"MIK" (space) message & send to 7575

شہروں کا عذاب ناک پھیلاؤ

دنیا بھر میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقلِ مکانی یعنی مستقل سکونت اختیار کرنے کا رجحان اب بھی بہت طاقتور ہے۔ یہ رجحان پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ نمایاں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی لوگ دیہی ماحول کو ترک کرتے ہیں مگر رفتار کم ہے اور اِس کا بنیادی سبب بنیادی سہولتوں سے ہم کنار رہنا ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں منصوبہ ساز اس حقیقت کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں کہ شہروں کو پھیلنے دینا اور اُنہیں کاروبار کے نکتے سے زیادہ قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں لوگوں کو بساتے رہنا کسی بھی اعتبار سے نہ تو معیشت کے لیے سُود مند ہے اور نہ ہی معاشرت کے لیے۔ کنزیومر اِزم کے نقطۂ نظر سے شہروں کا پھیلاؤ بہت اچھی بات ہے کیونکہ سرمایہ دار کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ صارفین درکار ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ کمائیں اور خرچ کریں یعنی زندگی ان دو سرگرمیوں ہی میں کھپ جائے۔ کنزیومر اِزم کو فروغ دینے اور طرزِ زندگی کا حصہ بنانے کے لیے بڑے شہر ناگزیر ہیں اور چھوٹے شہروں کو پھیلاتے رہنا بھی ضروری ہے۔ دنیا بھر میں کنزیومر اِزم کے ہاتھوں معیارِ زندگی کی جتنی گراوٹ ہوئی ہے کسی اور عامل کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔
قومی ترقی کے اعتبار سے دیکھیے تو شہروں کا بے ہنگم پھیلاؤ بیشتر معاملات میں عذاب ناک ہی ثابت ہوتا ہے۔ پھیلتے ہوئے شہر اپنے اندر بہت کچھ سمیٹتے اور سموتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ زندگی بھی اُن کی دسترس سے محفوظ نہیں رہ پاتی۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بڑے شہر باصلاحیت اور مہارت کے حامل افراد کو خوب نوازتے ہیں مگر شہری زندگی انتہائی باصلاحیت افراد کو ڈکار بھی جاتی ہے۔ بڑے شہروں کی زندگی کا بوجھ ہر ایک سے نہیں اٹھایا جاتا۔ بہت سوں کی بیشتر صلاحیتیں اِس بوجھ سے نپٹنے ہی میں ضائع ہوجاتی ہیں۔ گویا انسان مرتے دم تک سراب کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ شہروں میں رہنے والے زیادہ سے زیادہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ اِس پھیر ہی سے نکل نہیں پاتے۔ بڑے شہروں کی طرزِ زندگی ہے ہی اِس نوعیت کی کہ بات کمانے سے شروع ہوکر کمانے پر ختم ہو جاتی ہے۔ شہری زندگی انسان کو صرف اور صرف گزارے کی سطح پر رکھتی ہے۔ جس طور کسی رہائشی سوسائٹی یا اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہنے کے لیے وہاں کی انتظامیہ کو مینٹی ننس کی مد میں کچھ دینا پڑتا ہے‘ بالکل اُسی طور شہروں میں رہنے والوں کو بھی زندگی بھر یعنی مرتے دم تک مینٹی ننس چارجز دینا پڑتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں تو اِس مینٹی ننس کے چکر ہی میں زندگی کھپ جاتی ہے۔ بیشتر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں معیشت کا مدار ایک یا دو بڑے شہروں پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کی مثال کراچی اور لاہور کی شکل میں موجود ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کے آس پاس ہے مگر وہاں بڑے اور درمیانے حجم کے پندرہ سولہ شہروں پر معیشت کا مدار ہے۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی (مدراس)، بنگلور، حیدر آباد، احمد آباد، بھبنیشور، جے پور، سُورت، بھوپال، اندور، رانچی، پٹنہ اور چند دوسرے شہروں کی معیشت پورے ملک کا بوجھ سہار رہی ہے۔ یہی حال بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور جنوبی ایشیا کے دیگر بہت سے ممالک کا ہے۔
روزگار کی فراہمی کا ذریعہ سمجھے جانے کے نتیجے میں شہر پھیلتے جارہے ہیں۔ دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں سے لوگ نقل مکانی کرکے بڑے شہروں میں آباد ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کے پاس ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے کیلئے اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ بڑھتی ہوئی آبادی شہروں کے بنیادی ڈھانچے کو شکست و ریخت سے دوچار کر رہی ہے اور زندہ رہنے کی لاگت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھتے رہنے سے مکانوں، دکانوں، دفاتر، گودام وغیرہ کے کرائے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ دیگر اخراجات کا گراف بھی بلند ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہروں کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کچھ کرنے کے بجائے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ کر لوگوں کو بڑے شہروں میں آباد ہونے دیتی ہیں تاکہ روزگار کی فراہمی اور دیگر معاملات میں لوگ اُن کی طرف نہ دیکھیں۔ یہ طریق کسی بھی طور درست ہے نہ سُود مند۔ شہروں کے پھیلاؤ میں تیز رفتار اور بے ہنگم اضافہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں زندگی کا معیار بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کم و بیش پچیس ایسے شہر ہونے چاہئیں جو مختلف صوبوں میں آبادی کا بڑے شہروں کی طرف بہاؤ روکیں۔ شہروں کی آبادی کو سات لاکھ سے دس لاکھ تک رکھنے کی صورت میں بنیادی ڈھانچے کو اچھی حالت میں رکھنا ممکن ہو پاتا ہے۔ سندھ کی بات کریں تو حیدر آباد کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے ٹھٹھہ، نواب شاہ، شہداد پور، سجاول اور سکھر وغیرہ کو معقول اور معیاری ٹاؤن پلاننگ کیساتھ تھوڑی توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ دور افتادہ علاقوں میں نئے شہر بساکر روزگار کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ لوگ معاشی مواقع کی تلاش میں بڑے شہروں کا رُخ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
بڑے شہروں میں کئی مسائل عفریت کی طرح منہ پھاڑے زندگی کی لطافت کو ہڑپ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہے۔ کرائے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ عام آدمی کے لیے اچھے علاقے میں تو کیا‘ غیر معیاری علاقوں میں رہنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ آمدنی کا 40 فیصد تک مکان کے کرائے اور یوٹیلیٹی بلوں میں کھپ جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کیا کھائے اور بچوں کو کیسے پڑھائے؟ تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی وسائل بچ نہیں پاتے۔ زیادہ کام کرنے کی صورت میں سوشل لائف کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ایسے میں عام آدمی کی زندگی انتہائی قابلِ رحم ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ شہری زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ہاتھوں رونما ہو رہا ہے۔ یورپ کے بعض ممالک میں شہروں کی طرف منتقلی کا رجحان روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جرمنی میں چند برسوں کے دوران ہزاروں افراد نے بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات میں آباد ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ایسا اِس لیے ہوا ہے کہ بڑے شہروں میں رہائشی سہولتوں کا فقدان زندگی کے معیار پر بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ پھیلتے ہوئے شہروں میں لوگ ایک طرف کرایوں میں اضافہ بھگتتے رہتے ہیں اور دوسری طرف یومیہ سفر کی لاگت پریشان کن ہوتی جاتی ہے۔ 2015ء سے 2020ء کے دوران یورپ کے 406 خطوں (ریجن) میں سے 355 بڑے اور درمیانے حجم کے شہروں سے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات کی طرف نقل مکانی شروع ہوئی ہے۔ بڑے شہروں کی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور زندگی کے ستائے ہوئے لوگ سُکون کی تلاش میں دیہی علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کا نظام معقول حد تک درست اور مستعد حالت میں ہونے کی بدولت لوگوں کو دیہات اور قصبوں کی طرف نقل مکانی کی تحریک مل رہی ہے۔ نوجوان اب بھی بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں شہروں میں رہنے یا وہاں منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دیہات میں پنشنرز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اِس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ دیہات کی سستی زندگی میں پنشن کی رقم سے ایسا بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جو وہ شہروں میں رہتے ہوئے حاصل نہیں کر پاتے۔
یورپ بھر میں دو عشروں کے دوران شہری زندگی کا دباؤ اس حد تک ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے کہ لوگوں کو ڈپریشن سے نجات دلانے والی دواؤں کے استعمال کی طرف مائل ہونا پڑا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ذہنی صحت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ ''میگا سٹی میڈنیس‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ بڑے شہروں کی زندگی کا عمومی ڈھانچا انسان کو پاگل پن کی طرف دھکیل رہا ہے۔ لوگ جن آسانیوں کی تلاش میں بڑے شہروں کو اپناتے ہیں وہ آسانیاں ہی شدید ترین مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔ زندگی کو معقول اور پُرسکون رکھنے کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کا فرض ہے کہ شہروں کو بے جا طور پر پھیلنے سے روکیں۔ دیہات کے لوگوں کو اُن کے آبائی علاقوں کے نزدیک روزگار کے مواقع اور بنیادی سہولتیں ملیں تو ہی وہ شہروں کی طرف دیکھنے کی عادت ترک کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اِس حوالے سے غیر معمولی سیاسی و معاشرتی عزم کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں