کم و بیش ہر انسان کو یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ پورا ماحول اُس کے خلاف ہے اور اُسے قدم قدم پر کسی نہ کسی حوالے سے مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ یہ احساس یکسر بے بنیاد بھی نہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کو اپنے خلاف جاتا ہوا محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت وہ اُس کے خلاف جا ہی رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی فطری معاملہ ہے۔ جو کچھ ہمارے ماحول میں ہو رہا ہوتا ہے وہ لازمی طور پر ہمارے مطلب یا مفاد کا نہیں ہوتا۔ ہو بھی نہیں سکتا! جہاں سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے فعال ہوں وہاں کسی کو حالات کی مہربانی سے کبھی کبھار تھوڑی سے مدد ضرور مل سکتی ہے، مگر ہر وقت ایسا نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دے تو اُسے حالات کا دھارا کسی بھی سمت لے جاسکتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی کشتی کو دریا کے دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ دھارے کی مرضی جس طرف بھی چاہے لے جائے۔ اگر کسی کو دریا میں ڈھنگ سے سفر کرنا ہے تو کشتی کو کھینا پڑے گا، پتوار کی مدد سے اُس کی رفتار طے کرنا پڑے گی اور سمت کا تعین بھی کرنا پڑے گا۔ سمندر اگر پُرسکون ہو تب بھی کشتی کو اُس کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی صورت میں سفر کسی بھی سمت ہوسکتا ہے۔ زندگی کا معاملہ بھی کشتی کھینے جیسا ہی ہے۔ اگر ہم اِس کشتی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں تو نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حالات صرف ستم ڈھاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ مہربان بھی ہوتے ہیں مگر اِس مہربانی کو شناخت کرنے کا ہنر بھی آنا چاہیے اور اُس سے مستفید ہونے کی لیاقت بھی انسان میں ہونی چاہیے۔ اِس نکتے پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ ہمیں جن ناموافق حالات کا سامنا رہتا ہے اُن سے کماحقہٗ نپٹنے ہی میں زندگی کا حقیقی لُطف پوشیدہ ہے۔ قدرت نے نظام ہی ایسا تیار کیا ہے کہ کامیابی کا لُطف حالات کی سختی جھیلنے میں ہے۔ کسی کو اگر بہت کچھ بہت آسانی سے میسر ہو تو زندگی پھیکی پھیکی سی رہ جاتی ہے۔ اور ایسے انسان کو اگر کبھی مشکل حالات کا سامنا ہو تو ہمت دیکھتے ہی دیکھتے جواب دے جاتی ہے۔ بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ ذرا سی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو بدحواس ہو اُٹھتے ہیں۔ اُنہیں کوئی بھی بات انتہائی بدحواس کرسکتی ہے۔ ایسا اِس لیے ہوتا ہے کہ اُن کے بڑوں نے اُنہیں ناموافق حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کیا ہوتا۔
ہم ایک ترقی پذیر معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسائل بہت زیادہ ہیں اور وسائل بہت کم۔ ہمیں بنیادی سہولتیں بھی ڈھنگ سے میسر نہیں۔ زندگی قدم قدم پر امتحان لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کچھ بھی آسانی سے نہیں ملے گا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سب کچھ آسانی سے نہیں ملتا؛ تاہم وہاں چند ایک بنیادی معاملات کے لیے تو زیادہ الجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہاں تو انتہائی بنیادی حاجتیں پوری کرنے کے لیے بھی حالات کی چوٹیاں سَر کرنا پڑتی ہیں۔ ایسے میں ذہن کا الجھنا اور ارادوں کا کمزور پڑ جانا بالکل فطری امر ہے۔ پھر بھی ہم حالات کا رونا روکر زندگی کا معیار بلند کرنے کی تگ و دَو سے جان تو نہیں چھڑا سکتے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ کرنا ہے وہ تو ہر حال میں کرنا ہی ہے۔
کیا بھرپور کامیابی سے ہم کنار زندگی بسر کرنے کے لیے حالات کے جبر کا سامنا لازم ہے؟ اِس سوال کا جواب ہمیشہ اثبات ہی میں ممکن ہے۔ بھرپور کامیابی اور خوش حالی کبھی آسانی سے نہیں مل سکتی۔ اِس کے لیے بھرپور تگ و دَو لازم ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ معاشرے میں ہر طرف اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی تگ و دَو ہی دکھائی دیتی ہے۔ مفادات کا تصادم بھی ہوتا ہے اور اِس کے نتیجے میں کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک بھی ملتی ہے۔ معاشرے میں آپ کو ہر طرح کے لوگ ملیں گے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ واضح اکثریت میں ہیں اور عمومی سطح پر جی رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو حالات کی بدلتی ہوئی نوعیت اور شدت سے مطابقت رکھنے والی سوچ اپناتے ہیں۔ ایسے لوگ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں مگر یہ اپنی جگہ ڈٹے رہتے ہیں، حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں اور بھرپور تگ و دَو کے ذریعے قابلِ رشک زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ آپ کس زُمرے میں ہیں؟ حالات کے آگے سِپر ڈالنے والوں میں یا ڈٹ جانے والوں میں؟ اگر آپ نے طے کرلیا ہے کہ حالات کے سامنے ہتھیار ڈالتے رہنے ہی میں عافیت ہے جو جان لیجیے کہ آپ زندگی بھر کسی بھی معاملے سے لُطف کشید نہ کر پائیں گے۔ جینے کا سارا لُطف صرف اِس امر میں پوشیدہ ہے کہ آپ ناموافق حالات کے سامنے کھڑے ہوں، زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا لازم ہے وہ کریں اور مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کریں۔ اِس راہ پر کم لوگ چلتے ہیں مگر یاد رکھیے کہ سارا لُطف اِسی سفر میں پوشیدہ ہے۔
آپ نے کھیلوں کے مقابلے تو دیکھے ہی ہوں گے۔ کھیلوں کے کسی بھی مقابلے کو دیکھنے کا سارا مزا اِس بات میں ہے کہ کشمکش کس حد تک ہے۔ اگر کوئی ٹیم آسانی سے جیت رہی ہو تو مقابلے میں تماشائیوں کی دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ لوگ مقابلہ دیکھنا چاہتے ہیں یعنی میچ ہاتھ سے نکل رہا ہو تب بھی کمزور پڑتی ہوئی ٹیم ہمت نہ ہارے اور پامردی سے ڈٹی رہے، اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لائے اور کسی موڑ پر اچانک کچھ ایسا کر ڈالے جو مقابلے کی سمت بدل دے۔ تماشائیوں کو اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ میدان میں اتری ہوئی دونوں ٹیمیں فتح کے لیے پورا زور لگائیں۔ اُنہیں کشمکش دیکھنے سے غرض ہوتی ہے کیونکہ مقابلے کا سارا لُطف ہی کشمکش میں پایا جاتا ہے۔ مقابلہ اگر کسی ٹیم کے حق میں ہو اور فتح یقینی ہو تو تماشائیوں کے دل بجھ سے جاتے ہیں۔ کیا آپ کبھی کوئی ایسا مقابلہ دیکھنے لیے میدان کے کنارے موجود رہیں گے جو یکطرفہ نوعیت کا ہو یعنی کسی ٹیم کی فتح یقینی ہو؟ یقینانہیں! کیونکہ ایسے مقابلے میں لُطف برائے نام بھی نہیں ہوتا۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ آپ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ناگزیر قرار پانے والی تگ و دَو سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ جینے کا مزا لینا ہے تو جہاں بھی تگ و دَو ناگزیر ہو وہاں بھرپور تگ و دَو کیجیے۔ یہ تگ و دَو ہی آپ کو توانا کرے گی، ڈھنگ سے جینے کے ہنر میں مزید یکتا کرے گی اور آپ محسوس کریں گے کہ زندگی اگر ہے تو مقابلے میں ہے، تگ و دَو میں ہے، کشمکش میں ہے۔ کشمکش اپنے آپ میں بُری بات نہیں کیونکہ اِس مرحلے سے گزر کر ہی انسان کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ انتہائی مال دار گھرانوں کے بچے زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے کیونکہ اُنہیں سب کچھ بہت آسانی سے مل رہا ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی میں کشمکش نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایسے میں اگر کوئی مشکل آن پڑے، کسی بحرانی کیفیت کا سامنا ہو تو وہ ہتھیار ڈالنے میں دیر نہیں لگاتے۔ کشمکش ہی تو انسان کو کسی بھی مشکل صورتِ حال کا، بحران کا سامنا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔ حالات اچانک ایسی شکل اختیار کرتے ہیں کہ ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اب کیسی طرزِ فکر و عمل اختیار کریں، اپنے معاملات کو درست کیسے کریں۔ ایسے موقع پر حواس گم ہونے لگتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہم اس معاملے میں انوکھے نہیں۔ حالات سبھی کو ایسے موڑ پر لاتے رہتے ہیں۔ حواس بحال رکھتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے ہی سے زندگی کا معیار بلند ہو پاتا ہے۔ ناموافق حالات کے خلاف مزاحمت اور پامردی کے ساتھ اپنے مقام پر ڈٹے رہنے ہی سے زندگی کا حُسن دوبالا ہوتا ہے۔
کشمکش اور مزاحمت کے بغیر بسر کی جانے والی زندگی کے رنگ پھیکے ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو ثابت کیجیے گا تو کچھ پائیے گا اور اِس کے لیے ناموافق حالات سے بھرپور مقابلہ‘ بھرپور مزاحمت لازم ہے۔