انسان خواہشوں کا مجموعہ بھی ہے اور غلام بھی۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ خواہشوں کی غلامی سے مکمل طور پر بچ نکلنے میں کامیاب رہا ہے۔ ہر انسان زندگی بھر خواہشوں کے دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ چند خواہشیں جائز بھی ہوتی ہیں اور اُن پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان جائز اور معقول خواہشوں کو ایک طرف ہٹاکر زندگی بھر بے جا اور انتہائی نامعقول نوعیت کی خواہشات کے شکنجے میں پھنسا رہتا ہے۔ یہ اپنی مرضی کا سَودا ہے۔ کوئی بھی خواہش خود آکر گلے نہیں لگتی اور حلق میں ہڈی بن کر نہیں پھنستی بلکہ ہم اُسے اپنی طرف بلاتے ہیں، اُس کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ جب ایسی طرزِ فکر و عمل ہوگی تو کوئی بھی خواہش گلے کا ہار اور پھر پھندا کیونکر نہ بنے گی؟ خواہشوں کی غلامی کا طوق گردن سے اُتار پھینکنے میں مکمل کامیابی کسی بھی دور کے انسان کے نصیب میں نہیں تھی۔ آج کا انسان زیادہ الجھن میں ہے کیونکہ خواہشیں بہت زیادہ ہیں۔ حیران کُن مادّی ترقی نے ذہنوں کو الجھنوں کا گودام بنا ڈالا ہے۔ ہر انسان مرتے دم تک خواہشوں کے دائرے ہی میں گھومتا رہتا ہے۔ تھوڑی سی رعایت دیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کا انسان شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امکانات بہت زیادہ ہیں۔ انسان جب اپنے ماحول کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے ہر طرف صرف امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دن رات یہی سوچتا رہتا ہے کہ یہ کام کرے یا وہ کام کرے۔ امکانات کی بہتات نے خواہشوں کی بہتات کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پاتے کیونکہ ذہن ہر وقت الجھا رہتا ہے، خواہشوں اور امکانات کے بارے میں سوچتے رہنے ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ مجموعی کیفیت یہ ہے کہ ؎
یوں خواہشوں کے زیرِ تصرف ہے دل مرا
جیسے کوئی پتنگ ہواؤں کی قید میں
ہر ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہوا امکان کا معاملہ! اب سوال صرف یہ ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر سب کچھ نہیں کرسکتے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرلے۔ یہ محض خواہش ہی ہے جو کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی۔ کوئی بھی انسان کبھی اِتنا طاقتور نہیں ہوسکتا کہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوسکے۔ پھر بھی لوگ‘ بے بضاعتی کے باوجود‘ بے جا خواہشوں کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ساحرؔ لدھیانوی نے ایسی ہی کیفیت کے لیے کہا تھا ع
رہنے کا گھر نہیں ہے‘ سارا جہاں ہمارا
ہمیں زندگی بھر معقولیت کا دامن تھامے رہنا ہے۔ معقولیت یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھے اور ترجیحات کے تعین میں ایسا عدم توازن نہ دکھائے کہ سبھی کچھ بگڑ جائے۔ خواہشیں پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں کیونکہ انسان ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ اُسے کچھ نہ کچھ مزید پانے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ انسان کچھ نیا یا مزید پانے کی خواہش کے زیرِ اثر یہ بھول جاتا ہے کہ کسی بھی خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سکت بھی درکار ہوتی ہے اور قابلیت بھی۔ کسی بھی خواہش کو گلے لگانے میں کوئی کمال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ اُس خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کی اپنی کوشش کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ ویسے تو ہر دور کے انسان کو خواہشوں کے ہاتھوں شدید الجھنوں کا سامنا رہا ہے مگر آج یہ معاملہ اِس لیے بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ امکانات کی بہتات کے باعث ذہن فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہر انسان کے سامنے امکانات کا میلہ لگا ہوا ہے۔ جو کچھ ایجاد اور دریافت ہوچکا ہے وہ اِتنا زیادہ ہے کہ اُس سے مکمل استفادہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ لوگ اس حوالے سے بہت کچے ذہن کے ثابت ہو رہے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ سوچے سمجھے بغیر جیے اور کامیابی سے ہم کنار ہو۔ ایسا کسی بھی دور میں نہیں ہوا تو اب کیونکر ہونے لگا؟ اگر کسی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار اور سکھی زندگی بسر کرنی ہے تو منصوبہ سازی کرنا پڑے گی، اپنے آپ کو ایسے بہت سے کاموں کے لیے تیار کرنا پڑے گا جو بالعموم ترجیحات میں سرِ فہرست نہیں ہوتے۔ اور حق تو ہے یہ کہ کبھی کبھی یہ کام ترجیحات کا حصہ بھی نہیں ہوتے۔
کاروباری ادارے جس طور باضابطہ انتظامی شعبہ قائم کرتے ہیں بالکل اُسی طور ہر گھر میں انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ اور اِس سے بھی کہیں بڑھ کر ہر انسان اپنے لیے منتظم یعنی منیجر کا کردار ادا کرنا ہے۔ اِس کردار کے اچھی طرح ادا کیے جانے کی صورت ہی میں زندگی کامیابیوں سے ہم کنار رہ سکتی ہے۔ زندگی انتظام و انصرام چاہتی ہے۔ یہ انتظام و انصرام بنیادی طور پر صرف اِس بات کے لیے ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو بے لگام ہونے سے روکے اور اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں درپیش مشکلات سے گلو خلاصی ممکن بنائے۔ یہ محض بحث و تمحیص کا معاملہ نہیں بلکہ عملی رویہ اپنانے کی چیز ہے۔ ہر انسان کو اپنے تمام معاملات کا جائزہ لے کر خواہشوں اور ترجیحات کے درمیان توازن قائم کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے شعوری سطح پر متحرک ہونا ہی پڑے گا۔
خواہشوں کی درجہ بندی ناگزیر ہے۔ ہر خواہش اِس قابل نہیں کہ اُسے بنیادی خواہشوں میں شامل کیا جائے۔ انسان پتا نہیں کیا کیا دیکھتا اور سوچتا رہتا ہے۔ ذہن کے پردے پر بہت کچھ ابھرتا ہے اور پھر غائب بھی ہو جاتا ہے۔ ذہن کے پردے پر ابھرنے والی ہر تصویر اِس قابل نہیں ہوتی کہ اُسے محفوظ کیا جائے، دل سے لگاکر رکھا جائے۔ اگر انسان ایسا کرنے لگے تو ذہن کسی کام کا نہ رہے۔ بہت کچھ ہمیں نظر انداز کرنا پڑتا ہے تاکہ ذہن پر سے بوجھ کم ہوتا چلا جائے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ذہن محض کباڑ خانہ ہوکر رہ جائے۔ جو لوگ کچھ کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے اُن کے ذہن بالآخر کباڑ خانوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ آج کی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور زندگی کا انتہائی بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے معاملات کو درست رکھنے پر توجہ دینے کے معاملے میں اُسی سوچ کا مظاہرہ کرے جو کسی بڑے کاروباری ادارے کے منتظمِ اعلیٰ میں دیکھنے ملتی ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر انتظام و انصرام چاہتی ہے۔ اِس کیلئے پہلے اور سب سے بنیادی مرحلے میں ہمیں خواہشوں اور ترجیحات کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلے سے کامیاب گزر جائیے تو سمجھ لیجیے آپ کا کام نصف کی حد تک آسان ہوگیا۔ خواہشوں کے معاملے میں بیدار مغز رہنا لازم ہے۔ ذہن کو یکسُوئی سے ہم کنار کیے بغیر ہم خواہشوں کو منطقی حدود میں رکھنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ انسان زندگی بھر مختلف حوالوں سے تگ و دَو کرتا رہتا ہے۔ ایک بڑی تگ و دَو خواہشوں سے نپٹنے کی بھی ہے۔ بہت سے اِسی تگ و دَو میں کھپ جاتے ہیں۔
آپ نے کیا سوچا ہے؟ خواہشوں کا دریا تو آپ کے ذہن میں بھی بہتا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پریشان اور شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ تو فطری امر ہے۔ ہاں‘ خواہشوں کے دریا میں بہتے چلے جانا کسی بھی طور دانش مندی نہیں۔ خود کو اِس دریا کے ریلوں میں بہنے سے بچانا ہے۔ اور اِس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ دریا کبھی کنارے توڑ کر نہ بہے۔ خواہشوں کے ریلے اگر سیلابی کیفیت پیدا کریں تو زندگی یوں بہہ جاتی ہے کہ بس دیکھتے ہی بنتی ہے۔ خواہشوں کی درجہ بندی بھی لازم ہے۔ اِس درجہ بندی ہی سے یہ طے ہو پاتا ہے کہ ہم اپنی اہلیت، مہارت اور سکت سے کس حد تک کام لے سکتے ہیں۔ اگر خواہشوں کی درجہ بندی پر توجہ نہ دی جائے تو بے جا خواہشیں ہماری صلاحیت و سکت کو ڈکار جاتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے لیے اہم نہ ہو اُس کے کرنے میں اپنے آپ کو نہیں کھپانا چاہیے۔ فی زمانہ ذہن کو سلامت رکھنے کی سب سے کارگر تدبیر یہی ہے۔ آج ہر انسان کو اپنے لیے منیجر کا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کردار لامحدود خواہشوں اور ترجیحات کے درمیان توازن قائم رکھنے سے متعلق ہے۔ وقت، وسائل اور قابلیت‘ سبھی کچھ محدود ہے۔ خواہشیں لامحدود ہیں۔ ہمیں معقول ترین خواہشوں ہی کو اہم گرداننا ہے۔