آج کی دنیا میں کہنے کو تو بہت کچھ ہے جو زندگی کا حُسن بڑھانے کے لیے ناگزیر ہے؛ تاہم غور کیجیے تو صرف اِتنا سمجھ میں آتا ہے کہ مواد ہے تو سب کچھ ہے۔ انگریزی میں اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی مواد کے لیے لفظ DATA استعمال ہوتا ہے۔ مواد یعنی ہر طرح اور ہر سطح کی معلومات۔ جب کسی خاص موضوع پر ہر طرح کا متعلقہ مواد ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو اُسے ڈیٹا بیس کہتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہر موضوع کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔ کسی بھی شخص کو جو کچھ بھی جاننا ہے وہ انٹرنیٹ کی مدد سے جانا جاسکتا ہے۔ مسئلہ معلومات تک رسائی کا نہیں بلکہ مطلوب و مقصود معلومات تک رسائی کا ہے۔ انٹرنیٹ پر اربوں صفحات پھیلے ہوئے ہیں۔ مواد بہت زیادہ ہے۔ اپنے مطلب کا مواد تلاش کرنا بھی اب دردِ سر سے کم نہیں۔ اب مواد کے پہاڑ کو کھود کر اپنی مرضی کی معلومات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اِس عمل کو Data Mining کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس حوالے سے مہارت حاصل کرکے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ سرچ اور ریسرچ کا کام ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی کو جو کچھ درکار ہے وہ اُسے نکال کر دینا۔
مواد کی بنیاد پر آج دنیا بھر میں نالج انڈسٹری پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اِس معاملے میں بہت آگے ہے۔ اُس نے عشروں کی محنتِ شاقّہ کے بعد یہ مقام پایا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے اداروں نے نالج انڈسٹری کو فروغ دینے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا آج بھی صنعتی دور میں پھنسی ہوئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی دنیا کے ہر ملک میں ہے مگر اِس سے بطریقِ احسن کام لینے کا ہنر سب کو کہاں آتا ہے؟ ترقی یافتہ دنیا نے انٹرنیٹ کو بھی اپنے لیے طاقت کے حصول کا ذریعہ بنالیا ہے۔ مغربی دنیا علم و فن یعنی سافٹ پاور کے حوالے سے آج بھی بہت آگے ہے۔ وہاں تعلیمی اداروں کو مضبوط بنائے رکھنے پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا کے لاکھوں طلبہ ترقی یافتہ دنیا میں علم و فن کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں۔ اِن میں سے انتہائی باصلاحیت اور پُرجوش نوجوانوں کو ترقی یافتہ دنیا اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ ایشیا سے بھی انتہائی قابل ذہن جب ترقی یافتہ دنیا کا رخ کرتے ہیں تو پھر واپس نہیں آتے۔
ترقی پذیر دنیا کے متعدد ممالک نے نالج ورکرز تیار کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے کیونکہ یہ ورکرز بیرونِ ملک بالخصوص ترقی یافتہ دنیا میں کام کرکے خطیر ترسیلاتِ زر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بھارت اور چین اِس کی نمایاں مثال ہیں۔ دونوں ممالک کے لاکھوں نالج ورکرز بیرونِ ملک خدمات انجام دے کر قومی خزانے کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ نالج ورکرز کم محنت کرکے زیادہ کماتے ہیں۔ غیر علمی یا مشقّتی کاموں میں معاوضہ کم ہے۔ علم و فن کی معقول تربیت پاکر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے بہت زیادہ کماتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔ وہ امکانات کی تلاش میں رہتے ہیں اور آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسری طرف روایتی نوعیت کے غیر علمی شعبوں میں کام کرنے والے اَن تھک محنت کرکے بھی خاصا کم معاوضہ پاتے ہیں اور یوں اُن کی زندگی میں کچھ زیادہ رونق دکھائی نہیں دیتی۔
علم و فن کا معاملہ بہت پُرکشش بھی ہے اور بہت پیچیدہ بھی۔ پُرکشش اس لیے کہ اِس شعبے میں معاوضے غیر معمولی ہیں۔ لوگ اپنی لیاقت اور محنت کے مطابق بہت زیادہ کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں اُن کے لیے کام آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ پیچیدہ اِس لیے کہ مہارت کا حصول انتہائی دشوار ہے۔ علم و فن کی دنیا میں پیش رفت کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ اِس کے نتیجے میں متعلقین کو دن رات محنت کرنا پڑتی ہے، نئی باتیں سیکھنا پڑتی ہیں، نئی جہتوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ دست و بازو کے ذریعے محنت کرنے والوں کو سیکھنے پر زیادہ متوجہ نہیں رہنا پڑتا کیونکہ کوئی ایک مہارت پندرہ بیس سال بھی ساتھ دے لیتی ہے۔ علم و فن کے شعبوں میں ایسا نہیں ہے۔ آئی ٹی سیکٹر ہی کو لیجیے۔ اِس میں انسان کو سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ سافٹ ویئر انجینئر بہت اچھا کماتے ہیں مگر اُنہیں سر توڑ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ بالکل اِسی طور روایتی انداز سے ٹیوشن دینے والوں کو کچھ زیادہ نہیں سیکھنا پڑتا جبکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں کو دن رات سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ اُنہیں نئے شعبوں اور نئی مہارتوں کے بارے میں جاننا پڑتا ہے تاکہ اپنے طلبہ کو اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتاسکیں۔ اعلیٰ تعلیم سے وابستہ افراد کو غیر معمولی معاوضے ملتے ہیں مگر اُن کے لیے سیکھتے رہنا معمولات کا حصہ بن جاتا ہے۔ پڑھنا بھی بہت پڑتا ہے اور مشق و مشقّت کے مرحلے سے بھی زیادہ گزرنا پڑتا ہے۔
دنیا آج وہاں کھڑی ہے جہاں صرف اور صرف علم و فن کی قدر رہ گئی ہے۔ محنت کرنے والوں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا مگر اب معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ آپ اپنے ماحول ہی میں دیکھئے‘ بہت سے لوگ آپ کو انتہائی نوعیت کی محنت کرتے ملیں گے اور اُنہیں دیا جانے والا معاوضہ بھی اتنا معمولی ہو گا کہ آپ خود بھی ہمدردی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ زمینی حقیقت سے کہیں زیادہ بنیادی رویوں کا معاملہ ہے۔ جو لوگ صبح سے شام تک بدن توڑ محنت کرتے ہیں اُنہیں معقول معاوضہ نہیں ملتا جبکہ علم و فن کے شعبے میں شعبدہ بازی جیسی مہارت دکھانے والوں کو بھی اُن سے زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔ اِس سے زیادہ شرم ناک بات یہ ہے کہ بدن توڑ محنت کرنے والوں کو وہ احترام بھی نہیں ملتا جو ملنا چاہیے۔ اُن سے بالعموم بات بھی نہایت اہانت آمیز انداز سے کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ماحول کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ علم و فن کے شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص بے شعور بھی ہو تو عزت پاتا ہے اور کوئی نہ کوئی جُگاڑ کرکے بہت زیادہ معاوضہ بھی وصول کر لیتا ہے۔ دوسری طرف محنت و مشقّت والے روایتی شعبوں میں پھنسے ہوئے لوگ معقول معاوضے سے بھی محروم رہتے ہیں اور اُن سے سیدھے منہ بات کرنے والے بھی خال خال ہیں۔ خیر‘ یہ ایک الگ بحث ہے کہ کسے کتنا احترام ملنا چاہیے اور کیوں۔ مواد کی دنیا میں مال ہی مال ہے۔ آج دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی قدر ہے جو ڈیٹا مائننگ میں ماہر ہوں، مطلوب معلومات جمع کرکے دیں، تحقیق میں معاون ثابت ہوں اور نئے موضوعات تلاش کرسکیں۔ انٹرنیٹ پر اِتنا کچھ میسر ہے کہ انسان کسی نئے موضوع کے بارے میں سوچے اور ڈیٹا مائننگ کرے تو تھوڑی سی محنت سے کوئی نئی چیز ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔ پسماندہ ممالک کے پاس معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک اچھا آپشن یہ ہے کہ نئی نسل کو علم و فن کے حوالے سے خصوصی تعلیم و تربیت دی جائے، عصری تعلیم کے شعبوں کو مضبوط بنایا جائے، دنیا بھر میں جو شعبے غیر معمولی طلب رکھتے ہیں اُن پر توجہ دی جائے، نئی نسل کو دنیا بھر میں پسندیدہ ترین شعبوں میں طبع آزمائی کے قابل بنایا جائے۔ غیر معمولی صلاحیت و مہارت کے حامل اور کام کرنے کی سچی لگن کے حامل نالج ورکرز زیادہ سے زیادہ تعداد میں تیار کیے جائیں تاکہ وہ ترقی یافتہ دنیا میں بہترین مواقع تلاش کرکے زیادہ کمائیں اور قومی خزانے کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں۔
دیگر معاشروں کی طرح پاکستانی معاشرے میں بچے سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے عادی ہوچکے ہیں۔ اُنہیں یونہی بے لگام چھوڑنے کے بجائے اُن پر خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ انٹرنیٹ سے محض تفریحِ طبع کا سامان نہ کریں بلکہ سیکھنے کی بھی کوشش کریں۔ تھوری توجہ سے اُنہیں علم و فن کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ اُنہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ انٹرنیٹ کی مدد سے علم میں اضافہ کریں گے تو اعلیٰ درجے کی مہارت یقینی بنانے میں کامیاب ہوں گے اور اِس کے نتیجے میں ایک اچھا کیریئر شروع کیا جاسکے گا۔ اُنہیں مثالیں دے کر بھی سمجھایا جاسکتا ہے کہ تھوڑی توجہ سے زندگی کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے، زیادہ اور بہتر امکانات تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ چھوٹی عمر سے بچوں کو سمجھایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ علم کا حصول ہی زندگی کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔