ہائے رے انسان کی مجبوریاں۔ زمانے کی رفتار قابو میں نہیں۔ وقت یوں گزر رہا ہے گویا کسی وڈیو فائل کو فاسٹ فارورڈ کردیا گیا ہو۔ منظر دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ کسی ایک یا چند انسانوں کا مخمصہ نہیں۔ آج کی دنیا میں تقریباً ہر انسان مختلف معاملات میں شدید نوعیت کا دباؤ محسوس کر رہا ہے اور اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کی بیشتر کوششیں ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ذہن کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے نہ دل ماننے کو تیار ہے۔ انسان کرے تو کیا کرے؟ بہت کچھ ہے جو اپنے بس میں دکھائی دیتا ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کر بہت کچھ ہے جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے بس میں نہیں۔ ایسے میں وہ بھی اپنے بس میں دکھائی نہیں دیتا جو واقعی بس میں ہے۔
حالات کا جبر تو خیر ہر دور کے انسان کے لیے رہا ہے۔ ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے کا انسان بھی مختلف حوالوں سے دباؤ محسوس کرتا تھا اور اس کے شدید منفی اثرات کا سامنا بھی کرتا تھا۔ تب بھی یہ معاملہ فطری تھا اور آج بھی فطری ہی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے کبھی ممکن نہیں رہا کہ صرف اپنی ذات تک محدود رہے اور باقی دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ انسان جب انسانوں میں رہتا ہے تو مل جل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اشتراکِ عمل یہی تو ہے کہ جس میں جو صلاحیت پائی جاتی ہے وہ صلاحیت بروئے کار لائی جائے۔ ایسی حالت میں کام کا حجم بھی بڑھتا ہے اور معیار بھی بلند ہوتا ہے۔ انفرادی کارکردگی بھی بری چیز نہیں لیکن اگر بھرپور استعداد کو اجتماعی انداز سے بروئے کار لایا جائے تو مطلوب نتائج کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔
آج کا انسان کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک طرف اس کی اپنی زندگی ہے یعنی انفرادی معاملات ہیں اور دوسری طرف وہ سماجی ماحول ہے جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔ اس سماجی ماحول میں اہلِ خانہ‘ رشتہ دار‘ احباب اور مقامِ کار کے ساتھی موجود ہیں جن سے تفاعل ناگزیر ہے۔ تیسری طرف وہ طبقات ہیں جو انسان کے خیالات اور اعمال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان میں کاروباری طبقہ بھی شامل ہے اور سیاسی جماعتیں بھی۔ مذہبی رہنما بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ چوتھی سمت میں حکومت یا ریاست ہے جو تمام معاملات میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ وہ قانون بناتی بھی ہے اور نافذ بھی کرتی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ ان چار محاذوں پر تو اسے لڑنا ہی پڑتا ہے۔ محاذ اور بھی ہیں مگر وہ الگ نوعیت کے ہیں اور لازم نہیں کہ ہر انسان ان محاذوں پر بھی دادِ شجاعت دینے کے بارے میں سوچے یا ایسا کرنے پر مجبور ہو۔
آج کی دنیا میں انسان کے لیے ذہن کو متوازن رکھنا بہت بڑا دردِ سر ہے۔ انفرادی سطح پر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل رہنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ مہارتیں تبدیل ہو رہی ہیں۔ آجر چاہتے ہیں کہ وہ جسے کسی کام پر مامور کریں وہ غیرمعمولی صلاحیت اور مہارت کا حامل ہو اور ساتھ ہی ساتھ کام کرنے کی لگن بھی اس میں قابلِ رشک حد تک پائی جائے۔ مشکل یہ ہے کہ کسی میں قابلیت تو بہت ہوتی ہے مگر کام کرنے کا جذبہ برائے نام ہوتا ہے۔ بعض لوگ کام تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے کام کا معیار بلند نہیں ہوتا۔ ان کے جذبے کو تو سراہا جا سکتا ہے‘ کارکردگی کو سراہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اب خال خال ہیں جو غیرمعمولی استعداد بھی رکھتے ہوں اور کام کرنے میں غیرمعمولی دلچسپی بھی لیتے ہوں۔
کسی بھی انسان کے لیے اہلِ خانہ‘ خاندان‘ احباب اور کام کے ساتھیوں کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ تنی ہوئی رسی پر چلنے جیسا ہے۔ زندگی کا معاشرتی پہلو ہم سے بھرپور توجہ چاہتا ہے۔ ہم اس پہلو کو نظر انداز کرکے اپنے وجود سے بھی انصاف نہیں کر سکتے۔ انفرادی یا شخصی مفادات کو دیگر تمام امور پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طور ماحول میں گم ہوکر اپنے وجود کو بھول جانا بھی کسی حال میں سود مند ثابت نہیں ہوتا۔
زندگی کا تیسرا بڑا محاذ مختلف مفادات کے تحت کام کرنے والے غیر ریاستی گروہوں اور اداروں کا ہے۔ ان میں کاروباری ادارے بھی شامل ہیں اور اہلِ سیاست بھی۔ ان دونوں سے ہٹ کر بھی بہت سے لوگ اپنے اپنے مفادات کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ان سے بھی نپٹنا ہوتا ہے۔ کاروباری طبقہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سیاست دانوں سے ہاتھ ملاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ریاستی مشینری کے بہت سے پرزوں کو بھی اپنی جیب میں رکھتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیا جا سکے۔ یہ طبقہ اپنے مفادات کے لیے جو کچھ بھی کرتا ہے اس کا اثر گھوم پھر کر عوام ہی پر مرتب ہوتا ہے۔ عوام کے مفادات کو نقصان سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کیے جاتے ہیں تاہم پاکستان جیسے کرپشن سے اَٹے ہوئے معاشروں میں ایسے اقدامات نیم دلانہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو کاروباری طبقے سے بھی نپٹنا ہوتا ہے۔ یہ طبقہ چونکہ بہت طاقتور ہے اس لیے بالعموم اپنی بات نمایاں حد تک منوانے میں کامیاب رہتا ہے اور عام آدمی بے چارہ بے بسی کی تصویر بنا رہتا ہے۔
چوتھا محاذ ہے سرکاری یا ریاستی مشینری۔ ریاستی مشینری میں مقننہ‘ منتظمہ اور عدلیہ سبھی شامل ہیں۔ عام آدمی بے چارہ زندگی بھر اپنے مفادات کو ریاستی مشینری کی دست برد سے بچانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے۔ اس تگ و دَو میں وہ کھپ جاتا ہے۔ ریاستی مشینری اگر کاروباری طبقے اور دیگر عوامل سے گٹھ جوڑ کرلے تو عام آدمی محض بے بسی کی تصویر ہوکر رہ جاتا ہے۔ ریاست‘ کاروباری طبقے اور معاشرتی ماحول سے نبرد آزما ہونے میں انسان بسا اوقات اس قدر داؤ پر لگ جاتا ہے کہ پھر اس کے پاس اپنی ذات کا فروغ یقینی بنانے کا وقت بھی نہیں بچتا۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے کیونکہ انسان زندگی بھر اس غم میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کے پاس اپنے لیے بھی وقت اور توانائی نہیں بچتی۔
چار محاذوں پر لڑنا چونکہ ہر انسان کا معاملہ ہے اس لیے کوئی کسی کو موردِ الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتا اور یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ صرف وہ مصیبت میں ہے اور باقی سب مزے کر رہے ہیں۔ مصیبت تو سبھی کے لیے ہے۔ بس اتنا ہے کہ کوئی کم جھیل رہا ہے اور کوئی زیادہ۔ وقت ہی ایسا چل رہا ہے کہ کوئی بھی یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ صرف اس پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ ماحول‘ حالات اور زندگی کا جبر سبھی کے لیے ہے اور یہ جبر جھیلے بغیر چارہ بھی نہیں۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا انسان صرف الجھنوں کا مجموعہ ہے۔ ہر الجھن پوری زندگی پر محیط دکھائی دیتی ہے۔ وقت نے انسان کو اس موڑ پر پہنچایا ہے جہاں سے کوئی معقول راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ اگر کسی کو چار محاذوں پر لڑی جانے والی اس جنگ میں فتح سے ہم کنار ہونا ہے تو ناگزیر ہے کہ وہ ذہن تیار کرے‘ منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرے‘ حالات کی تفہیم یقینی بنائے۔ الجھنوں کو دور کرنے یا ان سے نجات پانے کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے انہیں اچھی طرح سمجھا جائے۔ تناظر پر بھی نظر رہنی چاہیے۔ تناظر سمجھ میں آجائے تو معاملات کی درستی زیادہ مشکل نہیں رہتی۔یہ بات ذہن نشین رکھنی ہے کہ چار محاذوں پر جنگ لڑنی بھی ہے اور میدان بدلنے کا اختیار بھی نہیں۔ کہیں سے کچھ خاص کمک بھی نہیں آنے والی۔ جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔ یہ صرف آج کی زندگی کا معاملہ نہیں ہر دور میں زندگی ایسی ہی تھی۔ انسان کے لیے ایسے ہی چیلنج کھڑے ہوتے تھے اور اسے ثابت کرنا ہوتا تھا کہ وہ ہر چیلنج کا پامردی سے سامنا کر سکتا ہے۔ وقت یا حالات کا جبر چونکہ سب کے لیے ہے اس لیے الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ ختم کرکے انسان کو اپنی قابلیت کا معیار بلند کرنے اور کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لینی چاہیے۔ معقول ترین رویہ یہی ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنی ذمہ داری محسوس اور قبول کرے اور پھر اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مصروفِ عمل ہو۔ چار محاذوں پر لڑی جانے والی یہ جنگ کوئی نہیں جیت سکتا مگر ہاں‘ ڈھنگ سے لڑنے کے قابل ہو پانا بھی فتح یاب ہونے سے کم نہیں۔