آج کا انسان بہت کچھ جانتا ہے۔ کیا اس لیے کہ وہ جاننے کا شوقین ہے؟ یہ بات نہیں ہے! معاملہ کچھ یوں ہے کہ جاننے کا عمل اب بہت حد تک غیر محسوس ہے۔ ماحول ہی کچھ ایسا ہے کہ انسان کو بہت کچھ معلوم ہوتا رہتا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، حالات اور ماحول دونوں مل کر اُسے ''بے جانا‘‘ رہنے نہیں دیتے۔ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ نے مل کر آج کے انسان کو معلومات کے چلتے پھرتے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ ہر انسان کو مختلف ذرائع سے اور مختلف سطحوں پر بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے اور وہ معلومات کے ڈھیر میں گم ہوتا جاتا ہے۔ معلومات کے انبار میں اس طرح گم ہو جانے کو کسی بھی اعتبار سے نعمت قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ انسان کو ایسا بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے جو اُس کے کام کا نہیں ہوتا۔ جو کچھ کام کا نہ ہو یعنی ہماری کوئی غرض پوری نہ کرسکتا ہو وہ پھر چاہے کتنا ہی کام کا ہو، ہمارے لیے تو بالکل فضول ہی ہے۔ اگر کسی کو انجینئرنگ کی کتاب مفت مل جائے اور شرط یہ ہو کہ خود پڑھے گا، کسی کو دے گا نہیں اور بیچے گا بھی نہیں تو بتائیے کہ اُس کتاب کا وہ کیا کرے گا اگر انجینئرنگ میں برائے نام بھی دلچسپی نہ ہو؟ کوئی بھی انسان بازار سے کبھی کوئی ایسی کتاب نہیں خریدتا جو اُس کے پسندیدہ موضوعات سے ہٹ کر کسی موضوع پر ہو۔ ایک زمانے سے ماہرین اِس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان کو جو بہت اچھا لگتا ہو وہی کام کرنا چاہیے کیونکہ اُس کی دلچسپی بھی بہت حد تک برقرار رہے گی اور وہ کبھی یہ شکوہ بھی کرتا ہوا نہیں پائے گا بہت کچھ دل پر پتھر رکھ کر کرنا پڑ رہا ہے۔
سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ ہمیں ایسا بہت دیتا ہے جو ہماری معلومات میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ علم کے حوالے سے بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مغالطہ تو یہ ہے کہ جو کچھ بھی معلوم ہوجائے وہ علم ہے۔ ہم ایسا بہت کچھ جانتے ہیں جو ہمیں مختلف معاملات کی محض ادھوری سی جھلک دکھاتا ہے۔ بہت سے معاملات میں حقائق اور معمولات کا حامل ہونا کسی بھی اعتبار سے علم کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی بھی شعبے کے بارے میں ٹھوس علم ہی ہمارے لیے کام ثابت ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی معلومات سے ذہن کو بھر لینا اُسے کباڑ خانے میں بدل ڈالنا ہے۔
فی زمانہ سوشل میڈیا نے علم کے حوالے سے انسان کی محرومی اِتنی بڑھادی ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی معقول صورت دکھائی نہیں دیتی۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہم دنیا بھر کی معلومات جمع کرتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ معلومات بیسیوں شعبوں سے متعلق ہوتی ہیں۔ متن کے علاوہ سمعی و بصری مواد بھی ہمیں گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ سوشل میڈیا پر مواد کی بہتات اِتنی ہے کہ انسان کے لیے سنبھلنا مشکل ہوگیا ہے۔ تواتر سے اِتنا مواد آتا رہتا ہے کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی خود کو روک پانا آسان نہیں ہو پاتا۔ یہی وہ کمزوری ہے جس کا سوشل میڈیا کے ذریعے مال بٹورنے والے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کامیابی صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پوسٹ کو دیکھیں۔ جس کی پوسٹ جتنی زیادہ دیکھی جائے گی وہ اُتنا ہی مال پائے گا۔ جب پوسٹ دِکھانا مقصود ہو تو لامحالہ ایسا مواد اَپ لوڈ کیا جائے گا جو معیار سے ہٹ کر ہوگا۔ عام آدمی معیاری چیز کو کہاں پسند کرتا ہے؟ اُسے تو وہ مال چاہیے جو سنسنی خیز بھی ہو اور متنازع بھی۔ غیر متنازع مواد کو پڑھنے، دیکھنے اور سُننے والے سینکڑوں جبکہ غیر معیاری اور متنازع و سنسنی خیز مواد سے محظوظ ہونے والے لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ آج کے انسان کو فضول معاملات کی دلدل سے نکال کر کام کے معاملات میں دلچسپی لینے کی تحریک دینا ایسا کام ہے کہ ع
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
اب نئی اور پرانی نسل کا فرق بھی مٹ چکا ہے۔ سبھی ایک کشتی کے سوار ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ تصور کرکے بات کی جاتی تھی کہ نئی نسل بہت تیزی سے فضول معاملات کی طرف پھسل اور لڑھک جاتی ہے۔ سکول اور کالج کی سطح پر انسان بہت عجیب رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔ اٹھتی جوانی میں جذبات بے قابو ہوتے ہیں۔ دنیا کو مٹھی میں لینے کی تمنا انسان کو اپنا غلام بنائے رکھتی ہے۔ جذبات کے نام پر محض جذباتیت ہوتی ہے۔ کیریئر بنانے کے نام پر محض دل پشوری والے کام کیے جاتے ہیں۔ والدین، بزرگ اور اساتذہ جامع راہ نمائی نہ کریں تو نئی نسل کے بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے۔ نئی نسل کسی بھی معاملے میں ٹھوس اور جامع علم کے حصول سے کتراتی ہے۔ وہ میلے کی سیر کرنا چاہتی ہے۔ میلے میں انسان بہت کچھ دیکھتا جاتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے۔ میلے کی رونق میں گم ہوکر انسان کچھ دیر کے لیے میلے سے باہر کی دنیا کو بھول جاتا ہے۔ نئی نسل کا بھی یہی حال ہے۔ وہ سوشل میڈیا کی دنیا میں ایسی گم رہتی ہے کہ حقیقی دنیا کو بھول جاتی ہے۔ اُسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اٹھتی جوانی کا دور کچھ دیر میں گزر جانا ہے۔ اِس کے بعد کی زندگی کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہے۔ سب سے پہلے تو باضابطہ تعلیم مکمل کرنی ہے۔ اس مرحلے سے گزرنے پر قابلیت کا معیار بلند کرنے کے لیے تربیت کا اہتمام کرنا ہے یعنی زندگی کے عملی پہلو سے رُوشناس ہونا ہے۔ یہ سب کچھ خود بخود ہو جانے والے معاملات نہیں۔ ذہن بنانا پڑتا ہے، فیصلے کرنا پڑتے ہیں، مزاج کو قابو میں رکھنا پڑتا ہے، نفسی ساخت کی بہت سی خرابیوں کو دور کرنا پڑتا ہے، بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے اور بہت کچھ ''اَن سیکھا‘‘ کرنا پڑتا ہے۔ ذہن میں بھری ہوئی فضول باتوں سے نجات پانے کی صرف ایک صورت ہے‘ وہ یہ کہ انسان کام کی باتوں میں گم رہے اور اُن کے حوالے سے طبیعت کی تہذیب و تطہیر کرتا رہے۔
اپنے آپ کو زندگی کے لیے بہتر طور پر تیار کرنے کا عمل پوری زندگی پر محیط ہے۔ عمر کے ہر مرحلے میں یہ عمل جاری رکھنا پڑتا ہے۔ سیکھنے اور اَن سیکھا کرنے کا عمل کبھی رُکتا نہیں۔ کامیاب زندگی بسر کرنے والوں کے بنیادی معاملات کا جائزہ لے کر ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کامیاب زندگی یقینی بنانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اِس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جو کچھ ہم سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن ذرائع سے حاصل کرتے ہیں وہ سب کا سب علم یعنی نالج نہیں ہے۔ معلومات کو علم کا مقام نہیں دیا جاسکتا۔ کسی بھی معاملے میں چند ایک باتیں، چند ایک حقائق یا اعداد و شمار ہمیں دلکش معلوم ہوسکتے ہیں مگر اُن کی بنیاد پر ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم نے متعلقہ شعبے کا حقیقی علم حاصل کرلیا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین جو کچھ سوچتے اور لکھتے ہیں وہ بڑے جرائد میں مبسوط مضامین کے پیرائے میں یا پھر کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر جامع اور مبسوط تحقیق متعلقہ شعبے سے شغف رکھنے والوں کی توجہ چاہتی ہے۔ اُس تحقیق سے مستفید ہونے ہی پر کوئی رائے قائم ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے ذریعے معلومات کے جو ''ٹکڑے‘‘ ہم تک پہنچتے ہیں وہ فکر و نظر کے معاملے میں ہماری راہ نمائی نہیں کرسکتے۔
علم اُنہیں نصیب ہوتا ہے جو میلے کی سیر کا شغف چھوڑ کر کہیں ٹِکتے ہیں اور پوری سنجیدگی کے ساتھ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے شعبوں کے بارے میں ذرا ذرا سا جاننے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ انسان پوری توجہ کے ساتھ ایک یا دو شعبوں کے بارے میں بھرپور علم رکھتا ہو۔ ٹھوس علم ہی زندگی کی بنیادیں مستحکم کرتا ہے اور انسان معاش سمیت ہر میدان میں کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی پوسٹیں ہمارا وقت بھی کھارہی ہیں اور انہماک بھی منتشر کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ زندگی جیسی نعمت میلے کی سیر پر ضائع کرنے کے لیے تو عطا نہیں کی گئی۔ سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات سے بھی مستفید ہوا جاسکتا ہے مگر ایک خاص حد تک۔ سوال علم کا ہے اور علم ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ایک یا دو شعبوں تک محدود رہنے کی صورت میں عطا ہوسکتا ہے۔ یہ منصوبہ سازی کا معاملہ ہے۔ ذہن کو معلومات کے حصول کا چسکا لگ چکا ہو تو علم کی منزل بہت دور ہو جاتی ہے۔