سلیمان بھائی بہت فخر سے بتایا کرتے ہیں کہ اُن کے والد انتہائی سخت مزاج کے تھے۔ گھر میں کوئی بھی کام اُن کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بچہ بھی اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ سب کچھ وہی طے کرتے تھے۔ اِس بات کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ کہیں سے کسی کی کوئی شکایت آ جائے۔ اگر گلی سے کوئی آکر کسی بچے کی شکایت کر بیٹھتا تو سمجھ لیجیے اُس بچے کی شامت آگئی۔ سلیمان بھائی کے بقول اُن کے والد شکایت کی صورت میں بچے سے کوئی وضاحت طلب کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے تھے اور مارنا شروع کردیتے تھے۔ سوال صرف تھپڑ رسید کرنے کا نہ تھا۔ گھر میں انہوں نے ایک سونٹی رکھی ہوئی تھی جو خاصی مضبوط تھی۔ بڑے صاحب جب مارنے پر آتے تھے تو اِتنا مارتے تھے کہ بچہ اَدھ مُوا ہو جاتا تھا۔ اِتنی مار کھانے کے بعد بچہ حد درجہ محتاط ہو جاتا تھا اور کبھی کچھ ایسا نہیں کرتا تھا جس سے کسی کو شکایت کا موقع ملے اور وہ معاملہ گھر تک پہنچے۔
یہاں تک تو بات بالکل درست لگتی ہے۔ باپ کا حق ہے کہ بچے کے معاملات درست رکھنے کے لیے سختی برتے اور سختی بھی ایسی کہ تادیب کا سُن کر بچے کا حال بُرا ہو جائے مگر صاحب! یہ کیا بات ہوئی کہ بچے کو وضاحت کا موقع ہی نہ دیا جائے اور کسی کی طرف سے کی جانے والی شکایت ہی کو حتمی سمجھتے ہوئے فیصلہ کرلیا جائے! یہ تو صریح نا انصافی ہوئی۔ خیر‘ سلیمان بھائی یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اور اُن کے دیگر بھائی بہن گلی میں زیادہ نہیں نکلتے تھے۔ بیشتر وقت گھر میں گزرتا تھا اور گلی میں کھیلنے کودنے کو جی چاہے بھی تو بہت دیکھ بھال کر ایسا کرنا پڑتا تھا۔ بھائی بہنوں میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی لگتی تھی کہ والد کی آمد پر نظر رکھے۔ والد کو دور سے آتا دیکھ کر وہ سب کو مطلع کردیا کرتا تھا اور سب بچے کھیل کود ادھورا چھوڑ کر گھر میں دُبک جاتے تھے۔ معاملہ یہاں تک محدود نہ تھا۔ والد گھر میں داخل ہونے کے بعد تمام بچوں کو اندر بیٹھا دیکھ کر مطمئن نہیں ہوتے تھے بلکہ سب کے ہاتھ پاؤں چیک کرتے تھے کہ دُھول مٹی تو نہیں لگی ہوئی! یعنی کھیل ادھورا چھوڑ کر گھر میں آنے کے بعد بچوں کو فٹافٹ ہاتھ پیر بھی دھونا پڑتے تھے اور اُتنی ہی تیزی سے پونچھنے بھی پڑتے تھے تاکہ شک نہ ہو کہ ابھی ابھی دُھلائی ہوئی ہے!
کیا ایسی سخت گیری کے تحت گزاری جانے والی زندگی کو ہم زندگی کہہ سکتے ہیں؟ اِس سوال کا معقول ترین جواب نفی ہی میں ہوسکتا ہے۔ بچپن بے فکری اور کھیل کُود سے عبارت ہوتا ہے اور ایسا ہی رہنا چاہیے۔ یہ خوبصورت دور پھر کہاں نصیب ہونے والا ہے؟ بچپن کو ہر طرح کے خوف، گمان اور وہم سے آزاد ہونا چاہیے۔ یہ کیا کہ بچہ گلی میں کسی کے ساتھ کچھ دیر کھیلے بھی تو بار بار مُڑ کر دیکھے کہ ابا جان تو نہیں آگئے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ جو لوگ بچوں کو گھر سے باہر نکالنے سے کتراتے ہیں وہ اِس نکتے کو فراموش یا نظر انداز کردیتے ہیں کہ بچوں میں تجسّس فطری طور پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ دنیا کو دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا چاہتے ہیں۔ بچے جب ہوش سنبھالنے پر گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو اُن کے لیے ہر چیز نئی ہوتی ہے۔ وہ بہت سی چیزوں کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اور اُنہیں چُھوکر‘ استعمال کرکے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی بچے کو سائیکل پر سوار جاتا دیکھنے اور خود اس پر سوار ہوکر سیر کرنے میں بہت فرق ہے۔ بچے اِسی فرق کو سمجھنے اور گلے لگانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے میں والدین کا سخت گیر رویہ اُن کے ذہن کی رفتار گھٹا دیتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی انجن بھرپور جوش و خروش کے ساتھ ٹرین کو لیے جارہا ہو اور اُسے بار بار روکا جائے، اُس کا ٹیمپو توڑ دیا جائے۔
ایک اہم بات! ہم نے سلیمان بھائی سے ایک بات پوچھی تو وہ کچھ سمجھ نہ پائے اور خاموش ہوکر رہ گئے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کے والد کی سخت گیری کچھ رنگ لائی، آپ بھائی بہنوں میں کوئی خاص بات پیدا ہوئی تو اُنہوں نے کہا: یقینا فرق تو پڑا۔ ہم نے پوچھا: وہ فرق کیا ہے؟ تو بولے: ہم سب بھائی بہن بلند کردار کے مالک ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یہ تو اچھی بات ہوئی مگر سوال یہ ہے کہ آپ تمام بھائی بہن آپس میں کیسے ہیں یعنی میل جول کیسا ہے، تو اُنہوں نے قدرے افسردگی سے بتایا کہ معاملات مثالی نہیں ہیں، تعلقات میں قدرے کشیدگی ہے، میل جول بھی کم کم ہے۔ ہم نے اِس معاملے کو مزید کریدنے سے گریز کرتے ہوئے اُن سے براہِ راست پوچھا کہ کیا آپ اپنے بچوں کا کردار درست رکھنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو آپ کے والد نے کیا تھا یعنی بچوں کو مارتے پیٹتے ہیں، گھر میں سونٹی، ڈنڈا، بید وغیرہ رکھا ہوا ہے، بچوں کو گلی میں کھیلنے کے لیے جانے سے روکتے ہیں؟ سلیمان بھائی نے چند لمحات کا توقف کیا اور پھر کہا: میں ایسا نہیں کرتا۔ ہم نے استفسار کیا: بھلا کیوں؟ تو اُن کا جواب تھا: اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ہم نے عرض کیا: زمانے کے بدلنے سے اصول نہیں بدلتے۔ آپ کے والد کا اصول اگر برحق تھا تو ہر زمانے کے لیے تھا۔ آج آپ کو بھی وہ اصول اپنانا چاہیے۔ سلیمان بھائی نے جواب دیا کہ اب ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ہم نے سوال داغا: کیوں؟ کیا آپ کے بچے پیدائشی طور پر درست کردار کے ہیں؟ اُن کا جواب تھا: ایسی بات نہیں ہے مگر نرمی سے بھی بہت کچھ سمجھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے عرض کیا: یہی بات تو ہم بھی آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے والد بھی نرمی کی راہ پر گامزن ہوکر آپ سب کو بہت سی منزلوں تک آسانی سے پہنچاسکتے تھے۔
لوگ کردار اور مزاج کو گڈمڈ کردیتے ہیں۔ یہ دونوں بالکل الگ معاملات ہیں۔ خدا کی عبادت باقاعدگی سے کرنا، جھوٹ نہ بولنا، چوری نہ کرنا، ڈاکے نہ ڈالنا، نشہ نہ کرنا، جوا نہ کھیلنا اور بدکاری سے مکمل اجتناب برتنا وغیرہ بلند کردار کی نشانیاں ہیں۔ مزاج اس سے بالکل مختلف معاملہ ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص بہت عبادت گزار ہو مگر بات بات پر لوگوں کو جھڑکتا پھرتا ہو۔ بات بات پر جھنجھلا اُٹھنا، جھڑکنا، بدگمانی میں مبتلا ہونا، ایک بات کے دس مطلب نکالنا، بظاہر کسی جواز کے بغیر کسی کو بھی لتاڑنا یعنی کہیں کا غصہ کہیں اُتارنا ‘ یہ سب مزاج کی علامات ہیں۔ گناہ سے بچنا، کسی کا مال ہڑپ نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا یقینا اوصافِ حمیدہ ہیں مگر بات بے بات لوگوں پر طنز و تشنیع کے تیر برسانا، اُن سے متعلق بے بنیاد باتیں پھیلانا انسان کے تمام اوصافِ حمیدہ کو مٹی کے ڈھیر جیسا بے وقعت بنادیتا ہے۔
بچوں کی معقول تربیت میں سخت گیری کا بھی ایک خاص کردار ہے۔ سالن میں نمک بالکل نہ ہو تو ذائقے کا حشر نشر ہو جاتا ہے۔ نمک ڈالیے تو سالن کا ذائقہ بحال ہو جاتا ہے مگر کتنا نمک؟ چٹکی بھر۔ تربیت میں سخت گیری سے متعلق بھی یہی اصول اپنایا جانا چاہیے۔ بچوں کو دن رات مارتے پیٹتے رہنے سے اُن کی تربیت تو کیا ہوگی، وہ مزید بگڑ جاتے ہیں۔ ایسے بچے زندگی بھر مختلف حوالوں سے الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ جن بچوں کو ماں باپ کی طرف سے بہت مار پڑی ہو اُن کے کردار بالکل درست ہوتے ہیں اور مزاج بالکل ٹیڑھے؟ کردار کی درستی مزاج کی ٹیڑھ کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ مزاج تو درست ہوتا ہے مگر کردار کی کجی انسان کو لے ڈوبتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص خوش گفتار ہوسکتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ چوری چکاری کا عادی ہو تو؟
سلیمان بھائی نے اپنی اولاد کے لیے گھر میں ڈنڈا یا بید نہ رکھ کر اپنے ہی عمل سے اپنے والد کے اصول کو یکسر غلط ثابت کردیا۔ اگر وہ اپنے والد کی طرزِ فکر و عمل کو درست سمجھتے تو کم از کم احتراماً ہی گھر میں بید رکھ کر بچوں کو کبھی کبھار مار لیا کرتے! بچوں کی معقول تربیت صرف شفقت سے ممکن ہے۔ سختی بہت سوچ سمجھ کر اور درست ترین سیاق و سباق میں بروئے کار لائی جانی چاہیے۔