"MIK" (space) message & send to 7575

بچے راہ نکال لیتے ہیں

آپ نے چُھوئی موئی کا پودا دیکھا ہے؟ اِس پودے کو ہاتھ لگائیے تو شرما جاتا ہے، سمٹنے لگتا ہے۔ کچھ لوگ چھوئی موئی کے پودے ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ اِتنے نازک ہوتے ہیں کہ ذرا ہاتھ لگائیے تو اپنے اندر سمٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ زندگی بھر کھل کر بات کرنے کا ہنر تک سیکھ نہیں پاتے۔ بیشتر مواقع پر اِن کی شخصیت کا ادھورا پن اِس طور ظاہر ہو رہتا ہے کہ خود اِن کی بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ معاملات کی درستی کے لیے کیا کریں۔ بچوں کی تربیت میں اِس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو بروئے کار لانا سیکھیں۔ اگر والدین یا سرپرست اُن میں غیر معمولی حد تک نزاکت پیدا کردیں تو شخصیت کا فروغ رُک جاتا ہے۔ پھر وہ زندگی بھر اپنے وجود کے تقاضوں کے مطابق پنپ نہیں پاتے۔ بچوں کو بہتر شخصیت پروان چڑھانے کے قابل بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُنہیں وہ سب کچھ کرنے دیا جائے جو وہ کرسکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں بچوں کو ہماری مدد کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہوتی مگر ہم اپنی ''رضاکارانہ‘‘ خدمات کے ذریعے اُن کی زندگی سے اچھی خاصی رنگینی ختم کر دیتے ہیں۔ ہر طبقے اور ہر عمر کا بچہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ مدد کی خواہش ہوتی بھی ہے تو بس اِس قدر کہ کوئی نگرانی کرے اور کسی مشکل میں پڑنے پر اُنہیں نکال لے۔ اپنے طور پر کچھ کرنے کا خواہش مند ہونا بچوں کا فطری معاملہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی عمر میں دنیا بچوں پر منکشف ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے سب کچھ دیکھتے، سمجھتے اور سیکھتے جاتے ہیں۔ اُنہیں اِس راہ پر آگے بڑھنا ہوتا ہے مگر اپنے طور پر۔ وہ ہر معاملے میں اِس بات کے خواہش مند نہیں ہوتے کہ کوئی اُن کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ اِس کی بہترین اور نمایاں ترین مثال یہ ہے کہ بچہ جب بیٹھنا سیکھ چکتا ہے تو گھٹنوں کے بل چلنے کی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔ اِس مرحلے میں وہ اس بات کو بالکل پسند نہیں کرتا کہ کوئی اُسے پکڑ کریا گود میں لے کر منتقل کرے۔ وہ اپنے بل پر یعنی گھٹنوں کے بل پر اِدھر سے اُدھر ہوتا رہتا ہے۔
بچوں کی معقول تربیت میں اس بات کا بھی اہم کردار ہوتا ہے کہ ہم اُن کے مزاج آشنا ہوں۔ ہر بچے کا مُوڈ مختلف ہوسکتا ہے، مزاج کا فرق بھی بعید از قیاس و امکان نہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے معاملات بچوں کے لیے مسلّمات کا درجہ رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملے میں سارے بچے ایک جیسے مزاج کے ہوتے ہیں مگر ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے معاملے میں سب کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ پھر بھی ایک بات تمام بچوں میں قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہے ‘وہ یہ کہ وہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں ہمیں اُن کے مزاج کی بنیادی خصوصیت کو سمجھنا ہوتا ہے۔ بیزاری محض بڑوں کا نہیں، بچوں کا بھی معاملہ ہے۔ کبھی کبھی بچے بھی شدید بیزاری محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب یکسانیت کا گراف بہت بلند ہوجائے یعنی کچھ نیا نہ ہو رہا ہو۔ بچے کچھ نہ کچھ نیا چاہتے ہیں۔ اگر اِس کی گنجائش نہ نکل پارہی ہو تو وہ شدید بیزاری محسوس کرتے ہیں اور اُنہیں بیزار دیکھ کر والدین یا گھر کے دیگر افراد بھی الجھن سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کیا بچوں کو بیزار دیکھ کر اُن کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے؟ اِس سوال کا جواب آسبرگ‘ جرمنی میں قائم دی انسٹیٹیوٹ آف جنریشن ریسرچ کے بانی ڈائریکٹر معروف ماہرِ نفسیات اور مصنف ریوڈیگر ماس نفی میں دیتے ہیں۔ ریوڈیگر ماس ''happiness vs frustration: Why boredom and Obstacles make our children strong‘‘ کے مصنف ہیں۔ اِس کتاب میں انہوں نے اِس نکتے پر بحث کی ہے کہ کسی بھی بچے کے لیے سب سے بڑی خوشی اِس بات میں مضمر ہوتی ہے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کرے۔ وہ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو آزمانا چاہتا ہے۔
ایک انٹرویو میں ریوڈیگر ماس نے کہا ہے کہ بیزاری بچوں کو کچھ نیا کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ جب بچے بہت بیزار ہو جاتے ہیں تب معاملات کو تھوڑا بہت رنگین بنانے کے لیے اپنے طور پر کچھ کرتے ہیں۔ اِس سے اُن میں تخلیقی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ بچے جب اپنے طور پر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب اُن کا ذہن مختلف جہتوں میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر اُنہیں اپنے طور پر کچھ کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے تو ذہن کی نشو و نما رُک سی جاتی ہے۔ اِس میں تو خیر کوئی شک نہیں کہ بیزاری منفی معاملہ ہے مگر جب بیزاری بہت بڑھ جاتی ہے تب بچے اُس سے نجات پانے کا کوئی ایسا طریقہ سوچتے ہیں جو صرف اُن کا معاملہ ہوتا ہے یعنی اِس مرحلے میں اُن کی مدد کرنے کے لیے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُنہیں اپنے طور پر کچھ کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اِس طور وہ کسی بھی مسئلے کو مختلف طریقوں سے حل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں اور یوں اُن کا ذہن پنپتا جاتا ہے۔
ریوڈیگر ماس کہتے ہیں کہ بچے جب اپنے معاملات اپنی ذہانت سے درست کرنا سیکھتے ہیں تب بڑی عمر میں بھی بڑوں کے محتاج نہیں ہوتے، بات بات پر اُن کی طرف نہیں دیکھتے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بہت سے نوجوان بیشتر معاملات میں اُسی وقت الجھن محسوس کرتے ہیں جب بچپن میں بات بات پر اُن کی مدد کی گئی ہو، اُنہیں اپنے طور پر کچھ کرنے سے روکا گیا ہو یا حوصلہ افزائی نہ کی گئی ہو۔ اِس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ جن بچوں کو ناز و نعم سے پالا گیا ہو اور تربیت میں خود کچھ کرنے کا پہلو نہ رکھا گیا ہو وہ نوجوانی میں کسی لڑکی کی طرف سے ٹھکرائے جانے کو بھی برداشت نہیں کر پاتے اور جی کو روگ لگا بیٹھتے ہیں۔ ایسے معاملات میں بڑے بھی اُن کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ بالآخر اِس بحران سے نکلنے کا راستہ اُنہی کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔
ریوڈیگر ماس اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ والدین سمجھ لیں کہ بچوں کی بیزاری بچوں کا مسئلہ ہے، اُن کا نہیں۔ آگے بڑھ کر اُن کی مدد کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک طرف بیٹھ کر تھوڑا سا تماشا دیکھا جائے۔ دس پندرہ منٹ میں بچے اپنی بیزاری اور اُکتاہٹ ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ خود سوچ کر اُس پر عمل بھی شروع کردیتے ہیں۔ ہاں، جب وہ اپنی بیزاری ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تب اُن کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ بہت سے کام بچے خود کرنا چاہتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ اگر سکول زیادہ دور نہ ہو تو بچوں کو اپنے طور پر جانے اور واپس آنے کی تحریک دینی چاہیے۔ پانچویں یا چھٹی جماعت سے بچے خود سکول جانا سیکھ سکتے ہیں۔ یہ عمل اُنہیں ماحول کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور وہ ماحول سے ہم آہنگ ہونا سیکھتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر بچوں کو سکول چھوڑ آنے میں پانچ منٹ لگتے ہیں مگر اِس عمل میں بچے ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ ریوڈیگر ماس کہتے ہیں جب بچے اپنے طور پر کچھ کرنا چاہیں تو والدین کو خوش ہونا چاہیے۔ عملی زندگی کی طرف بڑھنے کا پہلا قدم یہی ہے۔ اِس مرحلے میں بچوں کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تحمل بھی لازم ہے۔ یاد رکھیے کہ آپ والدین ہیں، تفریح کا سامان کرنے والے فنکار نہیں۔
بہت سے والدین کا خیال ہے کہ بچوں کو زیادہ وقت اور تعلیم دینا اُن کے لیے بہتر نتائج کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ یومیہ بنیاد پر بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے وہ اختتامِ ہفتہ پر بچوں کو بہت زیادہ وقت دیتے ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ والدین کی طرف سے بہت زیادہ توجہ بچوں کو مطلوب نہیں ہوتی۔ وہ فراغت کے لمحات اپنے طور پر گزارنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی چیز کی زیادتی بچوں کو لازمی طور پر خوش نہیں رکھتی۔
بچوں کی معقول تربیت میں تحمل کا بہت اہم کردار ہے۔ والدین کو بہت کچھ محض دیکھتے رہنا ہے، لازمی طور پر آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا نہیں کرنا۔ بچوں کو بیزاری محسوس کرنے دیجیے۔ وہ خود ہی کوئی راہ نکال لیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں