حماس اور اسرائیل کے درمیان محاذ آرائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اب تک جو کچھ ہوا ہے اُس کے حوالے سے علاقائی قوتیں بھی تماشائی بنی ہوئی ہیں اور عالمی برادری بھی کچھ خاص کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی۔ امریکہ اور یورپ بظاہر واضح ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یورپ کا ہچکچاہٹ کا شکار ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ یوکرین جنگ اُس کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ یورپ کی بیشتر طاقتیں اس وقت کسی بھی بیرونی محاذ پر کچھ زیادہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ معیشت ہو یا سٹریٹیجک معاملات‘ یورپی قوتیں اندر کی طرف دیکھتے رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں کچھ نہیں کر رہا؟ امریکہ نے اپنے دو طیارہ بردار بحری بیڑے(یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ اور یو ایس ایس آئزن ہاور) بحیرۂ روم کے پانیوں میں ایسی جگہ پہنچادیے ہیں جہاں سے یہ ایران اور اسرائیل‘ دونوں سے بہت قریب ہیں۔ فضائی حملوں کی روک تھام کے لیے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ امریکی فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ فضائی دفاعی نظام علاقے میں بھیجے جارہے ہیں۔ گویا امریکہ کو کسی بڑی جنگ کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ یا شاید وہ خود کوئی بڑی جنگ شروع کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں کہیں بھی کسی بھی وقت اپنے فوجی اور ساز و سامان بھیج سکتا ہے۔ درست‘ امریکہ کی اس قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے اِس اہلیت کو ثابت کرنے کی ضرورت اب رہی نہیں۔ دوسرا‘ وہ ایران کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ اسرائیل سے دور رہو۔ تیسری طرف اسرائیل کے لیے یہ پیغام ہے کہ تم تنہا نہیں ہو۔ اِن تینوں پیغامات میں کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کسی بھی حال میں اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا مگر دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ امریکہ کے لیے ایسی دنیا زیادہ کارگر اور سُودمند نہیں جس میں کہیں کوئی جنگ نہ ہو رہی ہو۔ امریکی اسلحہ ساز اداروں کا بنیادی مفاد اِس بات میں ہے کہ دنیا بھر میں خانہ جنگیاں اور جنگیں ہوتی رہیں۔ امریکی قیادت بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ دنیا بھر میں خرابیوں کا کسی نہ کسی شکل میں جاری رہنا ہی اُس کے معاشی اور سٹریٹجک مفادات کے لیے زیادہ سے زیادہ تقویت کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں سیاست اور معیشت ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ اُنہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا، سمجھا اور جانچا نہیں جاسکتا۔ امریکی کارپوریٹ کلچر سیاسی قیادت کی ترتیب ہوئی پالیسیوں کے مطابق اپنے آپ کو پروان چڑھاتا ہے اور اِس کا معاوضہ بھی خوب ادا کرتا ہے۔
چند ایک معاملات میں امریکہ محتاط اور قدرے مجبور بھی ہے۔ ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکہ کو افغانستان سے جان چھڑائے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے۔ وہاں آخر آخر میں اُسے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اِس سے قبل عراق میں بھی اُس کے لیے مسائل بہت بڑھ گئے تھے۔ لیبیا اور شام میں خرابیاں پیدا کرنے کے باعث بھی اُسے عالمی برادری میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکی قیادت فی الحال ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی جس کے نتیجے میں اُسے کسی بھی جنگ میں براہِ راست ملوث ہونا پڑے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ امن چاہتی ہے۔ امریکی قیادت چاہے گی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع شدت اختیار کرے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں معاملات ڈانواں ڈول رہیں اور اُس کے اسلحہ بازار کی گرمی برقرار رہے۔ سعودی عرب، یو اے ای، بحرین، قطر اور کویت وغیرہ کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے۔ فضائی حملوں سے مکمل تحفظ یقینی بنانے کے لیے بھی وہ بہت کچھ خرچ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یوکرین جنگ سے بھی امریکہ کے مفادات وابستہ ہیں۔ امریکہ چاہے گا کہ یہ جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے کیونکہ اس جنگ کے جاری رہنے سے اُس کی ضرورت اور اہمیت بڑھتی جائے گی۔ یوکرین جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں یورپ کے بہت سے ممالک شدید خطرات محسوس کرتے رہیں گے۔ ایسی حالت میں وہ امریکہ کی طرف دیکھتے رہنے پر بھی مجبور ہوں گے۔ امریکہ اور یورپ بیشتر عالمی معاملات میں ایک دوسرے کے حلیف اور معاون رہے ہیں۔ یورپ اگرچہ اب دوسروں کی طرف بھی دیکھنے لگا ہے مگر امریکہ کو نظر انداز کرنے کا خطرہ وہ مول نہیں لے سکتا۔ امریکہ بھی ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جن کے باعث یورپ کو اُس کی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔ یوکرین جنگ کی صورت میں اُسے ایک بار پھر یورپ پر اپنی اہمیت اجاگر کرنے کا موقع ملا ہے۔ امریکہ ضرور چاہے گا کہ روس اس جنگ کو ختم کرنے سے مجتنب رہے۔ روسی قیادت نے اب تک جو سوچ دکھائی ہے وہ امریکہ کے حق میں جا رہی ہے۔ روسی قیادت کے لیے جنگ جاری رکھنا اَنا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر جنگ کو غیر فیصلہ کن انداز سے ختم کردیا جائے اور پسپائی اختیار کی جائے تو روس کے لیے علاقائی سطح پر بھی ساکھ خراب ہوگی اور عالمی برادری میں تو بَھد اُڑنی ہی اُڑنی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی میں اب تک کم و بیش 6 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کا بھی جانی نقصان ہوا ہے؛ تاہم وہ اِتنا زیادہ نہیں۔ ایسے میں مشرقِ وسطیٰ کے لیے مزید خرابیوں کی راہ ہموار ہو کر رہنی ہے۔ یہ کیفیت امریکہ کے لیے بہت سُودمند ہے کیونکہ خلیجی اور دیگر عرب ریاستیں اب تک اُس کے سحر سے آزاد نہیں ہو پائی ہیں۔ اِس خطے کی قیادت اور عوام کے ذہنوں پر امریکہ ایک ہَوّا کی طرح سوار ہے۔ بڑے خلیجی ممالک کسی بھی معاملے میں امریکہ کو بائی پاس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے چین سے بھی تعلقات اُستوار رکھے ہیں اور بھارت سے بھی پینگیں بڑھائی ہیں؛ تاہم اِن کی چند حدود ہیں۔ اُن کے لیے اب بھی امریکہ ہی سب کچھ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یورپ سے بہت حد تک مرعوب ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے اپنے مالیاتی اثاثوں کا بڑا حصہ امریکہ اور یورپ میں محفوظ کر رکھا ہے اور سرمایہ کاری بھی بڑے پیمانے پر کی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے طول و عرض میں عرب نژاد لوگوں کی غیر معمولی سرمایہ کاری اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کی نظر میں اب بھی امریکہ اور یورپ ہی سب سے زیادہ قابلِ اعتبار ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی کے حوالے سے علاقائی ممالک‘ بالخصوص سعودی عرب، یو اے اور قطر ہی کو کچھ کرنا ہوگا۔ امریکہ تو چاہے گا کہ یہ لڑائی طُول پکڑے اور وسعت بھی اختیار کرے۔ اُس نے اپنا اسلحہ خانہ علاقائی پانیوں میں پہنچاکر عزائم واضح بھی کردیے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا ہو گی کہ وہ اِس خطے میں امن دیکھنے کا خواہش مند ہے۔
امریکہ کو اس وقت چند ایسی جنگیں درکار ہیں جو اُس کے اسلحہ بازار کی گرمی برقرار رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ مزید جنگیں جاری رکھنے کا متحمل ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ یہ حقیقت اب سب پر واضح ہے کہ امریکہ خود کوئی بڑی جنگ شروع نہیں کرسکتا اور جاری تو بالکل نہیں رکھ سکتا مگر یقینا وہ یہ چاہے کہ دوسروں کی چھیڑی ہوئی جنگوں سے اپنی مرضی کے نتائج برآمد کرتا رہے۔ اُسے تو اپنا اسلحہ بیچنے اور اپنے سٹریٹجک مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے سے غرض ہے۔ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کرکے وہ دراصل عرب دنیا کو ڈرا رہا ہے۔ یہ سارا کھیل نفسیاتی برتری اور مرعوبیت کا ہے۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عرب دنیا میں پایا جانے والا خوف اُس کے لیے خزانے کی چابی جیسا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی صورت میں اُس کے پاس معاملات کو کیش کرانے کا ایک اچھا اور آسان راستہ موجود ہے۔
امریکی قیادت اِس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ فی الحال براہِ راست کوئی جنگ شروع کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں کیونکہ اُس کی فوج پر دباؤ بہت زیادہ ہے۔ دو عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران امریکی فوج نے جو کچھ کیا ہے اُس کے نتیجے میں اُسے نفسی پیچیدگیوں کی شکل میں زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عراق اور افغانستان میں عورتوں اور بچوں کی شہادت میں ملوث ہونے کے باعث امریکی فوج میں اخلاقی انحطاط کا سوال بھی اُٹھتا رہا ہے۔