جینا آسان ہے یا مشکل؟ یہ سوال قدم قدم پر ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ کوئی اچھی حالت میں جی رہا ہو یا بُری حالت میں‘ اپنے بارے میں سوچتا ضرور ہے۔ ہاں‘ عمومی سوچ محدود رہتی ہے اور پریشان کرتی ہے۔ عمومی سطح پر کم و بیش ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ مصیبت اگر ہے تو صرف اُس کے لیے اور الجھنیں ہیں تو صرف اُس کے نصیب میں۔ یہ فکر اور مزاج کی کجی ہے۔ خدا نے انسان کو بے صبرا‘ ناشکرا قرار دیا ہے تو اِس کا بنیادی سبب مزاج کی کجی ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سب کچھ اچھا ہے نہ بُرا۔ سب کے لیے مصائب ہیں نہ راحتیں۔ مشکلات بھی سب کے لیے ہیں اور آسانیاں بھی سبھی کے لیے ہیں۔ کوئی اس گمان میں مبتلا ہو کہ تقدیر نے سارے دُکھ جھیلنے کے لیے صرف اُسے چُن لیا ہے‘ تو اُس کی مرضی! حقیقت یہ ہے کہ یہ گمان شخصیت کو پنپنے نہیں دیتا کیونکہ توانائی کا بیشتر حصہ تاسّف کی نذر ہوتا رہتا ہے۔ ہم یہاں اِس لیے نہیں ہیں کہ اپنے وجود کو تاسّف کی نذر کرتے رہیں۔
معاشرہ کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے۔ آپ کو جو کچھ بھی پڑھنا ہے آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ اور پڑھنا ہی چاہیے۔ انسانوں کے درمیان رہنا ہے تو اُن سے بہتر روابط رکھنا لازم ہے۔ کوئی بھی رابطہ یا تعلق اُسی وقت معقولیت سے ہم کنار رہ سکتا ہے جب آپ معقول حد تک فکر و نظر کے حامل ہوں۔ منطقی انداز سے سوچنے والے فائدے میں رہتے ہیں کیونکہ وہ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بالعموم اس کوشش میں کامیاب ہوکر اپنے اور دوسروں کے معاملات کا فرق سمجھ پاتے ہیں۔ ظاہر میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہماری آنکھوں کے لیے دھوکے کی مانند ہوتا ہے۔ کوئی اگر بہت پریشان دکھائی دے رہا ہو تو ناگزیر نہیں کہ وہ پریشان ہی ہو۔ اِسی طور اگر کوئی بہت خوش رہتا ہو تو لازم نہیں کہ اُس کی زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔ کسی بھی انسان کے معاملات اور طرزِ فکر و عمل کو سمجھنے کے لیے محض ظاہر پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، باطن میں بھی تھوڑا بہت جھانکنا پڑتا ہے۔ جب تک ہم کسی کے معاملات سے کماحقہٗ واقف نہ ہوں تب تک اُس کے بارے میںمعقول رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے اِس کا مدار اصلاً صرف اِس بات پر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، کس طور جینے کی تمنا ہے۔ جینے کے سو ڈھنگ ہوسکتے ہیں۔ ہر معاشرے میں کم و بیش ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق منتخب کی ہوئی طرزِ زندگی کا حامل ہوتا ہے۔ جینے کے انداز کا انتخاب چونکہ خالص ذاتی معاملہ ہے اِس لیے کسی اور کو اِس سلسلے میں موردِ الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا۔
زندگی بسر کرنے کا کوئی بھی انداز یا طریقہ اُسی وقت کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب وہ کسی منطق کے تحت ہو، معقولیت کے دائرے میں ہو۔ زندگی اگر کسی مقصد کے تحت بسر کی جارہی ہو تو اُس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی کامیابیوں سے بھی سیکھنا ہوتا ہے اور ناکامیوں سے بھی۔ کامیابیوں سے زیادہ نہیں سیکھا جاسکتا۔ ہاں‘ ناکامیوں کے بارے میں سوچنے، اُن کا تجزیہ کرنے سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اِس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی اچھے اداکار سے بہت کچھ سیکھنے کے بجائے یہ دیکھیے کہ ایک زمانے سے اپنے شعبے میں ہونے پر بھی کیسی اداکاری کر رہا ہے۔ اُس کی خراب کارکردگی ہمیں سکھائے گی کہ اداکاری کس طور نہیں کرنی ہے! یہی سبب ہے کہ بہت سے اداکار تیس‘ تیس سال سے کام کر رہے ہوتے ہیں مگر اُن کی موجودگی محسوس نہیں ہوتی جبکہ کوئی شخص نیا نیا سیکھ کر آتا ہے اور چھا جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے بڑے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس میں کتنا دم ہے اور کس پر کس حد تک انحصار کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے زندگی بسر کرنے کے انداز کا انتخاب چونکہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے اِس لیے ممکنہ حد تک معقول ترین رویہ اختیار کرنا لازم ہے۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ بات بات پر اِس طور بھڑک اٹھتے ہیں جیسے دماغ میں کوئی بم پھٹ گیا ہو۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کہیں کا غصہ کہیں نکل رہا ہوتا ہے۔ شدید بے اعتدالی پر مبنی یہ طرزِ زندگی کسی بھی اعتبار سے معقول ہے نہ مفید۔ ہماری طرزِ فکر و عمل ہمارے اپنے مقاصد کے تحت تو ہونی ہی چاہیے؛ تاہم ساتھ ہی ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ کوئی بھی انسان صرف اپنی ذات تک محدود رہ کر جی ہی نہیں سکتا۔ ہمیں قدم قدم پر دوسروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ سب کے لیے ہے اِس لیے حیرت ہونی چاہیے نہ افسوس۔ جو کچھ بھی نارمل ہوتا ہے وہ کسی بھی درجے میں تکلیف دہ رہنا نہیں چاہیے۔ انسان کو اُس کا عادی ہو جانا چاہیے۔ جب دوسروں کے بغیر ہم جی ہی نہیں سکتے تو پھر لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ اُنہیں تسلیم و قبول کے مرحلے سے گزار کر اپنایا جائے۔ غور کیجیے‘ مشاہدے سے استفادہ کیجیے تو یہی پائیے گا کہ صرف وہ کامیاب رہتے ہیں جو عمومی حالت میں رہتے ہوئے بھی غیر معمولی ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے ماحول کو شکست نہیں دے سکتا۔ اگر ماحول اپنی مرضی کا نہ ہو تو اُس سے متصادم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ضروری تو نہیں کہ جو بھی چیز آپ کو پسند نہ ہو اُس کے خلاف کھڑے ہو جائیے۔ یہ جینے کا معقول طریقہ نہیں! کسی بھی ناپسندیدہ چیز کے پہلو بہ پہلو بھی جیا جاسکتا ہے۔ جس طور گھر کے افراد زندگی کا حصہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طور ماحول میں موجود افراد بھی ہم سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وابستگی کا دائرہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہمیں اُس کے تقاضے نبھانے ہی پڑتے ہیں۔ اس معاملے بے اعتنائی چلتی ہے نہ بے فکری و لاپروائی۔
معقولیت اِس بات میں ہے کہ آپ اپنی حدود کا تعین کیجیے اور اُن کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کیجیے۔ اپنی حدود کے تعین سے مراد یہ ہے کہ اپنے معاملات کی درستی پر متوجہ رہیے، دوسروں کے بارے میں زیادہ متفکر رہنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ انسان جن لوگوں کے درمیان جی رہا ہو اُن کے بارے میں سوچتا ضرور ہے؛ تاہم یہ یاد رہے کہ اُن کے حصے کا اُنہی کو سوچنا ہے، کسی اور کو نہیں۔ آپ کو بھی نہیں۔
1948ء میں ریلیز ہونے والی پریم ادیب، پری چہرہ نسیم اور سُریندر کی فلم ''انوکھی ادا‘‘ کے گیت مکیش، شمشاد بیگم اور اُوما دیوی نے گائے تھے۔ اِس فلم کے لیے مکیش کا گایا ہوا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے ؎
منزل کی دُھن میں جھومتے گاتے چلے چلو
بچھڑے ہوئے دِلوں کو ملاتے چلے چلو
اِسی گیت میں آگے چل کر کہا گیا تھا ؎
دو دِن کی زندگی میں کوئی کیوں اُٹھائے غم
نغمے خوشی کے سب کو سناتے چلے چلو
انسانیت تو پیار‘ محبت کا نام ہے
انسانیت کی شان بڑھاتے چلے چلو
پورا گیت زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی تحریک دینے والا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ منزل کی دُھن میں رہتے ہیں وہ ہنستے گاتے زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی اِس حقیقت پر غور کیا ہے کہ کسی بھی ماحول میں وہ لوگ دور سے پہچانے جاتے ہیں جو کسی مقصد کے تحت جی رہے ہوتے ہیں؟ جب ذہن میں کوئی چیز بسی ہوئی ہے، کچھ پانا ہو تو زندہ رہنے کا لطف بھی کچھ اور ہوتا ہے اور انداز بھی الگ ہی ہوتا ہے۔ اگر ذہن نے طے کرلیا ہو کہ کہیں پہنچنا ہے تو سفر نرالا ہوتا ہی ہے‘ سفر کے دوران جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ بھی اپنی اصل سے ہٹ کر ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔
زندگی جیسی نعمت کھوکھلے قہقہوں کی نذر کرنے کے لیے ہے نہ ہر وقت منہ بسورنے کے لیے۔ یہ پورے توازن اور اعتدال کے ساتھ معقولیت کے دائرے میں لاکر برتنے کا معاملہ ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان طے کرلے کہ قدرت کی بخشی ہوئی اِس نعمت کو کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے بروئے کار لانا ہے۔ جو لوگ کسی معقول مقصد کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اُنہیں آپ ہنسنے کے وقت ہنستا ہوا اور مسائل درپیش ہونے پر معقولیت کے ساتھ متفکر پائیں گے۔ جینے کا یہی ڈھنگ متناسب اور مناسب ہے۔