہی تو کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ فی زمانہ وقت سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں۔ اب مسئلہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ وقت کی کمی کا احساس خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ہر انسان یہ محسوس کر رہا ہے کہ جو کچھ اُسے جاننا، سمجھنا اور کرنا ہے اُس کے مقابلے میں وقت ہے ہی نہیں۔ بیشتر معاملات میں ہوتا یہ ہے کہ انسان جب تک کچھ سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے اور کچھ کرنے کا ذہن بناتا ہے تب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے!
وقت کی تنظیم و تطبیق کے معاملے میں برتی جانے والی لاپروائی تمام معاملات کو الجھاتی ہے۔ ایسے سبھی لوگ بیزاری محسوس کرتے رہتے ہیں جو وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ عمومی سطح پر پایا جانے والا تصور یہ ہے کہ جب انسان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تب وہ بیزاری محسوس کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کب ہے کہ انسان کے لیے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو۔ یہ دنیا عمل سے عبارت ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کرے تو کرنے کو بہت کچھ ہے۔ گزرتے ہوئے ادوار میں ٹیکنالوجیز نہیں تھیں لہٰذا کام میں تیزی نہیں تھی۔ تب انسان کے لیے فراغت ہوا کرتی تھی۔ زندگی کی رفتار بہت سست تھی۔ اس کے نتیجے میں کام بھی بہت معمولی رفتار سے پایۂ تکمیل کو پہنچا کرتا۔ تب بیزاری کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ وقت بے پایاں محسوس ہوتا تھا اور انسان کے لیے پوری دلچسپی برقرار رکھتے ہوئے کچھ کرنا انتہائی دشوار تھا۔ تب وہ لوگ بہت الجھن محسوس کرتے تھے جن کے ذہن تیز ہوا کرتے تھے۔ ذرا سوچئے کہ جن کے ذہن تیز تھے اُنہیں ماحول کی سستی سے اس وقت کتنی تکلیف ہوتی ہوگی جب وہ اپنی ضرورت کے مطابق آلات حاصل کرنے اور کام کو تیزی سے مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہوں گے۔ تب بیزاری کا پیدا کرنا فطری امر تھا۔ لوگ معاشی سرگرمیوں کی تکمیل کے بعد بھی یومیہ بنیاد پر اِتنا وقت گزارتے تھے کہ بیزاری محسوس کرنا عمومی معاملہ تھا۔ آج کا انسان بیزاری کا شکوہ کیسے کرسکتا ہے؟ اب ٹیکنالوجیز کی مدد سے کرنے کے لیے اِتنا کچھ ہے کہ انسان کو کسی بھی حال میں حقیقی، راحت بخش فراغت میسر ہو ہی نہیں سکتی۔ آج اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اُس کی زندگی بیزاری کی نذر ہو رہی ہے تو یقین کرلیجیے کہ وہ واقعی ذہن سے فارغ ہے! جس نے کچھ کرنے کا طے کر رکھا ہو اُس کے لیے تو وقت کی کمی کا مسئلہ سب سے بڑے دردِ سر کی صورت میں ہر وقت موجود رہتا ہے۔
آج کے انسان کو سب سے زیادہ دھیان وقت کے بہترین استعمال پر دینا ہے۔ کرنے کے لیے واقعی بہت کچھ ہے اور اب یہ طے کرنا بہت بڑا دردِ سر ہے کہ کوئی کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے میں اگر کچھ کرنے کا ذہن نہ بن پائے تو بیزاری فطری امر ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد شدید بیزاری محسوس کرتے رہتے ہیں۔ وقت کم رہ گیا ہے اور بہت کچھ کرنا ہے۔ ذہن الجھا رہتا ہے۔ دنیا کی کشش بڑھ چکی ہے۔ انسان یہاں کی رنگینیوں میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ جب کسی کو اپنے حواس پر اختیار نہیں رہتا یعنی دنیا کی رنگینیاں ذہن کو اپنی طرف متوجہ کیے رہتی ہیں تب کچھ کرنے کا ذہن بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں صلاحیت و سکت کا ڈھنگ سے بروئے کار لانا ممکن نہیں رہتا۔ وقت کی تنظیم و تطبیق کے معاملے میں لاپروائی کی گنجائش نہیں۔ اگر کچھ کرنے کا من ہے تو انسان کو یہ ہنر سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ وقت کی رفتار کبھی تبدیل نہیں ہوتا، ہاں‘ اُس کے گزرنے کا احساس بدلتا رہتا ہے کیونکہ یہ ہمارے ذہن کا معاملہ ہے۔ آج کے انسان کو وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دنیا بہت الجھی ہوئی ہے، ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت بڑھ گئی ہے۔ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور اِس کے لیے کسی کو دھکیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کی دُھن میں لوگ انصاف اور اعتدال برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔
بیزاری سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے‘ کہ اپنے آپ کو عمل کی دنیا کے حوالے کیجیے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ کر گزریے۔ محض سوچتے رہیے گا تو الجھتے ہی رہیے گا۔ زندگی قدم قدم پر الجھنوں سے عبارت ہے۔ اگر کسی کو نام کمانا ہے تو پورے وجود کو بروئے کار لانا ہوگا۔ بیٹھے بٹھائے کچھ مل جانا ممکن ہی نہیں۔ جو لوگ زندہ رہنے کو میلے کی سیر جیسا معاملہ سمجھتے ہیں وہ بالآخر بیزاری کے گڑھے میں گرتے ہیں۔ خوش دِلی کے ساتھ وہی جی پاتے ہیں جو اپنے حصے کا کام بحسن و خوبی انجام دینے کی تیاری کر پاتے ہیں۔ بیزاری جنہیں چھوکر بھی نہیں گزرتی۔